بادبان / عبید اللہ عابد
پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے لخت جگر اور رکن قومی اسمبلی چودھری مونس الٰہی نے معروف اینکر پرسن مہر بخاری کو انٹرویو میں جو کچھ کہا ،کیوں کہا ؟ وہ کس قدر اہم ہے ؟ اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
چودھری مونس الٰہی نے زیادہ تر وہ باتیں کہیں ، جو سب جانتے ہیں۔ مثلا سب جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے ساتھ معاہدہ کرکے ، مٹھائی کھا کر ، چودھری پرویز الٰہی کیوں بنی گالہ پہنچ گئے۔ سب کہہ رہے تھے کہ کوئی فون آیا تھا۔ نئی بات محض اتنی سی ہے کہ چودھری خاندان کی طرف سے اس کا اعتراف کرلیا گیا ہے۔ انکشاف مگر اتنا سا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی نے جس فون کال پر آصف علی زرداری سے معاہدہ توڑ دیا ، وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تھی۔ ورنہ لوگ جنرل فیض حمید کی حرکت سمجھ رہے تھے۔
مونس الٰہی نے کہا :
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نہ صرف پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا بلکہ انہوں نے تو تحریک عدم اعتماد کے” وقت بھی مجھ سے کہا کہ عمران خان کے ساتھ جائیں ۔ ان کے کہنے پر ہم نے تحریک انصاف کی حمایت کی۔”
انٹرویو کا ایک اہم ترین زاویہ چودھری خاندان کا بھرپور طریقے سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی حمایت میں تحریک انصاف کے مقابل کھڑے ہونا ہے۔
تحریک انصاف ایک عرصہ سے جنرل باجوہ کے خلاف شدید ترین مہم چلا رہی تھی۔ یہ مہم اب بھی چل رہی ہے۔ جنرل باجوہ تب بھی پریشان ہوئے جب سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تقاریر میں جنرل باجوہ کا نام لیا۔ تب بھی پریشان ہوئے جب تحریک انصاف نے ان کے خلاف ایسی مہم چلائی ، جس کی پاکستانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ یہ مہم اب بھی چل رہی ہے جب کہ باجوہ گھر پہنچ چکے ہیں۔
اب جنرل باجوہ کی برداشت بھی جواب دے گئی ہے۔ وہ بھی جٹ ہیں اور چودھری صاحبان بھی جٹ ہے۔وہ قریبا ایک ہی علاقے کے ہیں۔ جنرل باجوہ گکھڑ منڈی کے ہیں جو گجرات سے چند منٹوں کی مسافت پر ہے۔ اب جٹ کی حمایت میں جٹ اٹھ کھڑے ہوگئے۔
یہ کہنا ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ چودھری مونس الٰہی کی زبان سے دراصل جنرل قمر جاوید باجوہ بول رہے تھے۔ انھوں نے کہا :
ان (جنرل باجوہ ) کے کہنے پر ہم ( چودھری خاندان ) نے تحریک انصاف کی حمایت کی ، اگر جنرل باجوہ عدم اعتماد کا حصہ ہوتے تو ہمیں کیوں اس طرف جانے کا کہتے ، جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی کے لیے سب کچھ کیا اور اب جب وہ چلے گئے ہیں تو یہ ان کے خلاف باتیں کر رہے ہیں ، جب تک وہ ان کو سپورٹ کرتا تھا ٹھیک تھا اب غدار بن گیا ، یہ بڑی زیادتی ہے ‘ جنرل باجوہ نے توان کیلئے دریاؤں کا رُخ موڑ دیا تھا۔ جنرل باجوہ کے خلاف مہم بلاجواز ہے ۔
