عائشہ غازی
مجھے نہیں معلوم وہ کوئی فطرتِ سلیم سے عاری ایک محبِ وطن سپاہی تھا یا حبِ ذات میں مبتلا غدارِملت ۔ اس نے امریکہ کی جنگ میں کودنے کا خود کش فیصلہ صرف وطن کی محبت میں کیا تھا یا وہ ایک بزدل کمانڈو کی اسلام دشمنی تھی جس نے پاکستان کو سرنڈر کر کے اسلام کی جگہ "روشن خیالی” کو سرکاری مذہب بنانا تھا ، مجھے نہیں معلوم کیونکہ امریکہ کے ساتھ جو بھی معاہدہ ہوا، اس کے مندرجات کبھی قوم کے سامنے نہیں لائے گئے کہ ہمارے فوجی اڈوں سے لے کر انسانوں تک کو بیچنے کا معاہدہ کن شرائط پر تھا ۔ کوئی معاہدہ تھا بھی یا پھر "سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے”۔
مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ جب اس نے اقتدار گن پوائنٹ پر اپنے ہاتھ میں لے لیا تو بھول گیا کہ اس کے اوپر ایک خدا ہے ۔
مشرف نے اپنی کتاب کے انگریزی ورژن میں سی آئی اے کو "سسپکٹس” بیچ کر امریکہ سے انعام وصول کرنے کا اعتراف جرم خود ہی کر لیا تھا ۔ اگرچہ کے بعد میں اس کے اردو ورژن میں سے وہ حصہ حذف کر دیا گیا اور امریکہ میں ایک انٹریو میں کہا گیا کہ انگریزی میں پبلشنگ کی غلطی ہو گئی تھی۔
اس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ "مجھے نہیں معلوم کہ ( ٹارچر کے لئے ) کس سائز کی ڈرل استعمال کرتے ہیں یا اور کون سے آلات ۔۔ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے ۔۔ مجھے انفارمیشن چاہیے” ۔۔ وہ لوگ جو پاکستان کے عقوبت خانوں میں رکھ کر گوانتا نامو بھیجے گئے ، وہ کہتے ہیں گوانتا نامو جیسا جہنم بھی پاکستانی عقوبت خانوں سے بہتر تھا ۔
اس نے ہزاروں خاندانوں کو اپنوں کی جبری گمشدگی کا وہ دکھ دیا جس دکھ میں گزرا ہر سانس کانٹوں پر گھسیٹے جانے کے مترادف ہے ۔ یہ جن پر گزری ہے صرف انہیں معلوم ہے ۔۔
ڈرون حملوں میں مرنے والوں اور پھر پاکستان کی اپنی جیٹ بمباری میں مرنے والوں کی لاشیں اس کے حساب میں ہیں ۔ مائوں کی چادروں میں لپٹی بچوں کی قطار در قطار لاشیں وہ منظر ہیں جو بھلایا نہیں جا سکتا ۔ ڈمہ ڈولا میں تو طلباء کی لاشیں دستیاب چارپائیوں کی تعداد سے زیادہ ہو گئی تھیں ۔ موسکی میں ایک ہی خاندان کے بیس سے زیادہ افراد کے مارے جانے پر خاندان کا واحد سروایئور کئی روز ملبے پر روتا رہا تھا ۔
ایسی ہزاروں داستانیں ہیں اور ہر داستان سینہ کوبی کی مستحق ہے ۔ یہ سب لاشیں اور ان کی خاندانوں پر گزری اذیتیں بطور حکمران مشرف کے حساب میں ہیں ۔
لال مسجد ، پشاور باڑہ ، طاہر پلازہ کے وکلا ، بارہ مئی کی لاشیں ۔۔۔ ایک خون سے تر طویل داستان ہے اور عافیہ کی ماں جیسی کتنی ہی بے بس مائیں اپنی فریاد لے کر اللہ کے حضور مشرف سے پہلے حاضر ہیں ۔ وہ بھی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی ۔ اس سے آگے کا معاملہ اللہ کا اور اس کے بندے کا ہے ۔ اللہ قادر مطلق ہے ۔
لیکن اب سوال ان پر ہے جنہوں نے پاکستان کے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا اور پھر آج ایک آئین شکن کو پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سیلیوٹ کرتے رہے ۔ مشرف کے گھر والے اسے جیسے بھی دفناتے، ان کا حق تھا لیکن اس میں وردی والے جوانوں کی موجودگی نے پاکستان اور اداروں کے تعلق پر بہت بڑا سوال اٹھا دیا ہے ۔ کیونکہ ایک ہی وقت میں پاکستان اور آئین شکن کے ساتھ وفاداری نہیں ہو سکتی ۔ اگر ہو سکتی ہے تو پاکستان بیت اللہ محسود جیسے لوگوں کو مارنے میں یہ کہہ کر حق بجانب کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے آئین کو نہیں مانتے ، اس لئے یہ ہمارے دشمن ہیں ۔
بہر حال مشرف تو چلا گیا لیکن پاکستان پر پوسٹ مشرف دور چل رہا ہے اور معلوم نہیں کب تک چلے گا۔ پاکستان ویسا نہیں تھا جیسا مشرف کے آنے کے بعد ہوا اور ویسا شاید کبھی نہ ہو پائے جیسا مشرف سے پہلے تھا۔ پاکستان کمانڈو کے بچھائے ہوئے بارود پر چلتا ہوا لہو لہان اور لاغر ہو چکا ہے لیکن مشرف کا دور ابھی دور دور تک ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔
بہرحال مشرف اپنے جرم میں اکیلا نہیں تھا۔ آفتاب شیر پائو سے لے کر شاہ محمود قریشی تک مجرموں کی ایک طویل فہرست ہے ، بہت طویل ۔۔۔۔۔ وما کان ربک نسیا