سابق وزیر اعظم پاکستان اور تحریک انصاف کے چئیرمین جناب عمران خان اور بشریٰ بی بی کے شادی کا قصہ ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ اگرچہ یہ خبر گزشتہ پانچ برس سے عام ہے کہ بشریٰ بی بی نے خاور مانیکا سے طلاق لینے کے بعد ، عدت پوری کیے بغیر عمران خان سے نکاح کیا ، تاہم اس خبر کی باقاعدہ تصدیق نکاح خواں مفتی محمد سعید نے معروف اینکر پرسن اور تجزیہ نگار سلیم صافی سے انٹرویو کے دوران کی۔ یوں یہ معاملہ ایک بار پھر زندہ ہوگیا ۔ تب اور اب کے حالات میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ پہلے جب یہ قصہ چھڑا تھا ، تب وزیر اعظم عمران خان ملک کے وزیر اعظم تھے ، اب وہ سابق وزیر اعظم ہیں ۔
واضح رہے کہ عمران خان نے یکم جنوری دو ہزار اٹھارہ کو بشریٰ بی بی سے خفیہ شادی کی تھی اور معروف رپورٹر عمر چیمہ نے شادی کی خبر بریک کی تھی ۔ اس خبر نے پاکستان کے سارے سیاسی منظر نامے کو ہلا کر رکھ دیا ۔ اس کے آفٹر شاکس اب بھی آتے رہتے ہیں ، اور ایسی تفصیلات سامنے آتی ہیں جو عمران خان ، بشریٰ بی بی اور تحریک انصاف والوں کے لئے شرمندگی کا باعث بنتی ہیں۔
عمر چیمہ نے یہ خبر کیسے بریک کی ؟ یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔ جسے خود عمرچیمہ نے بیان کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انھیں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی کی خبر ملی ، تو انھوں نے اپنے دفتر میں کسی سینئیر سے بات کی ۔ یہ خبر سب لوگوں کے لئے ناقابل یقین تھی ۔ لوگ اس لئے یقین نہیں کر رہے تھے کہ عمران خان اپنی مرشد سے کیسے شادی کرسکتے ہیں ! یا ایک مرشد اپنے مرید سے کیسے شادی کرسکتا یا کرسکتی ہے !! یہ خاتون مرشد شادی شدہ بھی تھیں۔ ان کے پانچ بچے تھے۔ اس بنیاد پر کوئی فرد اس خبر کو درست ماننے کو تیار نہیں تھا۔
عمر چیمہ نے اپنے سینئر سے کہا کہ ان کا سورس ( ذریعہ ) بہت قابل اعتماد ہے۔ تاہم سینئیر نے انھیں کسی دوسرے رپورٹر کا واقعہ بھی بتایا اس کا بھی سورس بہت قابل اعتماد تھا لیکن اس کی خبر بھی غلط نکلی اور ادارے کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ۔ عمر چیمہ نے اپنی خبر کے درست ہونے پر اصرار کیا ، تاہم کہا کہ وہ ایک بار پھر خبر کو چیک کرلیں گے ۔ سورس نے انھیں بتایا کہ اس خبر میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔ عمر چیمہ کہتے ہیں :
میں نے سورس سے کہا کہ مجھے آپ پر کوئی شک نہیں ہے لیکن آپ کو بھی کہیں سے معلومات ملی ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ خبر کی تصدیق” کے دوران میں آپ سے بھی کوئی جھول رہ گیا ہو ۔ میں اس معاملے کو ایک صحافی کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ آپ صحافی نہیں ہیں۔ آپ سے کوئی چیز رہ سکتی ہے ۔
