شبانہ ایاز
ترک ڈرامہ ’ ارطغرل غازی‘ دیکھ کر جہاں دیگر تمام پاکستانی متاثر تھے، وہیں ہم لوگوں نے بھی سلطنت عثمانیہ کی شاندار تاریخ سے متاثر ہو کر اپنے ایک بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ترکیہ ( ترکی کا نیا نام ) بھیجا ۔ بعد ازاں بیٹے کے پیچھے پیچھے اس کے والد محترم بھی پہنچ گئے۔ ان کا مقصود محض سیر و تفریح تھا تاہم جب انھوں نے وہاں کی پُرامن ، صاف ستھری اور سہولیات سے مزین زندگی دیکھی تو خوب متاثر ہوئے اور فٹافٹ انقرہ میں ذاتی گھر بھی خرید لیا۔
اس کے بعد ان کا اصرار تھا کہ میں بھی اُڑ کے ترکیہ پہنچ جاﺅں۔ چنانچہ تین ماہ کا وزٹ ویزہ لے کر حالیہ رمضان المبارک کے وسط میں دارالحکومت ’ انقرہ ‘ پہنچی تو سرد موسم سے سامنا ہوا ، حالانکہ اس وقت پاکستان میں شدید گرمی تھی۔
رمضان المبارک میں ایک دو بار ہی سبزی مارکیٹ ودیگر مارکیٹوں میں جانا ہوا۔ میرے حجاب کی وجہ سے لوگ پوچھنے پر مجبور ہوجاتے کہ آپ کہاں سے آئی ہیں؟
ترکیہ میں ’ پاکستان ‘ کا نام سن کر محبت سے دل پر ہاتھ رکھ کر کہتے کہ ’ ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں‘۔ دراصل ترکیہ میں خواتین سکارف کا اہتمام کرتی ہیں لیکن نقاب نہیں کرتیں۔ چنانچہ نقاب کرنے والی خاتون واضح طور پر پہچانی جاتی ہے کہ کوئی غیر ملکی ہے۔ شام اور دیگر عرب ممالک کی خواتین بھی نقاب کرتی ہیں۔
٭ حاجی بیرام ولی
رمضان المبارک اچھے انداز میں گزرا ۔ اس میں بہت زیادہ گھوما پھرا نہیں جاسکتا ، چنانچہ زیادہ وقت گھر ہی میں گزرا ۔ پھر عید آگئی۔ عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کے سلسلے میں انقرہ کے مشہور صوفی بزرگ ’ حاجی بیرام ولی ‘ کے نام سے منسوب مسجد جانے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ وہی حاجی بیرام ولی ہیں جن کے شاگرد آق شمس الدین ، سلطان محمد فاتح (فاتح قسطنطنیہ) کے استاد تھے ۔
حاجی بیرام ولی نے سلطان مراد ثانی کو استنبول (قسطنطنیہ) کی بشارت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ” سلطان مراد ! آپ قسطنطنیہ فتح نہیں کریں گے ، لیکن آپ کا بیٹا’ محمد ‘ اسے فتح کرے گا ۔ اس فتح کے وقت آپ اور میں زندہ نہیں ہوں گے لیکن میرا شاگرد آق شمس الدین وہاں ہوگا۔“
حاجی بیرام ولی نے اپنے شاگرد آق شمس الدین کو شہزادہ محمد کا استاد مقرر کیا اور سلطان مراد ثانی نے ان سے اتفاق کیا اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ اسی شہزادہ محمد نے محض 21 برس کی عمر میں 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا اور ’ فاتح ‘ کا لقب حاصل کیا۔ شہزادہ اپنے بچپن میں سیکھنے میں کافی سست واقع ہوا تھا۔ بعدازاں چند ایسے اساتذہ کی شاگردی میں گیا جنھوں نے اسے نہایت ہوشیار اور چست و چالاک بنادیا۔ پھر اس نے دین کی تعلیم حاصل کی ، مختلف زبانیں سیکھیں ، جغرافیہ ، علم نجوم اور تاریخ پر عبور حاصل کیا۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے مختلف ہنر بھی سیکھے ۔ سائنس اور علم ریاضی بھی پڑھا۔ گھڑ سواری اور جنگی تربیت تو اسے گھٹی میں ملی تھی ۔
رسول اکرم ﷺ نے اس کمانڈر کو بہترین کمانڈر اور اس فوج کو بہترین فوج قرار دیا تھا جو قسطنطنیہ کو فتح کرے گی۔ یہ اعزاز شہزادہ محمد کو حاصل ہوا ۔ کس قدر قابل فخر ہے وہ فرد جو رسول اکرم ﷺ کی بات کو پورا کرے۔ سبحان اللہ !
