شبانہ ایاز ، اردو مضمون نگار

پاکستانی عوام یونہی روتے رہیں گے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شبانہ ایاز

گزشتہ چھ ماہ کے دوران میں ترکیہ کے کئی شہروں کی سیر اور انتظام کو سمجھ کر جب واپس پاکستان آئی تو ایئرپورٹ سے گھر آتے ہوئے جابجا گندگی کے ڈھیر، بے ہنگم ٹریفک اذیت ناک حد تک محسوس ہوئی ۔ گھر میں آمد کے بعد بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ بھی گھمبیر مسئلہ لگی ، ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے حالات پہلے بہتر تھے اور اب میرے ترکیہ سے واپس آنے کے بعد خراب ہوگئے ہیں ۔
بس ! جب ترکیہ اور پاکستان کا موازنہ کریں تو اپنی سوہنی دھرتی کے حالات پر پریشانی ہوتی ہے ۔ اور شدید خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا وطن بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائے۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو ہمارے بے چارے عوام ہر چیز پر ٹیکس دینے ، تمام اشیاء ضرورت مہنگی خریدنے اور بجلی و گیس کے بھاری بل دینے کے باوجود گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سہنے ، مہنگی تعلیم اور صحت خریدنے پر مجبور ہے ۔

کچرے کی صورت حال دیکھ لیں , جابجا کوڑے کے ڈھیر نظر آئیں گے جنھیں اٹھانے اور تلف کرنے کی انتظامیہ کو کوئی فکر نہیں ۔ جب کہ آج دنیا اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں کچرے کو تلف کرنے کا طریقہ کار بھی سائنسی اصولوں کے تحت طے کیا جا چکا ہے۔
ہمارے ہاں بھی کوڑا کرکٹ اٹھانے ، اسے تلف کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے کیونکہ تھوڑی سی غفلت موسمی تبدیلی پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔

شہروں اور دیہاتوں میں صفائی اور کچرے کو تلف کرنے کےحوالے سے سائنسی بنیادوں پر واضح حکمت عملی مرتب کرنےاور شہریوں کو تربیت دینے کی سخت ضرورت ہے ، صرف درخت لگانے سے بات نہیں بنے گی ۔

شہری حکومتوں کی جانب سے بھی کچرے کی صفائی کے لئے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی ، کراچی ، پشاور اور راولپنڈی سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے تباہی شہریوں کا مقدر بن رہی ہے ، سیوریج سسٹم کی ناکامی کی وجہ سے معمولی بارش کے بعد ایک اذیت ناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سیوریج سسٹم کسی بھی شہر کے لیے بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے ۔ اس سہولت کے موجود نہ ہونے سے روزمرہ استعمال ہونے والا پانی اور بارش کا اضافی پانی شہری علاقوں میں تباہی اور بیماریوں کا باعث بنتا ہے ۔ جیسا کہ گزشتہ بارشوں میں سیلابی صورتحال دیکھنے کو ملی . ایسا لگتا ہے کہ ہمارا سیوریج کانظام موہنجوڈرو سے بھی پیچھے چلا گیا ہے ۔

اگر ہم واقعی ترقی یافتہ مہذب قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں نہ صرف صفائی بلکہ اپنی سوچ اور رویوں پر بھی کام کرنا ہوگا ۔ اگر گھر کی صفائی اہمیت رکھتی ہے تو یہ گلیاں ، محلے کی سڑکیں سب سے بڑھ کر یہ ملک اسے بھی صاف رکھنا اہم ہے ۔ اس ضمن میں علاقہ مکینوں کے بعد اہم کردار بلدیاتی اداروں اور کنٹونمنٹ کا ہے ۔ بلدیاتی سسٹم تو ہے نہیں اور کنٹونمنٹ کا اسٹاف باقاعدگی سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کے نظام کی نگرانی نہیں کرتا۔