بہرحال میں نے ایک بار پھر خبر کی تصدیق کے لئے کام شروع کردیا ۔ سب سے پہلے مفتی سعید صاحب ( عمران خان کے نکاح خواں ) کو فون کیا ، پوچھا کہ سنا ہے آپ نے لاہور میں عمران خان کا نکاح پڑھایا ہے ۔
مفتی صاحب نے جواب دیا : ” چیمہ صاحب ! میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن میں اس موضوع پر کسی بھی قسم کی کوئی بات کہنے سے معذرت خواہ ہوں۔”
میں مفتی صاحب کا بھی پس منظر جانتا تھا۔ جب خان صاحب کی ریحام خان سے شادی ہوئی، ان کا پہلا نکاح اکتوبر دو ہزار چودہ میں ہوا تھا۔ انھوں نے دس محرم کو نکاح کیا تھا تاہم انھوں نے اس کا اعلان جنوری دو ہزار پندرہ میں کیا تھا۔ چنانچہ یہ دوہرا نکاح تھا۔ ایک چھپ کے کیا ، دوسرا کیمرہ کے سامنے کیا۔ اس نکاح کے بارے میں جب میں نے مفتی صاحب سے پوچھا تو انھوں نے تردید نہیں کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ نکاح ہوگیا ہے ، اس لئے چھوڑ دیں ان باتوں کو۔ ان کے جواب کا ایک مطلب تھا کہ ہاں ! آپ کی بات درست ہے۔ اس تناظر میں مفتی صاحب کے بارے میں میرا تاثر تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہیں گے کہ میں اس پر بات نہیں کرتا۔
عون چودھری عمران خان کے بہت قریب تھے۔ میں نے انھیں فون کال کی ۔ انھوں نے کہا کہ ” ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ شادی نہیں تھی ۔ نکاح وغیرہ کا کوئی معاملہ نہیں تھا ۔ ہم تو اس رات ادھر ( اسلام آباد ) ہی تھے ، آپ چیک کرلیں ” ۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ ( عون چودھری ) بھی بڑی تیاری کے ساتھ ( تقریب نکاح میں ) گئے تھے ۔ تیاری سے مراد یہ ہے کہ عمران خان ، ذلفی بخاری اور عون چودھری وغیرہ سب کے سب اپنے فون ادھر ( اسلام آباد میں ) رکھ کر گئے ہوئے تھے تاکہ ان کی لوکیشن کا کسی کو پتہ نہ چل سکے۔
میرا اگلا ہدف خاور مانیکا تھے، بشریٰ بی بی کی جن سے پہلے شادی ہوئی تھی ۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ اگر میں انھیں شادی کا بتائوں تو وہ کہیں گے کہ طلاق ہی نہیں ہوئی ۔ ایسے میں میری خبرختم ہوجائے گی ۔ بہرحال میں نے انھیں فون کال کی ۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کو بعد میں کال بیک کروں گا ۔ میں نے دوسری بار فون کیا تو انھوں نے کہا کہ میری والدہ بیمار ہیں اور ہسپتال میں ہیں ۔ مجھ سے بھی تھوڑی سے ایک غیر اخلاقی حرکت سرزد ہو گئی۔ میں نے انھیں کہا کہ میرے ایک دو سوال تھے۔ انھوں نے کہا کہ یار ! میری والدہ بیمار ہیں۔ میں نے کہا کہ آئی ایم سوری ! آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ اور پھر میں خاموش ہوگیا۔
پھر انھوں نے چند گھنٹوں بعد یا اگلے دن خود مجھے فون کال کی کہ اب پوچھیں ۔ انھیں بھی کوئی آئیڈیا نہیں تھا کہ میرے کیا سوالات ہوں گے ۔ میں نے ان سے کہا : سر ! مجھے سوالات کچھ awkward سے ہیں ۔ اس وقت انھوں نے awkward کا لفظ نہیں سنا تھا۔ میں نے پوچھا کہ مجھے یہ بتائیں کہ کیا آپ کی طلاق ہوگئی ہے ؟