حاجی بیرام ولی کے مزار کے ساتھ بہت خوب صورت جامع مسجد ہے جہاں خواتین کے لیے علیحدہ نماز ، وضو کا انتظام ہے۔ مسجد سے متصل بے حد خوب صورت پارک ہے ۔ مزار اور مسجد تک آنے کے لئے گاڑی پارک کرنے کے بعد لفٹ کا انتظام ہے ۔ مسجد سے ملحق نیچے اتر کر سلجوقیوں کے وقت کے انتہائی قدیم بازار کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔ حاجی بیرام مقبرے کے ساتھ آگسٹس اور روم کے مندر اور عظیم حمام کے آثار بھی اس عظیم دور کی یاد دلاتے ہیں۔ ویسے یہ شہر اس قدر قدیم ہے کہ یہاں پر دسویں صدی قبل از مسیح کے آثار بھی ملتے ہیں۔
٭انقرہ شہر اور تاریخی مقامات
عید کے دوسرے دن انقرہ میں چند دوست ترک فیمیلیز ( اسماعیل صاحب ، رشید صاحب ، ابراہیم صاحب اور الپرین اور فاتح صاحب) کی دعوت پر جانا ہوا ۔ انھوں نے انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ سینیٹائزر سے ہاتھ صاف کروا کر پہلے چاکلیٹ پیش کی ۔ پھرروایتی دال کا چوربہ (شوربہ) ، بھیڑ اور گائے کے گوشت سے بنے ڈونر کباب اور ترکیہ کا مشہور میٹھا بکلاوہ ، ساتھ ترکوں کی روایتی لسی ۔کھانے کے تھوڑی دیر بعد یہاں کی روایتی چائے( قہوہ ) بار بار پلائی گئی ۔ شام کو خاص سلطانی برتنوں میں روایتی میٹھے کے ساتھ بلیک کافی پیش کی گئی۔
ترک کھانوں کا شمار دنیا کے بہترین کھانوں میں ہوتا ہے جس میں دور عثمانی اور بلقانی کھانوں کا رنگ جھلکتا ہے ۔ ترک کھانے کے اجزائے ترکیبی اور پکانے کا انداز کافی مشہور ہے ۔
آئیے ! لگے ہاتھوں آپ کو چند مشہور ڈشز کا تعارف کرواتے چلیں ، ممکن ہے کہ آپ کے منہ میں بھی پانی بھر آئے اور آپ بھی تیار کرنے اور کھانے کا تجربہ کریں۔
چی کوفتہ : ترک روایتی کھانوں میں سرفہرست ’ چی کوفتے ‘ ہوتے ہیں ۔ یہ بچوں ، بڑوں ، سب کا من بھاتا کھاجا ہے ۔ یہ ایک قسم کی فاسٹ فوڈ ہے ۔ گھروں میں بھی خواتین اسے تیار کرتی ہیں لیکن کسی تقریب کے لئے۔ اس میں کچے گوشت کا قیمہ ، ٹماٹر کا پیسٹ ، لہسن، کالی مرچ اور ترک مصالحے شامل ہوتے ہیں۔ ان ساری چیزوں کو ہاتھوں سے اچھی طرح یک جان کر کے ہاتھوں سے میٹ بالز بنائے جاتے ہیں اور پھر اسی طرح کھایا جاتا ہے۔
اسکندر کباب : یہ ڈش انیسویں صدی کے ایک شخص کے نام سے موسوم ہے ۔ اس کا نام اسکندر تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ یہ ڈش بنائی۔ اس میں ڈبل روٹی کے ٹکڑے بچھا کر ٹماٹر کی چٹنی ڈالی جاتی ہے۔ اور پھر مکھن پگھلا کر گوشت کے ٹکڑوں پر ڈالا جاتا ہے۔ ساتھ دہی ہوتا
ہے۔