اس وقت پوری دنیا میں بلدیاتی نظام مضبوط ہونے کی وجہ سے اس قسم کے مسائل دیکھنے کو نہیں ملتے ۔ مگر پاکستان میں بلدیاتی نظام ہی ناپید ہے ۔ صرف ایک جماعت کے جیت جانے کے خوف سے بلدیاتی انتخابات کو ہی ملتوی کروادیا جاتا ہے ۔

یہ بھی پڑھیے :
اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا اصل سبب کیا ہے ؟
مہنگائی : اکثر پاکستانی پی ڈی ایم حکومت کو ذمہ دار سمجھتے ہیں

اس کے علاوہ گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ بھی وبال جان بن چکی ہے ۔ حالانکہ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ صوبوں کو پابند کیا گیا ہے کہ صوبے خود بجلی بنائیں گے ، سول انتظامیہ چاہے تو کچرے سے بجلی کی کافی پیداوار حاصل کرسکتی ہے لیکن کرے کون ؟؟

اسی طرح پاکستان میں گیس بحران کی وجہ حکومت کا بروقت اقدام نہ کرنا ہے جبکہ ترک حکومت روس سے گیس لے کر عوام کو مکمل سہولت پہنچا رہی ہے ۔ حالانکہ ہمارے ملک میں گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں ، لیکن امن و امان کی صورت حال کی وجہ سے اور سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے تاحال یہ دریافت نہیں ہو سکی۔

حکومت کو چاہیے کہ بجلی کے پاور پلانٹس کو گیس کی بجائے کوئلے پر چلائے کیونکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت بہت نیچے آ چکی ہے ۔ مہنگی اور درآمدی گیس کے بجائے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے سے بجلی کی پیداواری لاگت بھی کم ہوگی اور بچ جانے والی گیس دوسرے شعبوں میں کام آ سکے گی ، جس سے گیس کے بحران میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

گیس کی کمی کی وجہ سے ایک سروے کے مطابق تقریبا ہر گھر میں گیس کمپریسر موجود ہے اور ہر شخص اس قابل نہیں کہ وہ سلنڈر استعمال کرسکے ۔ حالانکہ زیادہ گیس کھینچنے کیلئے گھر میں غیر قانونی طور پر گیس کمپریسر لگانا قانونی اور شرعی طور پر جائز نہیں اس لیے کہ اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف اور ضرر لاحق ہوتا ہے اور آس پاس کے لوگوں کو گیس کی سپلائی متاثر ہوتی ہے ۔ جو چیز عام لوگوں کی تکلیف کا ذریعہ بنے اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں۔

یہ بھی اہم بات ہے کہ کمپریسر لگانے کی روک تھام اور چیکنگ کی بھی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ۔ جب کہ آئے دن اس کے باعث حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔

ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے کیا اب بھی عوام کی آنکھیں نہیں کھلتیں کہ حکومت کی باگ ڈور ان لوگوں کے حوالے کریں جنھیں عوام کے مسائل کا احساس ہے ، جو کارکردگی کا مظاہرہ کرنا جانتے ہیں اور جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ۔ جو عوام کے معاملات میں خدا خوفی رکھتے ہیں ؟؟؟

عوام نے خوش حالی کے نام پر ہر سیاسی پارٹی کو آزما لیا ہے ، سوائے جماعت اسلامی کے ۔جبکہ اس جماعت کے دو مئیر کراچی میں گڈ گورننس کی اعلیٰ مثال قائم کرچکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ، جو کہتے ہیں :

حل صرف جماعت اسلامی ۔۔۔۔۔۔

عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک بار جماعت اسلامی پر اعتماد کرکے بھی دیکھ لے ۔

سب جانتے ہیں کہ ترکیہ کی ترقی کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ دیانت دار قیادت اور بلدیاتی نظام کے ذریعے شہری حکومتوں کے پاس اختیارات کا ہوتا ہے ۔ یہ تو طے ہے کہ سسٹم میں جب تک کرپٹ لوگ رہیں گے عوام یونہی روتے رہیں گے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں