نگہت حسین
کووڈ کے دنوں میں پاکستان کی ٹیلی ویژن اداکارہ اور گلوکارہ حرا مانی اپنے بچے کے آن لائن امتحانات میں نقل نہ کرنے پر بہت خوش ہوئیں ۔۔۔۔ نظر سے یہ خبر گزری ۔۔۔۔۔۔۔ تو سوچا اس دفعہ تو الحمد للہ ہر بچے نے یہ بات ثابت کیا ہے کہ دنیا میں بچے سلیم الفطرت بھیجے گئے ۔
پیدائشی اسی سچے دین کے ماننے والے بھی ہوتے ہیں جو کہ اللہ تعلی کا پسندیدہ دین ہے ۔
روح نیک ہوتی ہے ۔۔ لطیف ۔۔۔۔ خوب صورت
اس کو آلودہ کرنے والے ہم ہیں ۔۔۔ اردگرد کا ماحول ہے ۔۔۔۔
کامیابی کے غیر حقیقی ۔۔۔ معیارات ہمارے وضع کردہ ہیں۔
خود کو مصنوعی ذرائع سے خوش رکھنے کی آرزو ہماری ہے ۔
بچہ ایک گلے لگانے سے ۔۔۔ پیار بھرے لمس سے ۔۔۔۔ کبھی مل کر خوب ہنسی لینے سے ہی خوش ہوجاتا ہے ۔
اس کے اندر فطری سچائی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔بچوں کو جھوٹ ۔۔۔۔ بدصورتی ۔۔۔۔۔۔ دھوکہ ۔۔۔۔۔ غصہ اور نفرت ہم سکھاتے ہیں ۔
صرف آن لائن امتحانات ہی کو دیکھ لیجیے اس میں بچے جتنے چھوٹے ہیں اتنا ہی دیانت داری اور ایمان داری کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ یہ والدین ہیں جو ان بچوں کو اکسا رہے ہیں کہ کچھ نہ کچھ غلط ذرائع استعمال کر لو کہ کہیں کوئی غلطی نہ رہ جائے ۔۔۔۔ نمبر کم نہ ہوں ۔۔ گریڈز متاثر نہ ہوں لیکن ۔۔۔۔۔۔ بچوں کی دیانت داری کو سلام ۔۔۔۔۔۔
تقریبا ہر بچے کی والدہ سے یہی رپورٹ ملی کہ بچے نے نقل سے انکار کردیا۔
امتحانات میں نقل کون سکھاتا ہے ؟
زیادہ نمبروں کی دوڑ میں کس کا کتنا حصہ ہے ؟
بچے پر غلط ذرائع استعمال کرنے کا جھوٹی قابلیت ظاہر کرنے کا دباؤ کون ڈالتا ہے ؟
کیا کبھی آپ کو اس بات پر فکر ہوئی کہ بچے کی قابلیت سے زیادہ اس کے نمبرز رپورٹ کارڈ میں لکھے گئے ہیں ؟
ان سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