” میری نظر میں جنرل باجوہ بالکل برا نہیں تھا، اگر وہ بندہ برا ہوتا تو مجھے یہ نہ کہتا کہ آپ عمران خان کے ساتھ جائیں ۔ جس وقت فیصلہ ہو رہا تھا کہ ہم نے ادھر جانا ہے یا ادھر جانا ہے . دونوں پارٹیاں تیار تھیں . تحریک انصاف سے بھی آفر تھی , نوازشریف پی ڈی ایم کی طرف سے بھی . سب کو پتہ ہے پی ٹی آئی کی طرف زیادہ تھا معاملہ سب کو پتہ ہے . والد صاحب سے بات ہوئی ان کی بھی بات ہوئی ادھر , تب یہی انہوں نے کہا ہے کہ میری خواہش یہ ہے کہ آپ ادھر جائیں . اگر وہ بندہ اتنا برا ہوتا اس اہم موقع پر وہ کیوں کہتا ہے آپ ادھر جاؤ . اگر وہ خان صاحب کے خلاف ہوتا یا پی ٹی آئی کے خلاف ہوتا تواس نے تو اشارہ ہی کرنا تھا تب ہم ادھر چلے جاتے
غیر سیاسی ہونا ایک الگ چیز ہے مگر جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی حکومت کا بہت ساتھ دیا اور ملکی مفاد کے ساتھ بھی” کھڑے ہوئے”
عدم اعتماد اور امریکی سازش کے حوالے سے مونس الٰہی کا کہنا تھاکہ اگر جنرل باجوہ کا کسی بھی قسم کا رول ہوتا تو” ہمیں کیوں کہتے کہ ادھر جاؤ اگر ان کا مقصد انہیں فارغ کرانا ہوتا اور انہیں پتہ ہے یہ دس ووٹ اہم ووٹ ہیں تو وہ کیوں کرتے اس طرح ۔”
چودھری مونس الٰہی نے کہا :
میں نے پی ٹی آئی والوں سے کہا کہ اگر ٹی وی پر آنا ہے ٹی وی پر آجاؤ تم ثابت کرو وہ غدار تھے ‘میں تو بتاتا ہوں” اس” بندے نے تمہارے لئے کیا کچھ نہیں کیا ‘ میرے خیال میں زیادتی ہو رہی ہے‘ ایک شخص ہے جو آل آؤٹ گیا آپ کے لیے ، جب وہ ہٹ گیا تو وہ برا ہوگیا میں اس نقطہ کے خلاف ہوں یہ بڑی زیادتی ہے "۔
جیسا کہ سطور بالا میں کہا کہ چودھری مونس الٰہی کی زبان سے دراصل جنرل قمر جاوید باجوہ بولے ہیں ، مونس الٰہی کی یہ بات دراصل جنرل باجوہ کی طرف سے تحریک والوں کو دھمکی ہے کہ اگر مہم جاری رکھی تو میں وہ سب کچھ بتادوں گا جو آپ لوگوں کے لئے کرتا رہا۔
اب دیکھنا ہوگا کہ عمران خان اس دھمکی کا کس قدر اثر لیتے ہیں۔ ایک اثر تو نظر آگیا کہ تحریک انصاف کی طرف سے مونس الٰہی کے انٹرویو پر کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ابھی تک ایک خاموشی سی خاموشی ہے۔
اس انٹرویو کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ "چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی” . یعنی جنرل باجوہ کا یہ کہنا غلط ہے کہ وہ فروری کے بعد غیر جانبدار ہو گئے تھے ۔ اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر انھوں نے چودھری برادران کو پیغام دیا ۔ ( اس کا اعتراف مونس الٰہی نے کیا۔) اطلاع ہے کہ انھوں نے یہ پیغام براہ راست نہیں دیا بلکہ انھوں نے جنرل فیض حمید سے کہا اور جنرل فیض حمید نے اپنے قریبی ریٹائرڈ جرنیل سے کہا اور پھر اس ریٹائرڈ جرنیل نے چودھری برادران کو فون کال کی۔
اس انٹرویو کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے۔ عین اس وقت جب پنجاب اسمبلی توڑنے کی بات ہو رہی ہے اور چودھری پرویز الٰہی اور عمران خان کے درمیان آئیندہ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے مذاکرات چل رہے ہیں ، چودھری مونس الٰہی کا بولنا نہایت اہم ہے۔
انٹرویو کے اثرات پنجاب اسمبلی توڑنے کے معاملے پر پڑیں گے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملہ پر بھی۔ دس سیٹوں کا حامل چودھری خاندان اب پچیس سیٹیں مانگ رہا ہے۔ عمران خان اس وقت مشکل میں ہیں ، شاید انھیں چودھری برادران کی بات ماننا ہی پڑے ۔ بصورت دیگر چودھری خاندان شریف بردران اور پیپلزپارٹی سے رابطے میں بھی ہے۔( بادبان ، عبید اللہ عابد )