دال سوپ (چوربہ) : ترکی میں گھروں میں سب سے پہلے مہمانوں کی خاطر تواضع دال کے گرما گرم سوپ سے کی جاتی ہے۔ ملکہ مسور کی دال کو پانی میں خوب گلا کر اس میں اوریگانو ، زیرا ، پیاز ، مکھن ، ٹماٹر ، کالی مرچ اور نمک شامل کرکے خوب پکایا جاتا ہے۔ پھر لیموں اور روٹی کے ساتھ مہمانوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ چاہیں تو چمچ سے پئیں یا پھر روٹی کے ساتھ کھائیں۔
بکلاوہ : یہ ایک مشہور مٹھائی ہے۔ ترک عوام میٹھے میں سب سے زیادہ ’ بکلاوہ ‘ پسند کرتے ہیں ۔ میدے کی باریک روٹیوں کو تہہ در تہہ بچھایا جاتا ہے اور ان پر مکھن اور پسا ہوا پستہ ڈالا جاتا ہے ، پھر بیک کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ان پیسٹریوں کو شہد ،چینی ، لیموں کے رس کا شیرہ بناکر ،ان کے اوپر ڈال کر دوبارہ بیک کیا جاتا ہے۔
کوکورچ: بلقان اور عثمانی مشہور ڈش ہے ۔ بھیڑ یا بکری کی آنتوں کو گوشت (گردے ، کلیجی وغیرہ ) پر لپیٹ کر گرلڈ کیا جاتا ہے۔ پھر اس گوشت کو آدھی روٹی کے اندر ڈال کر توے پر اچھی طرح گرم کرکے پیش کیا جاتا ہے ۔ کوکورچ مشہور اسٹریٹ فوڈ ہے۔ ریسٹورنٹ میں تیار کیا جاتا ہے ۔ اسے لکڑی کی آگ پر پکایا جاتا ہے۔ اس میں ترکی کے روایتی مصالحے بھی ڈالے جاتے ہیں۔
اب رہ گئی بات ترک چائے کی ، جو دراصل قہوہ ہوتا ہے۔ یہ جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرتا ہے، کینسر کا سبب بننے والے سیلز کو ہلاک کردیتا ہے ، ٹینشن اور بے خوابی سے نجات دلاتا ہے ، جلد کو صحت مند رکھتا ہے ، قوت مدافعت کو پانچ گنا تک بڑھاتا ہے ، برین ٹیومر کے خطرات کو کم کرتا ہے ، نظام انہضام کو بہتر کرتا ہے ، ہیضہ نہیں ہونے دیتا ، یہ ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے ، دانتوں کے امراض لاحق نہیں ہوتے ، میٹا بولزم کو بہتر کرتا ہے ، پیشاب کو صاف کرتا ہے ، دل کے امراض کے خطرات بھی کم ہوتے ہیں اور گردوں صحیح انداز میں کام کرتے رہتے ہیں۔
مجھے ترکی زبان نہیں آتی تھی نہ ترک میزبانوں کو اردو اور انگریزی مگر اس کے باوجود محبت کی زبان نے محفل کا تعلق قائم رکھا۔ عید کے تیسرے دن انہی فیملیز کی ساری خواتین فاطمہ ، برجیس ، یامور ، سرا اور والدہ ( ایک بزرگ ترک خاتون جنھیں سب ’ والدہ ‘ کہہ کر پکارتے تھے) مجھ سے عید ملنے میرے گھر آئیں ۔ جب سب اس بزرگ خاتون کو ’ والدہ ‘ کہہ کر مخاطب کرتے تو مجھے فوراً ارطغرل یاد آجاتا تھا ۔ وہاں ارطغرل کی والدہ کو سب ہی ’ والدہ ‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔
دنیا کے مہذب معاشروں کی طرح ترک بھی بزرگ خاتون کو یکساں احترام دیتے ہیں۔ بہرحال میں نے پاکستانی ڈشز تیار کی ہوئی تھیں جن میں مرچ استعمال نہیں کی گئی تھی۔ ساری ڈشیں ان خواتین نے تھوڑی تھوڑی چکھیں مگر کچھ خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی ۔ پھر جب اگلی بار میں نے ان ہی کے روایتی کھانے انہیں کھلائے تو بہت خوش ہوئیں۔
عید کی چھٹیوں میں ہم بچوں کو انقرہ کی مشہور جگہوں پر سیر کے لئے لے گئے جن میں سر فہرست مصطفیٰ کمال اتاترک کا مقبرہ ہے۔ اسے ’ انیت قبر‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ مقبرہ سنگ مرمر کے دیو ہیکل ستونوں کے درمیان ہے جس کے دائیں جانب میوزیم اور بائیں جانب بے حد خوبصورت پارک ہے ۔
اتاترک کے مزار کو ہفتے کے کسی بھی دن صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک دیکھا جاسکتا ہے۔ میوزیم میں اتاترک کی استعمال شدہ اشیاءاور جنگ آزادی کی تمام یادگاریں محفوظ ہیں ۔ دوسری جانب پارک میں پچاس ہزار سے زائد پودے اور درخت ہیں ۔ یہاں پبلک ٹوائلٹس بھی انتہائی صاف و شفاف ہیں ۔ ان کے سامنے فریزرز میں بازار سے کم قیمت پر کافی ، چائے، لسی اور کولڈ ڈرنکس سیاحوں کے لئے دستیاب تھی۔
چونکہ پاکستان میں چھٹیوں میں پارک جانے کی خواہش ہوتی ہے تو انقرہ میں بھی اس خواہش نے سر اٹھایا ۔ جب ہم نے انقرہ کے پارکوں میں گھومنا شروع کیا تو خوش گوار حد تک حیران ہوئے کہ انقرہ میں ایشیا کے سب سے بڑے پارک ہیں ۔ یہ پارک ترکیہ کے ابتدائی برسوں میں قائم کئے گئے اور اس کے بعد ان کی اچھی طرح دیکھ بھال اور توسیع کی گئی۔
ان میں قابل ذکر گنجیلک پارک ( اس میں اتنا بڑا تالاب ہے جس میں کشتیاں چلائی جاتی ہیں) ، سیغمنلا پارک ،کانسٹیٹیوشن پارک ، کوغلو پارک (چینی حکومت کی جانب سے تحفے میں پیش کیئے گئے ہنسوں کے لئے مشہور ہے) ، عبدہ ایپیکچی پارک ،اسیر پتہ پارک ، گوین پارک ، کورتولوش پارک (جو کہ آئس اسکیٹنگ کے لئے مشہور ہے) ، التین پارک ( جہاں ہر سال نمائش اور میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے) ، ونڈر لینڈ پارک (یورپ کا سب سے بڑا پارک) ، گوکسو پارک اور نباتاتی پارک ہیں۔ اس کے علاوہ انقرہ کی ہر بلدیہ میں ہر ایک کلومیٹر کے بعد انتہائی سرسبز درختوں ، پھولوں سے بھرے پودوں والے پبلک پارک ہیں جہاں پر واکنگ ٹریک ، بچوں کے لئے جھولے، ایکسرسائز کا سامان اور
ساتھ ہی ایک خوبصورت بڑے پیا لہ نما گنبد والی مسجد ہوتی ہے۔
یہاں پر میں یہ بتاتی چلوں کہ انقرہ ترکی کا دل اور دارالحکومت تو ہے ہی ، یہ ایک اہم تجارتی اور صنعتی شہر بھی ہے۔ انقرہ میں مارکیٹ ، دکانیں سب ترتیب سے موجود ہیں ۔ سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کے لیے کشادہ جگہ ہے ، جس پر ٹھیلے والوں اور ناجائز تجاوزات والوں نے قبضہ نہیں کیا ۔ اس شہر میں رومن فن تعمیر اور عثمانی فن تعمیر کی بہترین محفوظ مثالیں موجود ہیں جن میں قابل ذکر20 قبل مسیح کا، پہلے رومی حکمران آگسٹس کا مندر و حمام ہے۔
