مستنصر حسین تارڑ
دو برس پیشتر ایک فون آیا… دوسری جانب ایک کھڑکتی ہوئی رُعب داب والی، پرتھوی راج کپور ایسی گونج دار آواز آئی اور جیسے وہ مُغلِ اعظم کے رُوپ میں ”شیخو“ یوں پکارتے تھے کہ شیخو یعنی شہزادہ سلیم کا سب کچھ خطا ہو جاتا تھا… تو اُس گرج دار آواز نے کہا:
”تارڑ!“
چونکہ اس عمر میں آ کر اب کچھ بھی خطا نہیں ہوتا، چنانچہ میں نے بے خطا ہو کر کہا: ”جی! بول رہا ہوں۔“
”پُتّر! میں ہندوستان کے شہر اِندور سے سردار جسونت سنگھ بول رہا ہوں۔ اِن دنوں تمھارا ناول ”خس و خاشاک زمانے“ پڑھ رہا ہوں تو ایک اُلجھن پڑ گئی ہے۔“
”اُسے سُلجھا دو…!“
مَیں نے کہا کہ سردار جی پہلے آپ یہ اُلجھن سُلجھا دو کہ وہاں اِندور میں آپ کے پاس میرا ناول کیسے پہنچ گیا؟
وہ صاحب جسونت، بلونت یا لکھ ونت سنگھ… جو بھی تھے، کہنے لگے :
”پُتّر! میں ضلع گجرات کے گاؤں دھریکاں کا رہنے والا ہوں… شروع دن سے اُردو ادب کا شیدائی ہوں۔ میرے قدیمی یاروں کی اولاد اب بھی مجھ سے رابطہ رکھتی ہے اور وہ مجھے میری فرمائش پر خصوصی طور پر تمھارے سفرنامے اور ناول بھیجتی رہتی ہے۔“
بانوے (92) برس تک پہنچ چکا ہوں تو ایک اُلجھن ہے۔ تمھیں تو کچھ یاد نہ ہو گا کہ پاکستان بننے سے پیشتر پنجاب کی دیہاتی ہندو، مسلم اور سکھ رہتل کیسی ہو گی… تو پھر تم ”خس و خاشاک زمانے“ میں مُسلم اور خاص طور پر سِکھ رہتل کو کیسے یوں بیان کر گئے جیسے تم اُس عہد اور معاشرے میں موجود تھے…
تو مَیں نے اُن سے کہا کہ تاؤ جی!… ہم جاٹوں کے آباؤ اجداد سِکھ تھے، پھر اُن کے جی میں جانے کیا آئی کہ مسلمان ہو گئے۔ ہم نے اپنا مذہب بدلا لیکن اپنی ثقافت اور خصلت نہ بدل سکے کہ بقول بخت جہاں اور نہال سنگھ، ایک جاٹ کا مذہب صرف زمین ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ سب کردار میرے اپنے لگتے لانیں ہی نہیں بلکہ قریبی رشتے دار ہیں۔ میں نے صرف اتنا ردّ و بدل کیا ہے کہ غلام قادر کو نہال سنگھ کر دیا ہے اور غلام فاطمہ کو بلونت کور کر دیا ہے اور جُوں کا تُوں…
سردار صاحب نے آخری بات یہ کی کہ پُتّر! میں نے بلونت اور بیدی کو بھی پڑھا ہے پر تُو اُن سے آگے نکل گیا ہے۔
اگر میں ایک سِکھ کی جانب سے عطا کردہ اِس کامپلی منٹ پر یقین کر لیتا تو یقیناً ایک احمق شخص ہوتا اور وہ تو میں نہیں ہوں ! بیدی اور بلونت تو میرے مُرشد ہیں۔ ان کی ہم سری کا خیال تو ایک خیالِ خام اور بے محال ہے۔
یہ طویل تمہید مَیں نے صرف اس لیے باندھی ہے کہ پھر طاہرہ اقبال کیا ہے؟
اِندور کے وہ سردار جی اگر ابھی تک حیات ہیں ، طاہرہ کا ناول ” نیلی بار“ پڑھ لیں تو بلونت اور بیدی تو کیا، مجھے بھی فراموش کر کے طاہرہ کے چرنوں میں گِر جاتے، اُسے اپنا ایک اور گورو مان کر اُس پر ایمان لے آتے کہ ”نیلی بار“ بھی تو گرنتھ صاحب کی ایک جادوئی تفسیر ہے۔
یہ طاہرہ پنجاب کی قرۃُ العین طاہرہ ہے۔ بے باک، بے دھڑک، بیک وقت معصوم بھی اور دریدہ دامن بھی۔ ”نیلی بار“ کے سامنے آج تک پنجاب کی جتنی بھی تحریریں اور تصویریں ناول کے کینوس پر پینٹ ہوئی ہیں ، سب کی سب پھیکی اور بے رُوح پڑتی دکھائی دینے لگتی ہیں۔ اس ناول کے کچھ حصّوں کے بارے میں مجھے احتیاط کا مشورہ دینا ہے، مَیں نہیں چاہتا کہ وہ بھی ایران کی طاہرہ کی مانند سچائی اور عشق کے جرم میں ایک اندھے کنویں میں دفن کر دی جائے۔
اُردو کے بیشتر ناول گونگے ہیں، وہ بولتے نہیں۔
طاہرہ کا ناول بولتا ہے۔ آوازوں کا غدر مچ جاتا ہے۔ زمینی مناظر زندہ ہو جاتے ہیں۔ ڈاچیاں بلبلاتی ہیں، کجاووں میں براجمان عورتوں کے بدن دوہائی دینے لگتے ہیں۔ کماد اور شٹالے کے کھیتوں میں سے پیراہن سنبھالتی حَسین دیویاں بہت سیاہ رنگت کی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ دربار لگ جاتے ہیں اور انار چھوٹنے لگتے ہیں… اور جب آندھی کا سرخ غبار اُٹھتا ہے تو اس کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔
”نیلی بار“ پنجاب کا ایک مہا بیانیہ ہے۔ وہ مہابھارت کے یُدھ کی ہم سری کرتا، ہومر کے ”ایلیڈ“ کو چیلنج کرتا ہے… وارث شاہ کے بیانیے کی قربت میں چلا جاتا ہے۔
گارسیا مارکیز نے کہا تھا کہ اگر ایک مرد خوش نصیب ہو تو اس کی زندگی میں ایک ایسی عورت آتی ہے جو اُسے مرد بنا دیتی ہے۔
اسی طور ایک ادیب خوش نصیب ہوتا ہے جب اُس کی زندگی میں ایک ایسا ناول آتا ہے جو اُسے ناول نگار بنا دیتا ہے۔طاہرہ، وہ ایک خوش نصیب ادیب ہے۔