بادبان / عبید اللہ عابد
اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ اسمبلی تحلیل کے لیے عمران خان کے اشارے کے منتظر ہیں۔ پنجاب اسمبلی عمران خان کی امانت ہے۔ عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے میں رتی بھر بھی تاخیر نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کے اندر چودھری پرویز الٰہی کی طرف شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ کہ وہ کہیں کوئی کھیل تو نہیں کھیل رہے ؟پی ٹی آئی کے لوگوں کو ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے؟ آئیے ! اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ چودھری خاندان میں مونس الٰہی کی مرضی چل رہی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ چودھری خاندان سارے کا سارا ایک ہے۔ چودھری خاندان ایک روایتی خاندان ہے جہاں بزرگوں ہی کو بلند مقام و مرتبہ دیا جاتا ہے، یہ بات مانی ہی نہیں جاسکتی کہ چودھری پرویز الٰہی نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر چودھری شجاعت حسین کو کھڈے لائن لگادیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا نہ ہی ایسا ہوا ہے۔
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ چودھری خاندان دو حصوں میں تقسیم ہیں ، کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں بعض خاندانوں نے جان بوجھ کر اپنا ایک فرد ایک بڑی پارٹی میں رکھا ہوتا ہے ، اور دوسرا فرد دوسری بڑی پارٹی میں۔ تاکہ حکمرانی جس پارٹی کی بھی ہو ، خاندان حکومت ہی سے جڑا رہے۔ حالیہ سیاسی صورت حال میں چودھری خاندان نے بھی یہی کچھ کیا۔
سب سے پہلے ایک بات جان لینی چاہیے کہ ملکی سیاست مفادات ہی کا کھیل ہوتا ہے۔ معاملہ مفاد کا ہو تو نظریات کو کم ہی اہمیت دی جاتی ہے۔ نظریاتی سیاست کا ذکر اب کتابوں ہی میں ملتا ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی پیپلزپارٹی سے اتحاد کرے گی ؟ ان کے بزرگ چودھری ظہور الٰہی نے وہ قلم یادگار کے طور پر حاصل کرلیا تھا جس سے جنرل ضیا الحق نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے پر دستخط کئے تھے۔ پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کو اس بات کا بڑا رنج تھا ۔ اس کے بعد چودھری ظہور الٰہی کو قتل کردیا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کو چودھری ظہور الٰہی کے قتل میں ملوث قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک چودھری برادران بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کو دشمن تصور کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
مونس الٰہی کا انٹرویو : تین پہلو جنھیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں
تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا چوتھا دن ، عمران خان کا موقف بدل چکا ہے ؟
پھر وہ وقت بھی آیا جب اسی پیپلز پارٹی کے دور میں ( سن دوہزار بارہ اور تیرہ میں ) چودھری پرویز الٰہی نائب وزیراعظم بنے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی چودھری پرویز الٰہی میاں نواز شریف کو مطعون کیا کرتے تھے انھوں نے مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کی گود میں ڈال دیا ہے۔حالانکہ میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت ہی کیا تھا ، سیاسی یا حکومتی اتحاد نہیں۔ البتہ پرویز الٰہی حکومت کا حصہ بن گئے۔ پس ! ثابت ہوا کہ پاکستان میں نظریات مفادات کے نیچے آ کر کچلے جاچکے ہیں۔ گزشتہ کل کا دشمن آج کا دوست اور آج کا دوست آنے والے کل کا دشمن ہوسکتا ہے۔ ویسے یہ صرف پاکستان میں نہیں ، دنیا کے دیگر کئی معاشروں میں ہوتا ہے۔
ان دنوں پاکستان میں دلچسپ صورت حال ہے۔ نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کے دشمن آج مل کر حکومت کر رہے ہیں۔ اب دوسرے پلڑے میں عمران خان اور ان کی پاکستان تحریک انصاف ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی ایسا دن بھی آئے جب پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف ایک پلڑے میں اکٹھی ہوجائیں۔ فی الحال پاکستان مسلم لیگ قاف ایک ہی وقت میں مرکز میں بھی مزے لے رہی ہے اور پنجاب میں بھی ۔ چودھری شجاعت حسین نے مسلم لیگ ن سے تعلقات رکھے ہوئے ہیں جبکہ پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ۔
چودھری پرویز الٰہی نہیں چاہتے کہ یہ معاملہ تبدیل ہو۔ وہ بظاہر پنجاب اسمبلی توڑنے کا اختیار جناب عمران خان کو دے رہے ہیں لیکن بباطن وہ نہیں چاہتے کہ عمران خان ایسا کریں۔ صحافی و تجزیہ کار سید طلعت حسین کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی کو پتہ ہے کہ چند ہفتے یا چند مہینے ہی ہیں کہ وہ جب وہ وزیراعلٰی رہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کسی بحران کی صورت ہی میں وہ وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں یا وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرکے ، اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اپنی جگہ بنائیں گے ۔
سید طلعت حسین اگر عمران خان پنجاب میں انتخابات جیتیں گے تو چودھری پرویزالٰہی وزارت اعلیٰ کے چودھویں امیدوار بھی نہیں ہوں گے ، مونس الٰہی کو جیل خانہ جات اور لائیوسٹاک کے ڈیپارٹمنٹس بھی مل جائیں تو بڑی بات ہوگی۔
پرویز الٰہی پر بھی واضح ہے کہ عمران خان کی ایک تاریخ ہے۔ ان کے تمام مددگار جو ان کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں ، عمران خان انھیں لات رسید کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ علیم خان ، جہانگیر خان ترین ، بڑی طویل فہرست ہے۔ پرویز الٰہی مخمصے میں ہوں گے۔ وہ چاہتے ہوں گے کوئی ایسی صورت بنے کہ مسلم لیگ ن تحریک عدم اعتماد لے آئے تاکہ وہ کچھ عرصہ مزید وزیراعلیٰ رہ جائیں۔
چودھری پرویز الٰہی کا طرز عمل عمران خان سے بالکل مختلف ہے۔ عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف جنرل باجوہ کو گالیاں دی رہی تھی جبکہ چودھری پرویز الٰہی جنرل باجوہ کی تعریف و توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملارہے تھے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے درمیان کوئی قدرمشترک نہیں ہے۔ دونوں نے مجبوری کا نکاح کیا ہوا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ پیاری ہے جبکہ عمران خان کسی بھی قیمت پر پنجاب مسلم لیگ ن کے ہاتھ میں نہیں دیکھنا چاہتے۔
چودھری پرویز الٰہی ایک طرف پنجاب اسمبلی توڑنے سے پہلے عمران خان کے ساتھ آنے والے عام انتخابات میں زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں۔ ایک اطلاع ہے دس سیٹوں والی مسلم لیگ قاف آنے والے عام انتخابات میں صوبہ پنجاب میں کم از کم پچیس سیٹیوں پر اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کا کوئی امیدوار کھڑا نہ ہو۔ اگر عمران خان یہ بات نہیں مانتے تو چودھری پرویز الٰہی پی ڈی ایم کے ساتھ مل جائیں گے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ پچیس سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ بھی کروالیں ، اور اسمبلی توڑنے سے پہلے پی ڈی ایم کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے آنکھ کا اشارہ کردیں۔ یوں ان کی پانچوں گھی میں ہوں گی۔ ایسے میں عمران خان کے پاس بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔( بادبان ، عبید اللہ عابد )