رابرٹ فسک ، دانشور

آمر کی رخصتی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رابرٹ فسک / ترجمہ : آصف فرخی

اپنے ناول ”ایک سردار کا زوال“ میں گابرئیل گارسیا مارکیز ایک آمر کے روّیے کی تصویر کشی کرتا ہے جس کی حکومت کو خطرہ لاحق ہے اور مکمل انکار کی نفسیات اپنائے ہوئے ہے۔ اپنی شان و شوکت کے دنوں میں مطلق العنان حاکم سمجھتا ہے کہ وہ قومی ہیرو ہے۔ جب اسے بغاوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ ” غیر ملکی ہاتھ “ اور ” خفیہ منصوبوں “ پر الزام عائد کرتا ہے کہ اس کی فیض رساں مگر مطلق العنان حکومت کے خلاف اس ناقابلِ فہم انقلاب کو ہوا دے رہے ہیں ۔ جو لوگ اس شورش کو بڑھاوا دے رہے ہیں ، ” ان طاقتوں کے ہاتھوں میں آلۂ کار بنے ہوئے ہیں جو ہمارے ملک سے نفرت کرتی ہیں۔“ تب …. اور یہاں میں مارکیز کی وہ تلخیص استعمال کر رہا ہوں جو عظیم مصری مصنف علاءالاسوانی نے کی ہے،

”وہ آمر انجن کی طاقت آزمانے کی کوشش کرتا ہے ، اور یوں ہر کام کرتا ہے سوائے اس کے کہ جو اسے کرنا چاہیے ۔ وہ خطرناک ہو جاتا ہے اس کے بعد وہ ہر اس کام کے لیے تیار ہو جاتا ہے جو وہ اس سے کہتے ہیں ۔ پھر وہ چلا جاتا ہے۔“

الاسوانی نے انقلاب کو رومانوی بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ( اگر یہی واقعی ایسی کوئی چیز ہے۔ ) وہ اس عادت میں مبتلا ہو گیا ہے کہ سرکشی پر آمادہ ہجوم میں جا کر شامل ہونے سے پہلے صبح کے وقت ادبی محفل منعقد کرتا ہے ، اور پچھلے ہفتے اس نے یہ خیال ظاہر کیا کہ انقلاب ، انسان کو زیادہ قابلِ عزت بنا دیتا ہے ۔ بالکل جیسے عشق ، انسان کے وقار میں اضافہ کرتا ہے ۔

میں نے اس کے سامنے یہ خیال ظاہر کیا کہ بہت سے لوگ جو عشق کرتے ہیں ، حد سے زیادہ وقت اپنے رقیبوں کو ختم کرنے پر برباد کرتے ہیں اور مجھے کوئی ایسا انقلاب یاد نہیں آتا کہ جس نے یہی کام نہ کیا ہو ۔ مگر اس کا جواب ، کہ مصر محمد علی پاشا کے زمانے سے لبرل رہا ہے اور پہلا عرب ملک تھا جو ( انیسویں صدی میں ) کثیر الجماعتی سیاست سے لطف اندوز ہو رہا تھا، قابلِ اعتبار تھا۔

اگر مبارک آج یا اس ہفتے رخصت ہو گیا تو مصری عوام بحث کریں گے کہ انہیں اس کاٹھ کے آمر کو اٹھا کر پھینک دینے میں اتنے دن کیوں لگے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان مطلق العنان حکم رانوں کے دور میں …. ناصر، سادات ، مبارک اور جس کسی بھی اگلے کو واشنگٹن کی فیوض و برکات حاصل ہوں …. مصر کے عوام دو نسلوں کی پختگی کا مرحلہ پیچھے چھوڑ گئے ۔ اس لیے کہ کسی بھی آمر کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے عوام کو ”بچہ بنا کر رکھ دے“(infantalize) تا کہ سیاسی معاملوں میں ان کی عمر چھ سال کی ہو جائے اور وہ سر پرستانہ ہیڈ ماسٹر کے مطیع و فرماں بردار ہوں ۔

ان کو جعلی انتخابات، جعلی اخبار، جعلی وزیر اور بہت سے جھوٹے وعدے عطا کیے جائیں گے ۔ اگر وہ فرماں بردار ہوں تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ خود بھی ان جعلی وزیروں میں سے ایک بنا دیے جائیں ؛ اگر وہ نافرمانی کریں تو مقامی تھانے میں ان کی پٹائی کروائی جائے گی یا پھر تو رہ جیل میں ڈال دیا جائے گا اور اگر وہ مسلسل تشدد پر آمادہ رہے تو پھانسی دے دی جائے گی۔

جب نوجوانی اور ٹیکنالوجی کی طاقت نے مصر کی اس اطاعت شعار آبادی کو مجبور کیا کہ ” بڑی ہو جائے“ اور اپنے ناگزیر انقلاب پر عمل درآمد کرے ، تب کہیں جا کر ان سب ” زبردستی کے بچّے بنے ہوئے “ لوگوں پر آشکار ہوا کہ حکومت خود بچوں پر مشتمل ہے، جن میں سب سے بڑے بچّے کی عمر 83 سال ہے۔ اس کے باوجود سیاسی انجذاب کے مہیب عمل کے ذریعے اس آمر نے 30 سال تک مغرب میں بھی اپنے نام نہاد پختہ حلیفوں کو بھی بچّہ بنائے رکھا ۔ انہوں نے یہ بات بے چون و چرا تسلیم کرلی ہے کہ مبارک ہی وہ فولادی دیوار ہے جو مصر اور باقی تمام عرب دنیا میں امڈنے والے سیلابی ریلے کو روکے ہوئے ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں