بادبان / عبید اللہ عابد
پاکستان میں اقتدار کی ہوس میں بدمست چند جرنیلوں نے اپنی بدمستی سے پورے ادارے کو ایسا بدنام کیا ہے کہ اب کسی اچھے فوجی افسر کی خوبی بیان کرنا بھی مشکل ہوچکا ہے۔ مثلا نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر احمد کے بارے میں یہ کہنا بھی آسان نہیں ہے کہ وہ ایک شریف جرنیل معلوم ہوتے ہیں ، ان کا چہرہ دیکھا جائے تو وہاں کسی قسم کی سیاسی مہم جوئی کے دور دور تک ارادے نظر آتے ۔ لوگ ایسی باتوں کو بھی ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔
لوگ کسی افسر کے بارے میں یقین کرنے کو تیار ہی نہیں کہ وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا نہیں ہوگا ، یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ اب فوجی جرنیل پاکستانی سیاست سے ہمیشہ کے لئے منہ موڑ کر ملکی سرحدوں کی طرف ہی کامل دھیان دیں گے۔
چلیے ! یہ تو کچھ بڑی باتیں ہیں۔ لوگ یہ بھی نہیں سننے کو تیار نہیں کہ کسی فوجی افسر میں اچھائی کے کچھ پہلو بھی ہوں گے۔
حد تو یہ ہے کہ معروف سکالر جناب مفتی محمد تقی عثمانی نے ایک ٹویٹ کی کہ الحمدللّٰہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک حافظ قرآن آرمی چیف کا تقرر ہو رہا ہے ۔ جنرل عاصم منیر نے قرآن کریم حفظ کیا ،امید ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں قرآنی ہدایات کو مدنظر رکھیں گے ، ان کا تقرر گرم جوش خیرمقدم کا مستحق ہے۔ اس ٹویٹ پر مفتی تقی عثمانی پر تنقید بھی ہوئی اور ان کا مذاق بھی اڑایا گیا۔
جنرل عاصم منیر ، چند باتیں جو کم ہی لوگ جانتے ہیں
پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر احمد ، تئیسویں ڈی جی آئی ایس آئی رہے ہیں اور اب پاکستانی فوج کے سترھویں آرمی چیف ہوں گے۔ بہت کم لوگ ان کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔
جنرل عاصم منیر احمد راولپنڈی ڈھیری حسن آباد لال کرتی جسے طارق آباد بھی کہا جا رہا ہے وہاں کے معروف سید خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کا خاندانی گھر راولپنڈی کے معروف علاقے ڈھیری حسن آباد کی کنٹونمنٹ بورڈ ڈسپنسری والی سٹریٹ میں ہوا کرتا تھا جہاں سے وہ شفٹ ہو چکے ہیں۔
جنرل سید عاصم منیر احمد کے والد کا نام سید سرور منیر مرحوم ہے جو سی بی ٹیکنیکل ہائی سکول طارق آباد لال کرتی راولپنڈی کینٹ کے 1972ء سے 1985ء تک پرنسپل رہے۔ جنرل عاصم منیر کی دو بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ بڑے بھائی قاسم منیر بیورو کریٹ تھے اور بنیادی سکیل 22 میں عہدے کی معیاد مکمل کر کے تین سال پہلے ریٹائر ہوئے۔
جنرل عاصم منیر ، ایک دلچسپ واقعہ
جنرل عاصم منیر کے حوالے سے یہ خبر سب سے زیادہ زبان زد عام ہوئی کہ انھوں نے قرآن مجید حفظ کیا ہوا ہے۔ یہ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ جب کوئی لیفٹیننٹ کرنل ہو ، اس کے کندھوں پر کافی ذمہ داریاں اور مصروفیات ہوتی ہیں۔ ایسے میں قرآن مجید حفظ کرنے کے لئے ذوق و شوق غیر معمولی نہ ہو تو یہ سعادت حاصل نہیں ہوتی۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ لیفٹیننٹ کرنل عاصم منیر کی ملٹری اتاشی کے طور پر امریکا میں پوسٹنگ ہوئی۔ یہ خبر ان کی والدہ کو ملی تو انھوں نے امریکا جانے سے انکار کردیا۔ اس پر عاصم منیر کافی مشکل میں پھنس گئے۔ ایک طرف اوپر سے پوسٹنگ کے آرڈر آچکے تھے ، دوسری طرف والدہ امریکا جانے کے لئے نہیں مان رہی تھیں۔
اسی پریشانی میں دو ، تین دن گزر گئے ، پھر اچانک جنرل صابر نے انھیں بلایا اور کہا کہ آپ کے لئے ایک بری خبر ہے۔
جنرل صابر نے بتایا کہ آپ کو امریکا نہیں ، سعودی عرب میں تعینات کیا جارہا ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل عاصم منیر یہ خبر سنتے ہی کھل اٹھے ، کہنے لگے : سر ! یہ تو میرے لئے بہت اچھی خبر ہے۔ میری والدہ امریکا نہیں جانا چاہتی تھیں ، وہ سعودی عرب خوشی خوشی جائیں گی۔
یوں عاصم منیر کی تعیناتی سعودی عرب میں ہوئی۔ پھر انھوں نے بیت اللہ شریف میں خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر قرآن مجید کا حفظ مکمل کیا۔ وہاں ملٹری اتاشی کے طور پر ان کے سعودی حکام سے اچھے تعلقات قائم ہوئے۔
