سنیہ عمران
انیس مئی 2023 بروز جمعہ کی سہ پہر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب سراج الحق پر ژوب( بلوچستان) کی طرف جاتے ہوئے خود کش حملہ ہوا۔ جس میں امیر جماعت اسلامی محفوظ رہے، ان کی گاڑی کو معمولی سا نقصان ہوا جبکہ 6 سے 7 کارکنان زخمی ہوئے اور خودکش حملہ آور ہلاک ہوگیا۔ کہا جارہا ہے کہ خودکش جیکٹ جزوی طور پر نہیں پھٹ سکی، جس کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔
ژوب ایک پختون اکثریتی ضلع ہے ،جو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 335 کلومیٹر دور واقع ہے۔ اس ضلع کی سرحد ایک طرف صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ملتی ہے اور دوسری طرف افغانستان سے۔
اس سوال پر غور و فکر کیا جارہا ہے کہ آخر جناب سراج الحق پر حملے میں کون ملوث ہے؟ ابھی تک کسی گروہ کی طرف سے ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے محمد خراسانی نے ایک خط میں جناب سراج الحق پر حملہ کی مذمت کی ہے اور واضح طور پر اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان کا کہنا ہے کہ سیاسی مذہبی جماعتیں ہمارے اہداف میں شامل نہیں ہیں۔ بعض چینلز سستی شہرت کے حصول کے چکر میں من گھڑت کہانیاں پھیلا رہے ہیں۔
اگر کالعدم تحریک طالبان کے مذکورہ بالا خط سے ہٹ کر بھی غور کیا جائے تو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو نشانہ بنانے سے کالعدم ٹی ٹی پی کو کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے بعد دوسرا خیال بلوچ ناراض گروہوں کی طرف جاتا ہے تاہم ان کے ملوث ہونے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ سبب یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور بلوچ ناراض گروہ کبھی ایک دوسرے کے راستے میں نہیں آئے۔ بلوچ ناراض گروہ بھی بلوچستان کے مسائل کی بات کرتے ہیں جبکہ جماعت اسلامی بھی بلوچستان کے بنیادی مسائل کی بات کرتی ہے۔ گوادر کو حق دو تحریک کے بانی مولانا ہدایت الرحمن بلوچ ، بنیادی طور پر جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے گوادر کے عام لوگوں ، مچھیروں کو درپیش مسائل کی بات کی، وہ باہر نکلے، احتجاج کیا، دھرنے دیے۔
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے جس طرز پر تحریک چلائی، اور کامیابی حاصل کی، وہ بلوچستان میں موجود ان لوگوں کے لیے خطرہ ہے جو بلوچستان سے اپنی روزی روٹی کا بندوست کرتے ہیں۔ اگر جماعت اسلامی اسی طرز پر بلوچستان کے باقی حصوں میں بھی تحریک چلاتی ہے تو یہ ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ حملہ ایسے ہی کسی گروہ کی طرف سے کروایا گیا ہو۔
واضح رہے کہ گوادر کو حق دو تحریک اس قدر کامیاب ہوئی کہ بلدیاتی انتخابات میں اس نے گوادر کی 31 میں سے 27 نشستیں جیت لیں۔جس کے بعد مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کو گرفتار کرلیا گیا۔ انھیں مہینوں تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ تاہم یہ صعوبتیں ان کے عزم و استقامت کو نہ توڑ سکیں۔
اگر مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کے مطالبات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں سرفہرست اسمگلنگ کا خاتمہ کا مطالبہ ہے۔ بالخصوص جو اسمگلنگ پاک ایران بارڈر پر ہوتی ہے۔ اس اسمگلنگ میں کچھ طاقتوروں کے نام سامنے آتے ہیں۔ ان کے دھندے پورے بلوچستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی تحریک کی وجہ سے گوادر میں اسمگلنگ کرنے والے بڑی مشکل میں پڑ گئے ہیں۔ گوادر کو حق دو تحریک کا بنیادی مطالبہ اسمگلنگ کا خاتمہ ہے۔ ممکن ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسمگلرز ہوں۔ اسمگلرز کی سر پرستی کرنے والے بڑے بڑے لوگ ہیں، وردی والے بھی اور بغیر وردی والے بھی۔
جماعت اسلامی پاکستان میں ایک اسلام پسند پارٹی کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ پاکستان میں اسلامی شریعت کی بنیاد پر اسلامی نظام قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی لائن لیتی ہے نہ ہی کسی اور کی۔ حالیہ سیاسی بحران میں جناب سراج الحق کی مخلصانہ کوشش تھی کہ ملک افراتفری کی بجائے مذاکرات و مفاہمت سے آ گے بڑھے۔ شاید یہ بات بھی کسی کو کھٹکتی ہوگی۔
بہرحال حق اور باطل کی جنگ ہمیشہ سے جاری ہے اور جاری رہے گی۔ حق اور سچ بات کرنے کی پاداش میں سراج الحق صاحب کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی، اللہ تعالیٰ نے انھیں محفوظ رکھا۔
امیر جماعت اسلامی موت کو اتنے قریب سے دیکھ کر بھی ثابت قدم رہے، انہوں نے محفوظ مقام پہ منتقل ہو نے پر اپنے کارکنان کی ہسپتال جا کے عیادت کو تر جیح دی۔ ان کو اپنے ساتھ کا یقین دلایا۔ ان کے لہجے میں سکینت اور لبوں پہ مسکراہٹ برقرار تھی۔ انتظامیہ کے پر زور اصرار پہ بھی جلسہ منسوخ نہیں کیا۔
جناب سراج الحق نے کہا کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، خوف ہمارے خون میں نہیں۔ جلسہ ہوگا اور میں شریک ہو ں گا۔” پھر انھوں نے جلسہ عام سے خطاب کیا اور مولانا مودودی کی یاد کو تازہ کر دیا !!!۔
اس موقع پر ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ ہر شہری کی جان ومال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب مقامی انتظامیہ کو معلوم تھا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا قافلہ یہاں سے گزرے گا اور وہ جلسے سے خطاب کریں گے تو پھر انھوں نے سیکیورٹی کا انتظام کیوں نہیں کیا؟
ایک شخص جو سنیئر وزیر رہ چکا ہے ،سینیٹر رہ چکا ہے، ایک بڑی سیاسی جماعت کا رہنما ہے، اس کے علاوہ اس کی اپنی بھی ایک شخصیت ہے تو پھر اس کی حفاظت کے اقدامات کیوں نہ کیے گئے ؟ یہ حکومت کی کارکردگی اور اس کی سیکیورٹی پہ سوالیہ نشان ہے۔