انقرہ کا سب سے معروف اور کاروباری مرکز ’ کزلے اسکوائر ‘ ہے جو شہر کے عین وسط میں ہے۔ یہ جگہ بیرون ممالک سے آنے والوں کا مرکز ہے ۔ یہ استنبول کے بعد دوسراسب سے بڑا شہر ہے ۔ انقرہ پچھلے ایک سو سال سے ترکی کا دارالحکومت ہے ۔ یہ ایک جدید شہر سے کہیں بڑھ کے ہے۔ اپنے عجائب گھروں اور قدیم مقامات کے لیے خوب مشہور ہے۔
یہاں کا عجائب گھر آٹھ ہزار سال قبل مسیح کے حیرت انگیز نمونوں سے بھرپور ہے ۔ عجائب گھر انقرہ قلعے کے جنوب میں واقع ہے جس میں ہزاروں سال پرانے مجسمے ، ہٹائٹس کے دور کی خبر دیتے ہیں ۔ ہٹائٹس یا حتی تہذیب رومن اور بازنطینی دور کے نمونوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی ۔ ان نمونوں میں زیورات ، آرائشی برتن ، سکے اور مجسمے شامل ہیں جو اپنے وقت کے حکمرانوں کی عظیم کہانی بیان کرتے ہیں۔
حتی ایشیائے کوچک کی ایک قدیم قوم جس نے پندرھویں یا چودھویں صدی قبل مسیح میں اس علاقے میں جہاں اب ترکی آباد ہے۔ ایک عظیم سلطنت قائم کی۔ ان کا ذکر بائبل میں بھی آیا ہے۔ ان کی حکومت جاگیردارانہ نظام کی آئینہ دار تھی۔ جس میں عورت حکمرانی نہیں کر سکتی تھی۔ ڈیوڑھی کا استعمال سب سے پہلے انھوں نے کیا۔
یہ لوگ سلام کرتے وقت مٹھی بھینچ کر نازیوں کی طرح بازو آگے بڑھاتے تھے ۔ ایک جنگجو قوم تھی ۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں صفحہ ہستی سے مٹ گئی ۔ انسانی نسلوں کا مطالعہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ لمبی ناک جو اب اہل یہود کا امتیازی نشان سمجھی جاتی ہے دراصل حتی لوگوں کی عطا کردہ ہے۔ جسے باہمی اختلاط سے یہودیوں نے حاصل کیا۔
انقرہ کو بعض اوقات سیاح نظر انداز کر دیتے ہیں جو کسی حماقت سے کم نہیں ہے کیونکہ انقرہ ترکی کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ ترکی کی عظیم تاریخ کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے ۔ یہاں حاجی بہرام کے مقبرے کے ساتھ پہلے رومی حکمران آگسٹس اور روم کے مندر اور حمام کے آثار اس عظیم دور کی یاد دلاتے ہیں ۔
انقرہ نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکی کے سابق دارالحکومت استنبول کی جگہ لے لی تھی ۔ یہ بے حد سر سبز و شاداب شہر ہے ۔ سلطنت عثمانیہ میں انقرہ ایک چھوٹا سا مقامی شہر تھا، لیکن 1893ءمیں استنبول سے ریلوے لائن انقرہ پہنچی ۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکوں کی وطن آزادی کی تحریک یہیں سے شروع ہوئی ۔