ان کے دوسرے بھائی سید ہاشم منیر اپنے والد مرحوم کی طرح اب بھی ایف جی ٹیکنیکل ہائی سکول طارق آباد راولپنڈی کینٹ میں تدریسی فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ جب عاصم منیر احمد لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہوئے تو ایوان تجارت و صنعت راولپنڈی کے سابق صدر ایس ایم نسیم کے چھوٹے بھائی حافظ الطاف الرحمان کے ساتھ قرآن پاک حفظ کرتے رہے ۔
عمران خان ، بشریٰ بی بی ، فرح گوگی اور ڈی جی آئی ایس آئی
جنرل سید عاصم منیر کا پورا کیرئیر تنازعات سے پاک اور صاف و شفاف ہے۔ وہ صرف سابق وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے ” متنازعہ ” ہوئے۔ جب انھوں نے بطور ڈی جی آئی ایس ایس وزیراعظم عمران خان کو بتایا تھا کہ آپ کی اہلیہ کے حوالے سے ہمارے پاس کچھ رپورٹس آئی ہیں ، اس لئے آپ کو محتاط رہنا چاہیے۔ سکینڈلز بن سکتے ہیں ، آپ پر انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔ایک پراپرٹی ٹائیکون نے آپ کے گھر میں ایک ہار بھیجا ہے ، انھوں نے بشریٰ بی بی اور فرح بی بی کا ذکر کیا۔ اور کہا کہ ایسے معاملات آپ کے لئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔۔
اس پر عمران خان نے اپنی اہلیہ سے پوچھ گچھ کرنے یا انھیں منع کرنے کے بجائے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم منیر کو برطرف کردیا تھا۔
اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کا مشورہ
اس سے پہلے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر بطور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم کو مشورہ دے رہے تھے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ قطع تعلقی کے بجائے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں۔ عمران خان کو یہ مشورہ بھی برا لگا۔ عمران خان ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اپوزیشن کو سمجھتے تھے۔ انھیں معیشت ، مہنگائی کی فکر نہیں تھی، وہ کہتے تھے کہ میں آلو ، پیاز اور ٹماٹروں کی قیمتیں دیکھنے نہیں آیا۔
ایران میں عمران خان نے ایسی بات کہہ دی کہ ڈی جی آئی ایس آئی سر پیٹ کر رہ گئے
اسی طرح ایک اور بدمذگی ہوچکی تھی۔ عمران خان کو یہ سمجھ نہیں ہے کہ وہ کہاں ، کیا بات کر رہے ہیں۔ وہ ایران کے دورے پر گئے اور وہاں ایرانی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ایرانی سرزمین پر جو دہشت گردی ہوئی ہے ، اس میں پاکستان کی سرزمین استعمال ہوئی ہے۔
اس وقت وہاں ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیر بھی موجود تھے۔ عمران خان کی یہ بات سن کر وہ کھڑے ہوئے ، انھوں نے وفد میں موجود شیریں مزاری اور ذلفی بخاری کو کچھ پوائنٹس لکھ کر دئیے کہ وہ عمران خان تک پہنچائیں۔ تاہم انھوں نے وہ پوائنٹس وزیراعظم تک نہ پہنچائے۔ البتہ بعد میں دونوں رہنمائوں نے عمران خان سے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی ایسی بات کر رہے تھے۔ افسوس ناک امر ہے کہ وزیراعظم کے سامنے یہ بات ایک شکایت کے طور پر پیش کی گئی ۔ عمران خان کو یہ بات بھی ناگوار گزری ۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے عمران خان کو پوائنٹس اس لئے بھیجنے کی کوشش کی کہ شاید وہ اپنی بات کو اس انداز میں واضح کرلیں تاکہ ان کی بات کو استعمال نہ کیا جاسکے۔
فوج کو سیاست سے دور لے جانے کا وکیل جرنیل
رپورٹر اعزاز سید کہتے ہیں : کور کمانڈر کانفرنس میں جب فوج کو سیاست سے دور لے جانے کی بحث شروع ہوئی تھی ، تب جنرل عاصم منیر اس خیال کے زبردست موید تھے۔ اس موقع پر کسی کمانڈر نے کہا کہ ہمیں عمران خان کے ساتھ بھی رابطہ رکھنا چاہیے ۔ اس پر جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ہم اسی معاملے سے تو نکل رہے ہیں۔ ہم سیاست میں عدم مداخلت کی بات کر رہے ہیں ، پھر عمران خان کے ساتھ رابطہ رکھنے کے کیا معنی؟ ہمیں صرف وہ کردار ادا کرنا ہے جس کا ہمیں آئین حکم دیتا ہے۔( بادبان , عبید اللہ عابد )