سارنگ
کیا ہم مجاز کو حقیقت یا راستہ حقیقت مان سکتے ہیں؟
اُن کا معاملہ الگ ہے جو دنیا کی طرف چل رہے ہوں اور اُن کا الگ جو حقیقی راستے کی طرف گامزن ہوں۔
دنیا تو ایک ہی ہے اسی دنیا میں ہی دو راستے پائے جاتے ہیں کہیں نہ کہیں تو کسی پڑاؤ پر ساتھ ملتے ہوں گے۔
پڑاؤ ایک ہو منزل تو دونوں کی جدا ہو گی ناں۔
کیا راستے مختلف ہوں تو منزل ایک نہیں ہو سکتی؟
کیا سب راستے ایک ہی منزل کی طرف نہیں لے کر جا سکتے؟
اب یہ تو راستے پر منحصر ہے کہ کون سا کہاں لے کر جاتا ہے۔
کیا ہر منزل سے آگے ایک حقیقت کی منزل نہیں بچتی؟
اُس کے لیے تو شرط سفر ہے . چلتے رہنا ضروری ہے . رک گئے تو ایک منزل بھی نہیں مل سکتی۔
اور اگر چلتے چلتے کہیں رک جائیں تو پچھلا کیا گیا سفر ضائع ہو جائے گا؟
سفر تو کر چکے جتنا وقت رکیں گے وہ ضائع ہو جائے گا . پھر سے ارادہ سفر کرنا زادِ سفر لینا اور پھر سے گامزن ہونے میں وقت لگے گا۔
کیا ہمیشہ ہی کوئی سفر میں رہ سکتا ہے؟
ہاں جو راستہ حق کے متلاشی ہوں اُن کی منزل کوئی نہیں ہوتی اور نہ ہی سفر ختم ہوتا ہے۔
اور اگر مجاز میں حقیقت نظر آئے یا مجاز کے توسط سے حقیقت نظر آتے تو؟
یا مجاز میں جلوہ حقیقت نظر آئے تو؟
مجاز میں حقیقت تب نظر آتی ہے جب حقیقت خود چاہے اُس کی مرضی جب کوئی اپنا جلوہ ظاہر میں لائے۔ اور وہ الگ بات کہ ہر شے میں اُس کا عکس ہے۔ مگر وہ عکس بھی ہر وقت ہر کسی کو نظر نہیں آ سکتا۔ دیکھنے والے کو صاف نظر اور دل کی ضرورت ہوتی ہے بالکل ہر لالچ و غرض سے پاک۔
یعنی کہ اُس کا عکس نظر آتا ہے کہیں نہ کہیں وہ خود ظاہر نہیں کرتا بلکہ خود کو اُس شے سے ظاہر کرتا ہے جس کے نظارے کی تاب ہماری آنکھیں لا سکیں کیوں کہ ایک گرتی ہوئی آبشار یا چاند کے ہالے کو بھی دیکھ کر ہماری آنکھیں چندھیا جاتی ہیں تو اس کا عکس بھی ہوش میں نہیں رہنے دیتا پھر بھی آنکھوں میں نظارہ تو محفوظ ہو جاتا ہے۔
اگر یہ اُس کی مرضی پر منحصر ہے تو کیا اس کے نزدیک دیکھنے والے کی طلب کی اہمیت نہیں ؟
اور پھر اس کی مرضی کا پتہ کیسے لگ سکتا ہے؟
کرم ہو تو اس کی نشانی کیا ہے کہ اب ہم نظرِ کرم میں ہیں ؟
جب کرم ہوتا ہے مخلوقات میں ہر جگہ اعلان ہو جاتا ہے کہ یہ بندہ میرا ہے اِس سے محبت و اُلفت کی جائے۔ کُچھ لوگ حسد بھی کرتے ہیں۔ پھر وہ خود عزت دیتا ہے تو لوگ بھی عزت دیتے ہیں۔
اطمینان حاصل ہوتا ہے یا دکھ اور بندہ اپنایا جاتا ہے یا کوئی ٹھکرانے کے قابل بھی نہیں سمجھاجاتا؟
