سراج الحق , امیر جماعت اسلامی پاکستان
آفات،مصائب اور مشکلات انسانی زندگی کا حصہ ہیں ۔ انسانی تاریخ میں کوئی دور اور دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جسے ان کا سامنا نہ رہا ہو اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ آئندہ کے لیے ایسے خطرات کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ نوع انسانی نے اپنے تجربات ، مشاہدات اور علم کی روشنی میں خطرات کا مقابلہ کرنے اور ان کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں۔
چنانچہ آج یہ ممکن ہو گیا ہے کہ خطرات اور آفات کے آنے سے قبل ان کا اندازہ کرلیا جائے اور ان اندازوں کی بنیاد پر محض کسی آفت کے آنے پر ہی اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات نہ ہوں بلکہ عام حالات میں بھی ایسی تمام تدابیر اختیار کی جائیں جن سے تباہی کے خدشات کا خاتمہ یا انھیں کم سے کم کیا جا سکے۔ ان تدابیر میں ہر سطح پر شعور، آگہی اور تربیت کا اہتمام، موثر ادارتی نظام اور اس کی بنیاد پر حفاظتی اقدامات کے ذریعے تباہی کو کم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی عوام کو اپنی حکومتوں سے اس ضمن میں بہت سی شکایات ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں حکومتوں نے مسلسل کوتاہیاں کی ہیں وہاں عوام نے خود کو منظم کرتے ہوئے اپنے محدود وسائل کے ساتھ آفات سے ہونے والے نقصانات کا مقابلہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ الخدمت فاﺅنڈیشن اس کی ایک مثال ہے ۔
الخدمت فاﺅنڈیشن نے اور ان جیسی بہت سی دوسری تنظیموں نے پاکستان میں سیلاب اور دیگر آفات و مشکلات میں متاثرین کی مدد کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیںاورمصیبت زدہ لوگوں کی پریشانیوں کو بانٹنے کیلئے ، عوام میں ایثار اور قربانی کے جذبے کو فروغ دینے میں بڑا مو ثر کردار ادا کیا ہے ۔ انسانوں کے طرزِ عمل پر غور کیا جائے تو الخدمت فاﺅنڈیشن کی ان خدمات کے تناظر میں میرے خیال میں ایک اہم حقیقت ہے جسے بڑھانے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔
اس حقیقت کا تعلق (Getting) اور (Giving)یعنی( لینے اور بانٹنے ) کی دو مختلف پیرا ڈائم سے ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی بڑی تعداد کی دلچسپی اور سرگرمی اپنی ذات اور اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے ۔ بدلتی دنیا میں کوئی بھی نئی صورتحال پیدا ہو، ان کی توجہ اس پر ہوتی ہے کہ وہ اس صورتحال میں اپنے لیے کیا حاصل(Getting) کر سکتے ہیں۔
الخدمت فاﺅنڈیشن اس کے برعکس رضاکاریت ، ایثار اور قربانی کی علامت ہے جہاں مفاد حاصل کرنے (Getting) کے مقابلہ میں توجہ دوسروں کی مدد اور انھیں کچھ دینے (GIVING) پر ہوتی ہے ۔ اس طرح الخدمت فاﺅنڈیشن کے ہزاروں رضاکاروں اور لاکھوں معاونین نے اپنے طرزِعمل سے انسانی زندگی میں GIVING کی پیراڈائم کو نمایاں کیا ہے۔
غور کیا جائے تو فی زمانہ انفرادی زندگی میں ذاتی مفاد (Interest Self )،اجتماعی زندگی میں کاروباری مفاد ( Interest Corporate) اور عالمی سطح ’ قومی مفاد , ( Interest National)انسانی فیصلوں کی بنیاد ہے۔ ایک حد تک یہ ایک فطری امر ہے۔ لیکن آج کی دنیا کا مسئلہ یہ ہے ان مفادات کے نام پر انسانوں کے اجتماعی مفادات اور ان سے متعلق اصولوں کو نظر انداز ہی نہیں بلکہ قربان کر دیا جاتا ہے۔
چنانچہ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ایک جانب دنیا بھر میں COVID کی تباہ کاریاں جاری تھیں اور دوسری جانب COVID ویکسین بنانے والی چند کمپنیاں اس سے اربوں ڈالرز کما رہی تھیں۔ [گزشتہ سال کے دوران سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ویکسین بنانے والی صرف دو بڑی کمپنیاں(Moderna, Pfizer-BioNTech) ہر ایک منٹ میں 65000 ڈالر منافع کما رہی تھیں جبکہ دنیا کے بہت سے پسماندہ خطوں میں ویکسین ہی دستیاب نہیں تھی۔]
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق 2021ءمیں دنیا بھر میں800ملین (87کروڑ) سے زیادہ لوگ خوراک کی عدم دستیابی کے باعث بھوک کا شکار تھے ۔ اس کا اور بھی زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلہ میں 46 ملین اور 2019ء کے مقابلہ میں 150ملین زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ کی اسی رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا کے مجموعی طور پر 3.1 بلین لوگوں کے پاس صحت مند غذا کی فراہمی کا انتظام نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جس قدر خوراک پیدا ہوتی ہے اس کا 30 سے 40 فیصد ضائع ہو جاتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ محض لاپرواہی یا مختلف سطح پر مخصوص مفادات کو یقینی بنانے کے لیے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ یہی رپورٹ اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف[ SDGs] میں بھوک کے خاتمہ کے حوالہ سے دنیا نے جن اہداف کو 2030ءمیں حاصل کرنا ہے اس میں فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج جس وقت ہم پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالہ سے الخدمت فاﺅنڈیشن کے کردار کو سراہنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، عین اسی وقت مصر میں شرم الشیخ کے مقام پر سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے پسِ منظر میں کارفرما موسمیاتی تبدیلیوں پر عالمی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ 6نومبر کو شروع ہونے والی اس کانفرنس کا اختتام 18 نومبر کو ہوگا۔ اس کانفرنس میں 120 سے زیادہ عالمی راہنما شریک ہو رہے ہیں۔