اس طرح کا سوال پوچھنا بذات خود ایک امتحان ہوتا ہے کیونکہ یہ کوئی خوشی کا معاملہ نہیں ہوتا ۔
انھوں نے جواب دیا : ” یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے ” ۔
میں نے کہا ” سر! آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ یہ بات پوچھنے والی نہیں ہے ۔ تاہم میں نے شروع ہی میں آپ سے کہہ دیا تھا کہ میں awkward سوال پوچھنے والا ہوں ۔ پھر انھوں نے کہا کہ میں کوئی celebrity نہیں ہوں۔ میری طلاق ہو یا میری شادی ہو ، آپ لوگوں کو اس سے کیا مطلب ؟ میں نے ان سے کہا کہ آپ کی یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ آپ celebrity نہیں ہیں ۔ لیکن اس خبر میں ایک celebrity موجود ہے ، اس لئے پوچھ رہا ہوں۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے دنیا کی بے ثباتی پر ایک لیکچر دیا۔
میں نے ان کی گفتگو کا سلسلہ توڑتے ہوئے کہا کہ آپ اللہ اور اس کے رسول کی بات کر رہے ہیں ، آپ اللہ اور اس کے رسول کو حاضر و ناظر رکھتے ہوئے بتا دیں کہ کیا آپ کی طلاق نہیں ہوئی؟
یہ ایک بولڈ سوال تھا کیونکہ اگر وہ ” نہیں ” کہہ دیتے تو میری ساری خبر اڑ جاتی ۔ بعض لوگ ایسے مرحلے پر جھوٹ بھی بول دیتے ہیں۔ انھوں ( خاور مانیکا ) نے کہا کہ جہاں تک طلاق کا معاملہ ہے ، وہ ہوگئی ہے اور اللہ کے حکم پر ہوئی ہے ۔ لیکن یہ جو عمران خان کے ساتھ شادی کی بات کر رہے ہیں ، شادی نہیں ہوئی ۔
میں نے کہا : ” سر ! وہ سوال آپ سے متعلق نہیں ہے۔ آپ سب سے درست فرد تھے طلاق کی خبر کی تصدیق کے لئے۔ شادی ان دونوں ( عمران خان اور بشریٰ بی بی ) کا معاملہ ہے۔”
اس کے بعد میں نے دوبارہ مفتی سعید صاحب سے رجوع کیا اور کہا : ” مفتی صاحب ! میں آپ سے تین مرتبہ پوچھوں گا ، آپ نے ہاں یا ناں جو بھی جواب دینا ہے ، دیدیں۔”
میں نے پوچھا : ” کیا یہ بات درست ہے کہ یکم جنوری کو لاہور ڈی ایچ اے میں آپ نے عمران خان کا بشریٰ بی بی سے نکاح پڑھایا ہے؟”
میں نے تین دفعہ پوچھا ۔ مفتی صاحب نے خاموشی اختیار کی۔ انھوں نے ” ہاں ” یا ” ناں ” میں کوئی بات نہیں کی ۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ۔ اس کے بعد میں نے خبر فائل کردی اور اپنے ایڈیٹر کو لکھا "یہ میری زندگی کا سب سے بڑا جوا ہے ۔ اور مجھے اپنے سورس پر بہت زیادہ اعتماد ہے ۔ براہ کرم اسے نمایاں انداز میں شائع کیجیے۔ "
مجھے خان صاحب کی شادی کی خبر دو جنوری کو مل گئی تھی لیکن اس کے بعد میں نے اس خبر کی تصدیق پر وقت لگادیا ۔ ادھر عمران خان کو بھی علم ہوگیا تھا کہ عمر چیمہ شادی کی خبر پر کام کر رہا ہے ۔ پھر مجھے بنی گالہ سے اطلاع ملی کہ خان صاحب کسی کو فون کر رہے تھے اور مجھےگالیاں دے رہے تھے ۔ انھوں نے کہا کہ کوئی بندہ عمر چیمہ کو گاڑی مار دے ۔
میں نے سوچا کہ خان صاحب کی جس طرح کی فالوونگ ہے، ان کی تجویز کو بھی لوگ حکم تصور کریں گے ۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ اگر گاڑی مجھے ماری جانی ہے تو وہ اسی خبر کی وجہ سے ہی ماری جانی ہے ۔ اگر سٹوری شائع ہوگی تو میں گاڑی لگنے سے محفوظ رہ سکتا ہوں ۔ خبر اگلی صبح روزنامہ دی نیوز اور روزنامہ جنگ کے پہلے صفحہ پر شائع ہوگئی ۔
یکم جنوری کو نکاح ہوا اور اگلے روز عمران خان اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے اور ان کی ضمانت بھی ہوگئی ۔ یہ بھی ایک نیک شگون تھا ۔ شادی کی خبر پانچ یا چھ جنوری کو شادی ہوئی ۔ اس روز عمران خان نے چکوال جانا تھا۔ ادھر انھیں صحافی مل گئے ۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ کی شادی کی خبر کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے ؟ آپ اس خبر کی تصدیق کریں یا تردید کریں ۔ جب خان صاحب نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا تو ہمارے اخبار کی انتظامیہ کے اعتماد کا لیول بلند ہوگیا ۔ بصورت دیگر وہ بھی کنفیوژن کا شکار تھے ۔
شادی کو خفیہ رکھنے کا عالم دیکھیں ، ایک بندہ جو اس نکاح کے معاملے میں شامل تھا ، سے ( خبر چھپنے کے بعد ) میری بات ہوئی ۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ آپ کو یہ خبر کیسے ملی ؟ میں نے اس سے کہا کہ اگر آپ مجھے کوئی بات بتائیں تو میں کسی کو آپ کے حوالے سے نہیں بتائوں گا کہ مجھے فلاں بندے نے یہ بات بتائی ہے ۔ بس ! مجھ یہ خبر مل گئی تھی ۔
اس نے کہا کہ ابھی تک یہ ہمارے لئے معمہ ہے کہ یہ خبر کیسے لیک ہوئی؟ اس بندے نے کہا کہ میں چاہتا تھا کہ مجھے اپنی زندگی ہی میں اس سوال کا جواب مل جائے لیکن آپ چاہتے ہیں کہ میری یہ خواہش پوری نہ ہو ۔ اس شادی کی تقریب میں چند لوگ ہی تھے ۔ عمران خان ، ذلفی بخاری ، عون چودھری ، فرح ، بشریٰ بی بی اور مفتی سعید ۔
میں نے ( خبر کی تصدیق کے لئے ) نعیم الحق مرحوم سے بھی پوچھا تھا ، انھوں نے کہا : ” عمر چیمہ ! یہ خبر غلط ہے ۔ میں خان کو پینتیس سال سے جانتا ہوں ۔ میں نے خان کے ساتھ جو وقت گزارا ہے ، اس کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ خان ابھی شادی نہیں کرے گا۔ اگر وہ شادی کرے گا تو الیکشن کے بعد ہی کرے گا۔” بعد میں پتہ چلا کہ نعیم الحق کو بھی علم نہیں تھا۔ میں نے خاور مانیکا کا بھی آپ کو پہلے ہی بتا دیا ہے ، انھوں نے بھی کہا کہ شادی نہیں ہوئی ۔ ان کے بیٹے کو بھی علم نہیں تھا ، وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا۔
