بادبان / عبید اللہ عابد
خیال احمد کاسترو کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے ، وہ سن دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں فیصل آباد کے صوبائی حلقہ پی پی ایک سو دس سے رکن منتخب ہوئے تھے۔ یہ وہی خیال احمد کاسترو ہیں جنھوں نے اپریل دو ہزار اکیس میں ایک صحافی کے سوال پر ارتھ آور کی کچھ یوں تعریف کی تھی :
’ارتھ آور یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی ارتھ آتا ہے تو اسے روکنے کے لیے سبزہ کام کرتا ہے، درخت کام کرتے ہیں۔ آپ کے ہر ارتھ کو روکتے ہیں، ہر زلزلے کو روکتے ہیں تو ہم نے اسے روکنا ہے اور اسے گرین کرنا ہے‘۔
دو روز قبل پنجاب میں ایک نہایت دلچسپ واقعہ رونما ہوا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین اور سابق وزیراعظم جناب عمران خان لاہور میں اپنے گھر میں مقیم ہیں ۔ اچانک انھیں خبر ملی کہ انہی کی پارٹی کے ایک رکن صوبائی اسمبلی خیال احمد کاسترو نے صوبائی وزیر ثقافت کے طور پر حلف اٹھالیا ہے ۔ گورنر ہائوس میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے ان سے حلف لیا ، اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی بھی موجود تھے۔ ۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد جناب خیال احمد کاسترو زمان پارک پارٹی چئیرمین سے بغیر کسی شیڈول کے ملاقات کے لئے پہنچ گئے ۔
کہا جاتا ہے کہ ملاقات کے دوران میں جناب عمران خان نے خیال احمد کاسترو سے ملاقات میں برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا : مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ کو وزیر بنایا جارہا ہے۔ آپ کے کابینہ میں شامل ہونے اوروزیر کا حلف اٹھانے سے ہمارے موقف کو نقصان پہنچا۔خیال احمد کاسترو سب کچھ خاموشی سے سنتے رہے اور پھر پارٹی چئیرمین سے اجازت لے کر رخصت ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیے :
چودھری پرویز الٰہی کی چالاکی ، عمران خان کی بے بسی
مونس الٰہی کا انٹرویو : تین پہلو جنھیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں
عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش ، شہباز شریف حکومت نے کیوں ٹھکرائی؟
تحریک انصاف کا ایک رکن صوبائی وزیر بن جائے اور پارٹی کو اس کی خبر ہی نہ ہو ، عمران خان کے لئے اس سے زیادہ خفت والی بات کیا ہوگی۔ ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ( جن کا تعلق بھی تحریک انصاف سے ہے ) کا کہنا ہے کہ عمران خان سے پرویز الہٰی نے وزارت دینے کی بات نہیں کی تھی۔ ترجمان پنجاب حکومت نے کہا کہ وزرات کا حلف نہ ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس پر تحریک انصاف کے منحرف رہنما فیصل واوڈا نے کہا کہ عمران خان کی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سانپ اور کیڑوں نے انھیں بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔
دوسری طرف اس واقعے کے بعد عمران خان کے سیاسی مخالفین ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ جبکہ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ عمران خان کو بتائے بغیر ایک وزیر بناکر وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے انھیں ایک واضح پیغام دیا ہے کہ آپ کے وزرا اور اراکین اسمبلی آپ کے خیال کے حامی نہیں ہیں ، انھیں آپ کے نظریے اور پالیسی سے الگ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے ۔
حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں اور اراکین اسمبلی کی اکثریت اسمبلیاں توڑنے کے حق میں نہیں ہے ۔ ان کا موقف ہے کہ اگر ابھی اسمبلیاں توڑ دی جائیں تو پھر بھی چھ ، سات مہینے سے پہلے انتخابات نہیں ہوسکیں گے۔ اس وقت ہمارے پاس حکومت ہے ، ترقیاتی فنڈز اپنے حلقوں میں استعمال کرسکتے ہیں ، اگر ہم اسمبلیاں چھوڑ کر واپس گھر آ جائیں گے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ ضروری تو نہیں ہے کہ نگران سیٹ اپ تین ماہ میں انتخابات کروائے، وہ عدالتوں کے ذریعے اپنی مدت بڑھا سکتا ہے۔ پھر ہمارا کیا ہوگا !!
خیال احمد کاسترو کی وزارت کی بابت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چودھری پرویز الٰہی اور عمران خان کے درمیان ابلاغ کا کچھ مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ ایسا ہر گز نہیں ہوا ۔ چودھری پرویز الٰہی نے پوری طرح سوچ سمجھ کر یہ سب کچھ کیا ہے۔ فیصل واوڈا سے لے کر خیال احمد کاسترو تک ، بہت سی مثالیں سامنے آ چکی ہیں ، جن سے بخوبی انداز ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر کیا صورت حال ہے ، پارٹی کے لوگ چئیرمین کے کس قدر قابو میں ہیں ۔ یہ کسی کے دبائو پر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اور کسی دبائو یا لالچ میں تحریک انصاف سے الگ بھی ہوسکتے ہیں۔
اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ان کی محبت اور ان کے خیالات وغیرہ سے متاثر ہوکر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے ، تو یہ ان کی سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔ ( بادبان ، عبید اللہ عابد )