بلا شبہ عالمی سطح پر ایسی کوئی بھی کوشش خوش آئند ہے اور ہم ایسی ہر کوشش کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ 1992ءمیں ماحولیات پر پہلی کانفرنس اور پھر 1995ءمیں برلن میں ( Change Climate ) کے عنوان سے کانفرنس کے انعقاد کے بعد ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے حوالہ سے اب یہ 27ویں عالمی کانفرنس ہے۔
سوال یہ ہے کہ گزشتہ کم و بیش 30 سالوں کے دوران 27 کانفرنسوں کے نتیجہ میں ماحولیات کو لاحق خطرات کا خاتمہ یا یہ خطرات کم کیوں نہیں ہوسکے ؟اس کے برعکس کیا ایسا نہیں ہے کہ فطرت اور اس کے قوانین سے لڑائی کے نتیجہ میں ماحول کو نئے نئے خطرات لاحق ہورہے ہیں اور کیا ایسا نہیں ہے کہ اپنے اپنے مفادات کے حصول کی دوڑ میں طاقتور ممالک اور ادارے ان تجاویز اور اقدامات پر عمل در آمد کے لیے تیار نہیں ہیں جن کا تعین خود ان کانفرنسوں میں بیٹھ کر انھوں نے کیا ہوتا ہے؟
صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب موسمیاتی بگاڑ کو جنم دینے والے اسباب کے خلاف اقدامات نہیں ہو رہے اور دوسری جانب 2009ءکی کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک کے لیے 100 بلین ڈالرز کے جس امدادی فنڈ کے قیام کا وعدہ کوپن ہیگن (Copenhagen)میں کیا گیا تھا آج تیرہ سال گزرنے کے باوجود اس جانب کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
معاملہ صرف ماحولیات کے حوالہ سے پیدا ہونے والے بگاڑ کا ہی نہیں ہے۔ بگاڑ کا سلسلہ زندگی کے بہت سے دائروں میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کی وجہ 8ارب کی اس دنیا میں نا انصافی پر مبنی رائج نظام ہے۔ آج کی دنیا میں انسان اور اس کی فلاح نہیں بلکہ مارکیٹ انسانی فیصلوں کی بنیاد بن گئی ہے۔ مارکیٹ کی قوتیں کسی بھی دوسری قوت سے زیادہ انسانی زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں پہلے سے موجود عدم مساوات مسلسل بڑھ رہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس عدم مساوات میں چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک ہی نہیں امیر ترین ممالک بھی متاثر ہیں۔
حال یہ ہے کہ آج دنیا کے امیر ترین ایک فیصد لوگوں کی دولت دنیا میں رہنے والے چھ ارب سے زائد لوگوں کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے۔امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ امیر ملک ہے۔ اس کی آبادی دنیا کی آبادی کا 5 فیصد ہے لیکن دنیا کی GDP کا 20فیصد اس کے پاس ہے۔ دوسری جانب عدم مساوات خود امریکہ میں انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی ٹاپ 350 کمپنیوں کے CEOs کی تنخواہوں اور ان کے عام ملازمین کی تنخواہوں میں اس وقت تناسب ایک اور351 کا ہے۔
پاکستان میں سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کا تو ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے اور کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں دنیا کے ہر خطہ پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ صرف 2022ء پر نظر ڈالی جائے توسیلاب اور خشک سالی کے ساتھ ساتھ جنگلوں میں آگ لگنے اور Heat Waves کے واقعات امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا سے لے کر افریقہ اور ایشیا کے متعدد ملکوں میں سامنے آئے ہیں اور اعداد و شمار کی بنیاد پر کہا یہ جا رہا ہے کہ قدرتی آفات سے ہونے والی تباہی کے نقصانات کے نئے ریکارڈز قائم ہو رہے ہیں۔
لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا ہے ،کراچی کا آلودہ ترین شہروں میں چوتھا نمبر ہے۔ سموگ اور فضائی آلودگی کا انڈیکس مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ لاہور کی تیس فیصد آبادی گلے ،سانس ، سینے اور آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہورہی ہے ۔فضائی آلودگی میں اضافہ بھی عالمی درجہ حرارت کے بڑھنے کی وجہ سے ہورہا ہے
بلا شبہ یہ نہایت تشویشناک صورتحال ہے لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ تباہیاں محض قدرتی عوامل کا سبب ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو قدرتی عوامل تو کبھی ختم نہ ہوں گے ۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہماری آج کی بہت سی پریشانیاں قدرتی عوامل نہیں بلکہ انسانی زندگی کی اس پیرا ڈائم کی بناء پر ہیں جو انسان کے فطرت کے ساتھ تصادم پر مبنی ہے ۔
ہمارے پاس رہنے کے لیے صرف ایک زمین ہے ۔ عالمی کانفرنس کے آغاز میں درست طور پر کہا گیا ہے کہ”ہمارا یہ سیارہ خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے“۔ اس زمین پر رہنے والے آٹھ ارب انسانوں کے لیے یہاں وسائل کی کمی نہیں ہے، البتہ انصاف ا ور اعتدال پر مبنی نظام کا یہاں فقدان ہے۔ صورت حال کو بہتر بنانا ہو تو پوری انسانیت کو ایک خاندان سمجھتے ہوئے اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر نہیں بلکہ تمام انسانوں کی فلاح کو سامنے رکھ کر ایک بہتر گلوبل گورننس کے لیے ہمیں اقدامات کرنے ہوں گے۔