پاکستانی ٹرانس جینڈر

پاکستان میں ٹرانس جینڈر بل ، اصل میں کیا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شبانہ ایاز

زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ” ٹرانس جینڈر پاکستان بل ” خنثیٰ ( خواجہ سراء) کو تحفظ دینے کا قانون ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ خواجہ سرا بھی انسان ہیں ، انھیں بالکل وہی تمام تر حقوق ملنے چاہئیں ، جو مردوں اور خواتین کو میسر ہیں ۔ یہ بات ٹرانس جینڈر ایکٹ کی مخالفت کرنے والے بھی مانتے ہیں.

سوال ہے کہ خواجہ سرائوں کو مکمل حقوق دینے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تو پھر ٹرانس جینڈر ایکٹ کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے ۔۔۔؟؟

ٹرانس جینڈر اور خواجہ سرا

ایسے افراد جو پیدائشی طور پر جنسی نقص کا شکار ہوتے ہیں انہیں خنثیٰ( خواجہ سراء) اور انٹرسیکس کہتے ہیں ۔جیسے بینائی اور سماعت سے محروم اور کسی بھی جسمانی معذوری کے باعث والدین اپنے بچوں کو خاندان سے باہر نہیں نکالتے ، اسی طرح پیدائشی طور پر جنسی نقص کے شکار بچوں کو بھی خاندان سے نہیں نکالنا چاہیے۔ اسلام ایسے افراد کو تیسری جنس کہہ کر معاشرے سے باہر نہیں نکالتا ۔بلکہ انہیں مرد عورت /مذکر مونث کا نام دیتا ہے. ایسے افراد اچھوت نہیں بلکہ وہ بھی فیملی کا حصہ ہوتے ہیں.

اسلام انہیں مرد عورت کے تمام شرعی حقوق دیتا ہے اور ان کی عزت کا پورا خیال رکھتا ہے۔ یہ کم علمی اور جہالت ہے کہ جنسی برتھ ڈیفیکٹ ( خنثیٰ) کے باعث ان افراد کو نام نہاد گرووں کے حوالے کردیا جائے جو ان کا روپ تبدیل کروا کے ناچ گانے ، سیکس ورکر بننے پر مجبور کریں ۔ یہ تو سراسر ظلم اور انسانیت کے خلاف سنگین ترین گناہ ہے۔

ہونا یہ چاہیے تھا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ان مظلوموں کا خیال کرتے ہوئے انہیں حقیقی تحفظ دیا جاتا اور صدیوں سے رائج اس گندے نظام کو بدلا جاتا۔
اس ایکٹ میں خنثیٰ افراد کو گھروں سے نکال کر گروؤں کے حوالے کرنے پر سزا کا تعین کیا جاتا ۔ انہیں والدین ، دادا دادی ، نانا نانی کی تحویل میں رکھے جانے پر پابند کیا جاتا ۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 35 میں خاندان ، ماں اور بچے کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضمانت دی گئی ہے ۔ خنثی بچے یا فرد کو خاندان سے کاٹ کر ایک ظالم جرائم پیشہ گروو کے حوالے کر دینا نام نہاد انسانی حقوق اور چائلڈ رائٹس کمیشن (CRC) کی خلاف ورزی ہے . اگر اس قانون کا مقصد خنثیٰ یعنی انٹر سیکس افراد کو حقوق دینا تھا تو اس کا نام ٹرانس جینڈر ایکٹ کیوں رکھا گیا ۔۔۔؟؟؟
اس کا نام انٹرسیکس پرسن پروٹیکشن رائٹ ایکٹ 2018
Inter sex person protection right act
رکھا جاتا تو جو اعتراض پیدا ہوا ہے وہ نہ ہوتا۔

درحقیقت خنثیٰ( مخنث) افراد کی آڑ لے کر ٹرانس جینڈر کے تحفظ کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے۔ ٹرانس جینڈر ایک چھتری ٹرم(Umbrella term) ہے ۔ ایسی چھتری جس کے نیچے ماڈرن نظریہ جنس اور ہم جنس پرستوں کی تمام اقسام اپنا گھناؤنا کام کرتی ہیں۔ یہ ایکٹ یوگیاکارتا پرنسپل 10
Yogia karta principles 10
کے ایجنڈے کو پاکستان میں نافذ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جو دنیا بھر میں
LgBTQ
نظریات یعنی ہم جنس پرستی اور جنسی بے راہ روی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کام کرتا ہے . یہ قانون ایک نئے شیطانی نظریہ جنس پر بنایا گیا ہے جس میں جنس کو اختیاری قرار دیا گیا ہے ۔

اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص
Self perceived gender ideology
ذاتی احساسات کی بنیاد پر اپنی جنس تبدیل کر سکتا ہے جو کہ شرعاً حرام اور قابل سزا جرم ہے ۔

2021 کی وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس ایکٹ کے تحت 28,723 لوگ اپنی جنس تبدیل کروا چکے ہیں۔
اسی قانون کے تابع ٹرانس جینڈر رولز 2020 کے تحت ہر کوئی سرجری یا ہارمونز تھیرپی کروا کر اپنی جنس تبدیل کر سکتا ہے ۔
رولز 2020 میں جس دستاویز کے تحت اجازت دی گئی ہے وہ
W PATH standard of care
کے مطابق ہے , جس کا ہر جملہ شریعت سے متصادم ہے ۔

آئیے ! مذید حقیقت پر سے پردہ اٹھائیں اور دیکھیں کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ کے اندر کیا چھپا ہوا ہے ؟؟؟

ٹرانس جینڈر ایکٹ درحقیقت نئے نظریہ جنس
(New Gender Ideology) پر ڈرافٹ کیا گیا ہے
جوLgBTQ کو قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔
ٹرانسجینڈر ایکٹ کی سنگینی کو سمجھنے کے لئے چند اصطلاحات کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔

نئے نظریہ جنس کے مطابق
Gender اور sex
کی تعریف الگ الگ کی جاتی ہے اور یہی تقسیم اس باطل نظریے کی بنیاد ہے۔

اقوام متحدہ ہم جنس پرستی کو عالمی تحفظ فراہم کرنے والا ادارہ ہے اس کے ذیلی ادارے
World Health organization کے مطابق
Sex اور Gender
کی الگ الگ خودساختہ تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔

جنس (sex) کا مطلب مردوں اور عورتوں کی مختلف جسمانی خصوصیات ہیں۔ *
صنف( Gender) سے مراد عورتوں مردوں ، لڑکوں ، لڑکیوں کی خصوصیات جو سماجی طور پر تعمیر کی گئی ہیں. اس میں عورت اور مرد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے تعلقات سے منسلک اصول ، رویے اور کردار شامل ہیں ۔ یہ صنف ہر معاشرے میں مختلف بھی ہوسکتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بدل بھی سکتی ہے۔*
یہ ہے وہ بنیادی خرابی جس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ اللہ کے قانون تخلیق کو بدلنے والی بات ہے۔

نظریہ جنس نے جینڈر (gender) کو جنس (sex)
سے مختلف بتانا شروع کر دیا اور اللہ کی تخلیق کردہ جنس کو ظاہر اور باطن میں تقسیم کر کے دونوں میں انسان کو اپنی مرضی سے تبدیلی کی اجازت اور مکمل آزادی دے دی۔
اس کے بعد سیکس اور جینڈر کی ان تعریفات کی بنیاد پر مزید گمراہ کن اصطلاحات متعارف کروائیں گئیں۔

Sexual Orientation.
اس اصطلاح سے مراد کسی فرد کی وہ گہری رومانی ، جذباتی ، کشش جسمانی تعلق یا احساس ہے جو وہ کسی دوسرے فرد کے لئے محسوس کرتا ہے۔ یعنی ایک فرد کا جذباتی رجحان سیکس اورینٹیشن( sex orientation) کہلاتا ہے ۔
اسے مکمل جنسی آزادی کہتے ہیں. ( جبکہ شریعت مرد اور عورت کو نکاح کا پابند کرتی ہے۔)