مجھے جیو سے کال آئی کہ بشریٰ بی بی کا بیٹا کہتا ہے کہ میں اس معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ ہمیں کچھ سوالات بتا دیں جو ہم اس سے پوچھ لیں ۔ میں نے سوالات دیدیے ۔ بعد میں انھوں نے کہا کہ پروگرام ہے ، اس لئے آپ بھی آجائیں۔ مجھے علم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا بھی وہاں لائن پر ہے۔ وہ ایک جذباتی کرائسز سے گزر رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں . میں اصرار کر رہا ہوں کہ اس کی والدہ نے دوسری شادی کرلی ہے ۔ اس کے چوبیس گھنٹے بعد خان صاحب کی طرف سے بھی اس خبر کی تردید آگئی۔ تردید یہ تھی کہ نہیں ، ابھی تو رشتہ بھیجا ہے۔
عمران خان نے ریحام خان کے ساتھ شادی اکتوبر میں کرلی ، بعدازاں عارف نظامی مرحوم نے خبر دی کہ شادی ہوگئی ہے ۔ اکتیس دسمبر کو خان صاحب کی طرف سے ٹویٹ آیا کہ میری شادی کےبارے میں افواہیں بہت زیادہ مبالغہ آمیز ہیں ۔ پھر آٹھ جنوری کو باقاعدہ کیمرے کے سامنے شادی کرلی ۔
بشریٰ بی بی والے معاملے میں بھی خبر آنے کے بعد کہہ دیا گیا کہ ابھی رشتہ بھیجا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی میرے خلاف پیمرا میں کیس دائر کردیا گیا کہ اس نے جھوٹی خبر چلائی ہے ۔ پھر اٹھارہ فروری کو شادی کی تصویر جاری کردی گئی ۔ اور کہا کہ شادی اب ہوئی ہے۔ یہ باقاعدہ ( دوسری ) تقریب اسی گھر میں ، اسی کمرے میں ہوئی اور تمام شرکا کو پابند کیا گیا کہ وہ وہی کپڑے پہن کر آئیں جو اس روز پہنے ہوئے تھے ۔ دراصل انھیں شک تھا کہ شاید عمر چیمہ کے پاس کوئی تصویر بھی ہے۔
تصویر جاری ہونے کے بعد ، ایک روز نعیم الحق مرحوم نے بہت افسوس ظاہر کیا کہ خان نے انھیں اعتماد میں نہیں لیا ۔ وہ مفتی سعید صاحب کے ساتھ اپنا غم غلط کر رہے تھے ۔ مفتی صاحب بھی کوئی زیادہ خوش نہیں تھے ۔ پھر مفتی صاحب نے کچھ باتیں سنائیں ۔ انھوں نے بتایا کہ اٹھارہ فروری کی تقریب کے بعد خان نے مجھے کہا : ” مفتی ! اب میری عزت تمھارے ہاتھ میں ہے ۔ میڈیا تمھارا پیچھا کرے گا، وہ تمھیں پوچھے گا کہ شادی یکم جنوری کو ہوئی تھی؟ تم نے کہنا ہے کہ نہیں ! اٹھارہ فروری کو ہوئی تھی ۔ ”
اس دوران فرح خان نے بھی کہا : ” مفتی تو ہمارا مفتی ہے نا ! پہلے بھی لوگ ان کے پیچھے گئے ، انھوں نے کچھ بھی نہیں بتایا۔
اس پر خان صاحب نے مفتی صاحب کو بہت خراج تحسین پیش کیا کہ آپ نے بہت کمال کیا ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ” آپ کو تحریک انصاف کی مرکزی کور کمیٹی کا رکن بھی بناتا ہوں۔”
اس دوران میں وہ طلاق کی باتیں بھی کرتے رہے ۔ فرح خان نے بتایا کہ طلاق چودہ نومبر کو ہوئی تھی ۔ عدت کا عمل چودہ فروری تک پورا ہونا ہے ۔ جب ( طلاق کی تاریخ اور عدت پوری ہونے کی تاریخ کے حوالے سے ) گفتگو ہو رہی تھی ، اس دوران میں یہ گفتگو وہاں ہونے والی کسی ریکارڈنگ کا حصہ بن گئی ۔ اس طرح وہ بات ہم تک پہنچ گئی ۔
اس شادی کے اس سارے عمل میں بہت سے لوگوں پر مختلف قسم کے اثرات پڑے ۔ برے اثرات بھی پڑے ۔
