چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے صدر شی جن پنگ کی تیسری مدت کے لئے منظوری کے بعد بھی اویغور قوم کے لئے جبر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اویغور کمیونٹی کے سرگرم کارکنوں کو سنکیانگ صوبے میں مسلمان اقلیتی گروہ کے خلاف بیجنگ کی پالیسیوں میں بہت کم تبدیلی نظر آ رہی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق چینی حکام نے سنکیانگ میں اٹھارہ لاکھ اویغور لوگوں کو مختلف حراستی کیمپوں میں قید رکھا ہوا ہے۔ جن میں بوڑھے ، بچے ، مرد و خواتین شامل ہیں۔ انھی میں ایک ڈاکٹر گلشن عباس بھی ہیں ۔ سن 2018 سے زیر حراست ڈاکٹر گلشن عباس کی بہن روشان عباس امریکا میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ وہ کمپین فار اویغور نامی تنظیم کی بانی ہیں۔ روشان عباس کہتی ہیں :
چین خواتین اور بچوں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ جبری نس بندی ، اسقاط حمل اور ان کے جسموں میں” زبردستی آئی یو ڈی ڈیوائسز ڈالنے کے عمل کا سامنا ہے۔”
اکتوبر دو ہزار بائیس کے اوائل میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اویغورز کی حالت زار پر بحث کو آگے بڑھانے کے لئے امریکی حمایت یافتہ ایک مجوزہ قرارداد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سینتالیس اراکین میں سے صرف سترہ نے قرارداد کی حمایت کی۔اس معاملے کا ایک اہم ترین پہلو یہ تھا کہ گیارہ مسلمان اکثریتی ممالک مثلا اندونیشیا اور متحدہ عرب امارات نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔
روشان عباس کہتی ہیں :
مجھے انڈونیشیا سمیت بعض ممالک کا رویہ دیکھ کر دکھ ہوا ، جنھوں نے اس بحث کے خلاف ووٹ دیاکہ اویغور اور دیگر” ترک مسلمانوں جیسے ان کے ساتھی مسلمان بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ انڈونیشیا نے چین کے اس نقطہ نظر کو دوہرایا کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے وسیع پیمانے پر حمایت یافتہ یہ قرارداد چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوشش تھی۔”
انڈونیشیا کے نمائندہ فیبریان رودیارد نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ کونسل کی طرف سے آج جو موقف اختیار کیا گیا ہے ، اس سے کوئی معنی خیز پیش رفت نہیں ہوگی ۔ کیونکہ اسی حوالے سے متعلقہ ممالک کی رضامندی اور حمایت حاصل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
میں ایک اویغور لڑکی ہوں
اے کورونا کے خوف میں سہمی ہوئی امت!
اویغور مسلمانوں سےمتعلق ترکی نےچین سے بڑا مطالبہ کردیا
چین طویل عرصہ سے اویغور آبادی کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے انکار کرتا آیا ہے ۔ لیکن اگست کے اواخر میں اقوام متحدہ کی حقوق سے متعلق کونسل کی ایک رپورٹ میں اویغورز کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد ملے جو انسانیت کے خلاف جرائم بن سکتے ہیں۔
ان الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لئے چین نے انڈونیشیا کے صحافیوں اور مسلمان رہنمائوں کو سخت نگرانی میں صوبہ سنکیانگ کے ریاستی دوروں کے لئے بھی مدعو کیا ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے انڈونیشیا کی حکومت کے موقف پر پارلیمان میں سوال اٹھائے ہیں جن میں انڈونیشیا کے رکن پارلیمان سکامتا ( خارجہ پالیسی کمیشن کے رکن ) کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ثبوت ہیں تو ہم امید کرتے ہیں کہ انڈونیشیا کی حکومت اس پر عمل کرے گی ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہاں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہ ہو۔
اقوم متحدہ کے کم از کم ایک سفارت کار نے انکشاف کیا کہ ووٹنگ سے قبل انسانی حقوق کی کونسل کے اراکین پر چین کی جانب سے بہت زیادہ دبائو تھا۔