Gender Identity.
یہ وہ جنسی شناخت ہے جو کوئی فرد اپنے اندرونی اور باطنی احساسات اور رجحانات کی بنیاد پر اختیار کرتا ہے ۔ یہ اس کی پیدائش ، جنسی شناخت اور معاشرے کی طرف سے دی گئی شناخت کے مطابق بھی ہوسکتی ہے اور اس کے غیر مطابق بھی ۔ یعنی جنسی شناخت اختیار کرنے کی مکمل آزادی۔۔۔ ۔۔۔

اس تعریف سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ ایک مرد جب چاہے عورت کی شناخت لے لے یا عورت مرد کی شناخت لے لے۔ (شریعت میں ایسی کوئی آزادی موجود نہیں ۔ پیدائشی جنسی شناخت بدلنا قطعی حرام ہے ۔)

Gender Expression.
ایک فرد اپنی مرضی سے اپنے لیے جو جنسی شناخت اختیار کرتا ہے وہ چاہے تو اس کا اظہار کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ یعنی جب چاہے خود کو عورت ظاہر کرے اور جب چاہے خود کو مرد ظاہر کرے۔۔ (شریعت میں مردوں کا عورتوں کی مشابہت اور عورتوں کا مردوں کی مشابہت حرام ہے۔)

کسی بھی قانون میں تعریفات کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے .
پاکستان کے ٹرانسجنڈر ایکٹ2018 کی تعریفات میں آرٹیکل 2 کی شق E اور F
میں جینڈر ایکسپریشن( Gender Expression)اور جینڈر آئیڈنٹٹی (Gender Identity) میں یہی دو تعریفات.. نئے نظریہ جنس اور LgBTQ
نظریات کی بنیاد ہے ,جو ہم جنس پرستی کو جواز فراہم کرتی ہیں۔

اس قانون میں سیکچوئل اورینٹیشن( sexual Orientation) کو براہ راست تو نہیں لکھا گیا , مگر اس قانون میں اس کو جواز فراہم کیا گیا ہے۔
اس ایکٹ کے حوالے سے یہ دھوکہ دیا جا رہا ہے کہ یہ بل خواجہ سراؤں کی وراثت کے لیے بنایا جارہا ہے.

جس کی جسمانی ساخت عورت کی طرح ہے اسے عورت قرار دے دیا جائے اور جو مرد، مرد جیسی جسمانی ساخت رکھتا ہے وہ مرد لکھ دیا جائے۔ اسے وراثت میں حصہ مل جائے ۔ لیکن اس کی تشخیص کے لیے میڈیکل بورڈ کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے ۔
تینوں صوبائی اسمبلیوں میں اس ایکٹ کو مسترد کرنے کی قراردادیں پیش کی گئی ہیں ۔ اس ایکٹ کو اسلامی نظریاتی کونسل اور بغیر قائمہ کمیٹی کو بھیجے عجلت میں منظور کرلیا گیا تھا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل
RL227
اور شریعت ایکٹ 1991 کے مطابق کسی غیر شرعی قانون کا نفاذ پاکستان میں ممکن نہیں۔اس بل کو جید علمائے کرام اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلام کے خلاف قرار دیا ہے اور اس قانون کو LgBTQ ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔

خنثیٰ( خواجہ سراء) معاشرے میں بہت تھوڑے ہیں ۔یہ نظرانداز مظلوم طبقہ ہے۔ ان کی آڑ میں اس ایکٹ کے ذریعے ہم جنس پرستی کو فروغ دیا گیا ہے۔

مذید کیا نقصانات متوقع ہیں۔۔؟؟؟

ٹرانس جینڈر قانون کے تحت ہم جنس پرستوں کی شادی کا راستہ ہموار کردیا گیا ہے اوراس شادی کو قانونی جواز دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت ان خواجہ سراؤں کو تحفظ دیا گیا ہے جو کہ اصل میں مرد ہیں ، جو کہ ناچ گانے اور جنسی جرائم میں ملوث ہیں۔

اسی قانون کے تحت ہم جنس پرستوں کو معزز شہری بنا دیا گیا ہے . انہیں مجرموں کی فہرست سے نکال کر سرکاری عہدہ دار بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اسی طرح اس قانون کے تحت کوئی مرد شناختی کارڈ میں جنس عورت لکھوا کر خواتین کے تعلیمی اداروں میں پڑھ سکتا ہے اور پڑھا بھی سکتا ہے۔

