بادبان / عبید اللہ عابد
اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات اپنے انعقاد کے دن 31 دسمبر سے محض چار دن پہلے ملتوی کردیے گئے ۔ واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ شہباز شریف حکومت ( جسے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما چند کلومیٹر کی حکومت قرار دیتے ہیں ) اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ دراصل شہباز شریف حکومت نے چند ماہ کے دوران میں ہی اپنی جماعت مسلم لیگ ن کو اس قدر غیر مقبول کردیا ہے کہ اسے بلدیاتی انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایسی شرمندگی اٹھانا پڑتی جو اسے کہیں کا نہ چھوڑتی۔
نومبر کے آغاز میں ہونے والے رائے عامہ کے ایک جائزے میں پاکستانی قوم کی اکثریت نے مہنگائی کی ذمہ دار شہباز شریف کی حکومت کو قرار دیا۔ 51فیصد پاکستانیوں نے پی ڈی ایم حکومت کومہنگائی کا ذمہ دار قراردیا , 33فیصدنے پی ٹی آئی کو مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ 16فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ انسٹیٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریسرچ کے سروے میں پاکستانی شہریوں سے پوچھا گیا تھا کہ ملک میں مہنگائی کی ذمہ دار پی ڈی ایم حکومت ہے یا پاکستان تحریک انصاف؟
یہ بھی پڑھیے :
مہنگائی : اکثر پاکستانی پی ڈی ایم حکومت کو ذمہ دار سمجھتے ہیں
رائے عامہ کا یہ جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں نے امید باندھی تھی کہ عمران خان کی حکومت جانے سے ان کی زندگی میں آسانی آئے گی لیکن ان کی امید پوری نہیں ہوئی ۔ عمران خان کی مقبولیت کا گراف اسی لئے خراب ہوا تھا کہ وہ پونے چار برس تک حالات کی خرابی کے ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو قرار دیتے رہے۔ انھوں نے دو ہزار گیارہ سے دو ہزار اٹھارہ تک پاکستانی قوم سے جو وعدے کئے تھے ، وہ اپنے دیے ہوئے وقت کے مطابق پورے نہ کیے ۔ کچھ کام پہلے سو دنوں میں کرنے کا وعدہ تھا ، کچھ پہلے چھ ماہ میں ۔ عمران خان یہ بات سمجھ نہ سکے کہ پاکستانی قوم نے انھیں حکمران منتخب کیا تھا حالات کو بہتر بنانے کے لئے ، نہ کہ حالات کا رونا دھونا بیان کرنے کے لئے۔
پی ڈی ایم نے بھی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ عمران خان کی رخصتی کے بعد وہ قوم کے حالات بہتر بنائے گی لیکن حالات ابتر سے ابتر ہوئے۔ جنوری 2022 میں 20 کلو آٹے کی زیادہ سے زیادہ قیمت 1500 روپے تھی جو دسمبر میں 2500 روپے تک پہنچ گئی ۔ ایک کلو گھی 116 روپے ، دال ماش 98 روپے فی کلو مہنگی ہوئی ، بیف 116 اور مٹن 273 روپے مہنگا ہوا ۔ اگست میں مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور شرح 27.3 فیصد پہنچ گئی ۔ ایک کلو پیاز 300 روپے میں بھی فروخت ہوا ، دودھ، دہی اور سبزیوں سمیت مختلف اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔
بلاشبہ شہباز شریف حکومت کو ہائبرڈ رجیم والے تجربے کے نتیجے میں تباہ شدہ ملک ملا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بدترین مصائب میں دھنسی ہوئی قوم ایسے فلسفے نہیں سمجھ سکتی ۔ اسے فوری ریلیف چاہیے جو شہباز شریف حکومت فراہم نہیں کرسکی ۔ جب تک وہ نمایاں ریلیف فراہم نہیں کرے گی ، اس کی مقبولیت مسلسل کم ہوتی چلی جائے گی۔
دوسری طرف عمران خان کی مقبولیت خود بخود بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا ۔ لوگوں کے پاس سوچنے سمجھنے کو ہوش نہیں ہے کہ عمران خان نے مہنگائی کیوں کی تھی اور شہباز شریف کیوں مہنگائی کر رہے ہیں؟ انھیں فوری ریلیف چاہیے ، بڑا ریلیف ۔ یہ ہے وہ حقیقت جو بہت مسلم لیگ ن کی کشتی کو ہمیشہ کے لئے ڈبو دے گی۔
عمران خان اپنی اس سوچ میں پختہ ہیں کہ شہباز شریف حکومت عوام کو بڑا ریلیف نہیں فراہم کرسکے گی ، جس کے نتیجے میں انھیں خود بخود مقبولیت حاصل ہوتی چلی جائے گی ۔ اب تک ان کی سوچ درست ثابت ہوئی ہے ۔
اکتوبر سن دو ہزار بائیس کے ضمنی انتخابات میں عمران خان نے جس انداز میں کامیابی حاصل کی ، وہ شہباز شریف حکومت کے لئے ایک واضح پیغام تھا۔ عمران خان سات نشستوں پر کھڑے ہوئے ، انھوں نے چھ میں کامیابی حاصل کی ۔ لوگوں کو بخوبی علم تھا کہ عمران خان جیت کر اسمبلی میں نہیں جائیں گے ، اس کے باوجود انھیں بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے گئے ۔ دراصل یہ غصہ تھا موجودہ حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف ۔
وفاقی حکومت اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی جو بھی وجہ بیان کرے ، اصل وجہ شکست کا خوف ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک انتخابات ملتوی کرکے شکست سے بچا جاسکتا ہے ؟ کیا حکمران اتحاد کو امید ہے کہ وہ آنے والے دنوں ، مہینوں میں کچھ ایسا کرے گی کہ لوگ خوش ہوجائیں گے اور اس کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے ؟؟؟ اس آخری سوال کا جواب خود حکمران اتحاد کو بھی معلوم نہیں۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پاکستان اسٹاک ایکسچینچ کی تقریب سے خطاب کیا۔ انھوں نے پوری تقریر میں کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے محسوس ہو کہ حالات ٹھیک ہونے والے ہیں ، مہنگائی کم ہونے والی ہے ۔ حکمران اتحاد کے نمائندگان ان رپورٹس کی تردید بھی نہیں کر رہے جن میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف کے کہنے پر عوام پر مزید مہنگائی بم برسائے جائیں گے۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ وفاقی حکومت عوام کو جلد ریلیف دینے کے قابل نہیں ، یوں وہ اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات بار بار ملتوی کرتی رہے گی ، جیسے کراچی میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں سے مل کر نو مرتبہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کروا چکی ہے۔ ( بادبان ، عبید اللہ عابد )