عون چودھری نے عمران خان کا بشریٰ بی بی کے ساتھ رابطہ کروایا تھا ۔ اس وقت خان صاحب ریحام خان کو طلاق دے کر تنہائی محسوس کر رہے تھے۔ عون چودھری عمران خان کو بشریٰ بی بی کے پاس دعا کروانے کے لئے لے کر گئے کہ وہ اس کیفیت سے نکلیں۔ اس طرح ان کا باہم رابطہ ہوا۔ پھر دیکھیں کہ عون چودھری کو کیسے نکالا گیا۔
جس روز خان صاحب صبح وزیر اعظم بن رہے تھے ، اس سے گزشتہ شب حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے دعوتی کارڈ فرح خان کو عون چودھری نے بھیجا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ خان صاحب کا کس قدر وفادار تھا۔ پھر رات ڈیڑھ بجے پیغام آگیا کہ بشریٰ بی بی نے خواب دیکھا ہے کہ آپ ( عون چودھری ) تقریب حلف برداری میں نہ آئو۔ یوں عون چودھری فارغ ہوگیا۔
جہانگیر ترین کا پتہ پہلے ہی کٹ چکا تھا۔ اس وقت جادوگرنی وغیرہ کی باتیں پھیلی تھیں ، جہانگیر ترین نے کسی جگہ کوئی بات کی ۔ خان صاحب نے نکاح کے کچھ عرصہ بعد رسم ولیمہ رکھی۔ اس میں قریبا اکیس لوگ شریک تھے۔ شیریں مزاری ، علی زیدی ، عمران اسماعیل ، پرویز خٹک اور جہانگیر ترین بھی شریک تھے۔ مہمانوں سے بشریٰ بی بی کا تعارف کروایا جارہا تھا۔ جب وہ جہانگیر ترین کے پاس پہنچے تو انھوں نے بتایا کہ یہ جہانگیر ترین ہیں ۔
بشریٰ بی بی نے کہا کہ اچھا ! یہ جہانگیر ترین ہیں !! پھر کہا : ” ترین صاحب! میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں جادوگرنی نہیں ہوں "۔ ترین صاحب ادھر گھبرا گئے ۔ میں نے یہ بات بھی رپورٹ کی ۔ میں نے ترین صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ بات ہوئی تھی؟ ترین صاحب نے بتایا کہ ہمارے ادھر ایک نجی محفل میں ہوئی تھی ۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ میں آپ کو ہر بات بتائوں؟ یعنی انھوں نے اس کی تردید نہیں کی ۔ یوں جہانگیر ترین بھی فارغ ہوگئے یعنی شادی کے برے اثرات کا شکار ہوگئے۔
خان صاحب کے تین چار ذاتی ملازم تھے ، وہ کافی عرصہ سے عمران خان کے ساتھ چل رہے تھے ۔ اس میں انعام نامی شخص بھی تھا جو اس آڈیو میں تھا جو لیک ہوئی تھی ، جو توشہ خانہ کا ریکارڈ رکھتا تھا کہ کتنے گفٹ آئے ہیں ۔ وہ اس چکر میں فارغ ہوگیا ۔ اسے ایک سرکاری گھر دیا گیا تھا ۔ اسے کہا گیا کہ آج ہی نکلو ۔ اسے راتوں رات گھر سے نکال دیا گیا۔ ایک ڈرائیور تھا ، وہ بھی فارغ ہوا۔ ایک پرانا گارڈ تھا، اسے بھی فارغ کردیا گیا ۔ یعنی تین چار لوگ اسی شادی کے برے اثرات کی نذر ہوگئے ۔
شادی سے جن لوگوں کو فائدہ ہوا ، ان میں ایک عثمان بزدار تھے ۔ ان کی اہلیہ فرح گوگی کی دوست ہیں ۔ انھیں فرح خان کے شوہر احسن گجر نے متعارف کروایا۔ ان کے ساتھ ایک دوسرا گجر تھا جو راحت بیکری کا مالک ہے۔ انھوں نے عثمان بزدار نامی بندہ دریافت کیا ۔ منصوبہ یہ تھا کہ پنجاب کو کسی طرح کنڑول کیا جائے ۔ اس دوران میں بشریٰ بی بی نے کوئی مراقبہ کیا ، اور کہا :” کوئی ایسا بندہ وزیر اعلیٰ بنایا جائے جس کا نام ” ع ” سے شروع ہو ۔ دیکھیں ! اگر کوئی عثمان نامی بندہ ہو۔ ” پتہ چلا کہ ایک رکن صوبائی اسمبلی عثمان بزدار ہے ۔ "