کوئی بھی عورت شناختی کارڈ میں جنس مرد لکھوا کر وراثت میں ڈبل حصہ لے سکتی ہے۔ مسجد میں امامت کروا سکتی ہے۔ مردوں کی صف میں ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتی ہے۔ یہ قانون پاک دامنی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور جنسی مجرموں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

یہ قانون ہمارے نظام معاشرت , وراثت , نکاح , تعلیم اور تمام اسلامی اقدار پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ اور یہ آئین پاکستان کے بھی منافی ہے . آئین پاکستان کی شق 227 کے مطابق تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت کے احکام کے مطابق بنائے جانے کا حکم ہے ۔ اس ایکٹ کے تحت نادرا سمیت تمام حکومتی اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ جنس بدلنے والوں کو شناختی کارڈ ، پاسپورٹ ، ڈرائیونگ لائسنس جاری کریں۔

سوال یہ ہے کہ یہ قانون کس نے بنایا ؟؟

یہ بل 21 اگست 2017 کو سینیٹر روبینہ خالد پپلز پارٹی
سینیٹر ثمینہ عابد پی ٹی آئی ۔
سینیٹر کلثوم پروین مسلم لیگ ن
سینیٹر روبینہ عرفان مسلم لیگ ق
نے متعارف کرایا اور 2018 میں یہ ایکٹ بنا۔

2018 میں حکومت پاکستان مسلم لیگ ن کی تھی ، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تھے. پیپلزپارٹی کے سینٹرز کریم احمد خواجہ اور روبینہ خالد نے بل پیش کیا۔ ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل سینیٹ کمیٹی کی چئیر پرسن تھی۔ اور ریاست مدینہ کے دعویدار پی ٹی آئی نے بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اسے پاس کرواکر پورے ملک میں نافذ کروایا۔

پھر جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو اس حکومت نے اس قانون کو کالعدم قرار دینے کے بجائے ان کی رہنما شیریں مزاری نے اپنی سربراہی میں اس قانون کے نفاذ کو اور زیادہ موثر بنا دیا اور ٹرانسجینڈر رولز 2020 بالآخر نافذ کر دیئے۔

جماعت اسلامی نے اس ایکٹ کی بھرپور مخالفت کی اور سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس میں ترامیم کی کوشش کی ۔پی ٹی آئی کی شیریں مزاری نے ان ترامیم کی مخالفت میں شدید مزاحمت دکھائی ۔ بہرحال یہ بل متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے جہاں اس بل پر پہلی میٹنگ 5 ستمبر 2021 کو ہو چکی ہے ۔ یہ کمیٹی اگلے ماہ اکتوبر 2022 میں یہ ترامیم منظور یا مسترد کرے گی۔

ان ترامیم کے مطابق اس ایکٹ میں ٹرانس جینڈر کی تعریف نمبر دو اور تعریف نمبر 3 جس میں مکمل مرد اور مکمل عورت کو ٹرانسجینڈر قرار دیا گیا ہے کے خاتمے کا مطالبہ ہے۔

ٹرانسجینڈر کے تعین کے لیے ذاتی تصور کی ہوئی جنسی شناخت کے بجائے اسے میڈیکل بورڈ سے مشروط کئے جانے اور میڈیکل سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔۔

اس میڈیکل بورڈ میں ڈاکٹر ، پروفیسر ، سرجن ، گائناکولوجسٹ اور سائیکالوجسٹ شامل ہوں ، جو فیصلہ کریں کہ یہ واقعی خنثیٰ(inter sex) ہے یا نہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “پاکستان میں ٹرانس جینڈر بل ، اصل میں کیا ہے؟” جوابات

  1. Mehwash Shabbir Avatar
    Mehwash Shabbir

    Great article…

  2. زبیدہ روف Avatar
    زبیدہ روف

    یہ ایک بہت ہی تکلیف دہ موضوع ھے۔ اس پر سب کو آواز اٹھانی چاہئے۔۔۔۔اور ان چند لوگوں کا ساتھ دینا چاہئے جو عدالت تک جا رہے ہیں۔۔۔۔