ایسے لوگوں کو دکھ بھی عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ دنیا اُنہیں ٹھکراتی بھی ہے اس لئے کہ خُدا چاہتا ہے کہ یہ بندہ سب سے کٹ کر میرا ہو جائے۔ کیوں کہ سب سے زیادہ مشکلیں اللّٰہ نے اپنے انبیاء پر عطا کیں۔
اور ہم کب اس قابل کے اُس کی چاہت دل میں رکھ سکیں یہ تو اس کا کرم ہے کہ وہ خود چاہتا ہے اور پھر ہمارے دل کو محب بننے کے قابل بناتا ہے۔
کیا خُدا انسان کو چاہتا ہے انسان کی قربت کہ اس کو اپنا کرنا چاہتا ہے؟
ہاں وہ اکیلا ہے اسی لیے بنایا اب بنایا ہے تو خود سے دور رکھنے کے لیے تو نہیں ناں بنایا۔
کیا ہی مقامِ انسان ہے کہ خُدا خود قربتِ انسان چاہ رہا ہے۔
لیکن ظاہر و باطن میں فرق بھی ہوتا ہے کچھ لوگ ظاہری طور پر تکلیف میں ہوتے ہیں مگر اندر سے اطمینان میں ہوتے ہیں۔
ان لوگوں کے ظاہر و باطن میں فرق ہوتا ہے یا ظاہر و باطن کی اظہاری حالتوں میں۔
یہ حالت تو حالت بنانے والے پر منحصر ہے کیوں کہ دکھ دے تو اندر کا اطمینان عطا کر دے اور اگر خوشیاں دے تو اندر کی بے قراری عطا کر دے تاکہ انسان خوشی میں بھی اس کی طرف لپکے پلٹے اُسے نہ فراموش کر دے۔
یعنی کہ خُدا ہر وقت ہمیں چاہتا ہے کہ ہم اسے چاہیں۔ بار بار یہ چاہتا ہے کہ ہم اُسے یاد کرتے ہیں۔
اور ہم اسے یاد کریں اُس سے پہلے تو پھر وہ ہمیں یاد کر رہا ہے تو کیا یہاں بھی یاد دو طرفہ ہونے سے تعلق مکمل ہوگا ؟
وہ یاد کیوں کرے گا اُس نے ہمیں بنایا ہے نہ کہ بھلایا ہے . ہم تو ہر آن اُس کے سامنے ہیں اُس سے دور تو نہیں کہ کُچھ پل اُس کی نگاہِ ناز سے اوجھل ہو جائیں۔
تو پھر ہم کیوں کبھی تو برسوں تک اُس کا نام بھی نہیں لیتے؟ اگر وہ ہمیں ہر آن مسکرا کر دیکھتا بلاتا ہے تو ہم تک آواز کیوں نہیں آتی ہم متوجہ کیوں نہیں ہوتے سالوں تک اُس کی طرف غور کیوں نہیں کرتے؟ کیوں کُچھ لوگ صدیوں تک اکیلے سفر کرتے رہتے ہیں ہمراہی کو کیوں نہیں پہچانتے؟
کُچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں خُدا نہیں بلاتا اُن کو اختیار دیا ہوتا ہے کہ آئے تو خود ہی جان کر سمجھ کر اپنے اندر کی آواز پر كان دھر کے آئے دور تو جا نہیں سکتا جس راہ جائے گا مجھے ہی پائے گا تو خود آئے اپنی جستجو سے تو اس کا مزہ اور ہو گا۔
یُوں تو چھوٹ بھی کافی مل جاتی ہے؟
اُس سے کون آزاد ہو سکتا ہے اُن کی حالت کُچھ ایسی ہوتی ہے۔
ہاتھ اُلجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جُدا کس سے کریں۔