آج یعنی چھبیس جنوری دو ہزار تئیس کو معروف کالم نگار اور اینکر پرسن جاوید چودھری نے اپنے اردو کالم میں عون چودھری سے ملاقات کا احوال لکھا ہے۔ انھوں نے عون چودھری سے پوچھا ” نکاح کی خبر عمر چیمہ ( ملک کے مشہور صحافی اور رپورٹر ) کو کس نے دی تھی؟ "
بولے ” یہ خبر ہمارے لیے بھی حیران کن تھی‘ میرا خیال ہے یہ خبر احسن جمیل گجر نے لیک کی تھی ۔ یہ لوگ چاہتے تھے عمران خان کا مائینڈ بدلنے سے پہلے یہ خبر عام ہو جائے تاکہ کام پکا ہو جائے "
میں ( جاوید چودھری ) نے پوچھا ” آپ لوگوں نے خبر نکلنے کے بعد نکاح سے انکار کیوں کیا تھا؟”
ان کا جواب تھا ” بی بی اس وقت عدت میں تھی‘ ہم اگر مان لیتے توفتوؤں کا شکار ہو جاتے”
میں نے پوچھا ” آپ کو پھر نکاح کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ عدت پوری ہو لینے دیتے”
یہ شرمندہ ہو کر بولے ” بی بی کا کہنا تھا یہ حکم اوپر سے آیا ہے اور ہم اوپر والے کا حکم کیسے ٹال سکتے تھے؟”
2 پر “عمران خان ، بشریٰ بی بی کا دوران عدت نکاح ، خبر کیسے بریک ہوئی؟ دلچسپ کہانی” جوابات
اسلام و علیکم مجھے یہ خبر پڑھ کر انتہائی حیرانگی ہو رہی ہے کہ میڈیا کسی کے ذاتی زندگی میں اتنا انٹرسٹ کیسے لے سکتی ہے۔ بادبان تو ویسے بھی اپنے آپ کو جماعت اسلامی کی ویب سائٹ کہلواتی ہے۔اور اسلامی جماعت والے کیسے یہ بے حودہ تحریر نشر کر سکتے ہیں۔ بے شک عمران خان سابقہ وزیر اعظم ہیں۔ عدت میں شادی ان کا اور بشریٰ بی بی کا پرسنل معاملہ ہے۔ اس کا فیصلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہے۔ میڈیا کون ہوتا ہے کسی کی زاتی زندگی میں لکھنے والا۔ بھائی یہ نہایت ہی غلط کام ہے۔آپ لوگوں کا یہ کام عمران خان کی زندگی پر کافی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ جو کہ کچھ پاکستان دشمن طاقتیں چاہتی ہیں اور آپ ان کا ساتھ دے رہے ہیں یعنی میں اس سائٹ کے لوگوں کو غدار کہوں تو غلط ناں ہوگا۔باقی کچھ برا لگا ہو تو معذرت برحال یہ تحریربہت بری ہے۔جاوید چوہدری صاحب بھی خان کے پیچھے پاگلوں کی طرح پڑا ہوا ہے۔ ایسی تحریر پڑھنے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ میں خان کے ساتھ حق پر ہوں۔ باقی آپلوگوں کی اپنی سوچ ہے۔
شکریہ
بادبان ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قطعی طور پر جماعت اسلامی کی ویب سائٹ نہیں ہے۔ اپنی معلومات درست کرلیں۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس مضمون میں غلط معلومات دی گئی ہیں تو آپ براہ کرم درست معلومات اور ثبوت و دلائل کے ساتھ اس مضمون کا جواب لکھیں ، آپ کا مضمون بادبان ڈاٹ کام پر شائع کیا جائے گا شکریہ کے ساتھ۔