اتاترک نے آزادی کی رہنمائی کے لئے انقرہ شہر کو منتخب کیا۔ یہ 1923 ء سے ملک کا دارالحکومت ہے، ریل اور ائیر پورٹ کے ذریعے متعدد ملکوں سے جڑا ہوا ہے ۔ یہ افراتفری والے استنبول کے مقابلے میں پرسکون ، ہرا بھرا ، سستا اور زیادہ منظم شہر ہے۔
٭ نوجوانوں کی فوجی ٹریننگ
اب چونکہ مختصر سے عرصے میں ترک خاندانوں سے گھریلو سطح کے تعلقات بن گئے تھے ، لہذا انہوں نے مجھے اپنی بہو تسلیم کرلیا تھا ، اور اپنی نجی محفلوں میں بھی ہمیں بلانے لگے ۔ ترکیہ میں بیس سال کی عمر میں فوجی ٹریننگ لازمی ہوتی ہے ۔ جونہی نوجوان بیس سال کی عمر کو پہنچتا ہے اسے حکومت کی طرف سے پیغام آ جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو فوجی تربیت کے لئے قونیہ پہنچ جائے ۔
چنانچہ ایک روز میری ایک ترک دوست کے بیٹے’ فاتح ‘کو بھی بلاوا آ گیا۔ اسے ہنسی خوشی رخصت کرنے کے لیے اس کے خاندان کے لوگوں اور دوستوں کی دعوت رکھی گئی ۔ اس میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا ۔ الوداعی تقریب میں سب نوجوانوں نے فاتح کے ساتھ مل کر گیت گائے، روایتی رقص کیا ، مخصوص دعائیہ رسمیں کی گئیں ، مہمانوں کی خاطر تواضع کی گئی۔
فوجی تربیت کے لئے بلاوا آنے پر خوشی منانا صرف ’ فاتح ‘ اور اس کے گھر والوں کا معاملہ نہیں تھا ، میں نے دیکھا کہ ترکی میں فوجی تربیت کے لئے بلاوا آتا ہے تو نوجوان اور اس کا گھرانہ خوب پرجوش ہوتا ہے۔ ’ ارطغرل غازی ‘ ڈرامہ میں بھی جب کوئی جنگ کی تربیت حاصل کرنے جاتا تھا ، اسی طرح جوش و خروش دیکھنے کو ملتا تھا۔ ترکوں نے اپنی صدیوں پرانی روایات کو مدھم نہیں پڑنے دیا۔
رات دس بجے سب ایک دوسرے سے رخصت ہوگئے۔ اگلی صبح ’ فاتح ‘ چھ ماہ کی فوجی تربیت کے لئے قونیہ شہر میں پہنچ گیا ۔ ہمیں پتہ چلا کہ اس فوجی ٹریننگ کا مقصد بہترین نظم و نسق سکھانے اور جدید ہتھیار چلانے کی بنیادی مہارت فراہم کرنا ہے ۔ نوجوانوں کی یہ ریزرو فورس کسی بھی وقت کام میں لائی جا سکتی ہے ۔
دنیا کے بیشتر معاشروں میں اپنے نوجوانوں کی فوجی تربیت کا اہتمام ہوتا ہے ۔ کوئی وقت تھا جب پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ’ این سی سی ‘ کے نام سے ہلکی پھلکی ایک مشق ہوا کرتی تھی لیکن افسوس ! وہ بھی ختم کردی گئی۔
٭ انقرہ میں صفائی کا نظام
چند دنوں بعد انقرہ میں طوفانی بارشوں کا ہائی الرٹ جاری ہوا ۔ میں نے مارکیٹ سے واپسی پر دیکھا کہ بلدیہ کے ورکرز نکاسی آب کی زیر زمین لائنوں کو چیک کرنے اور ان کی صفائی میں مصروف ہیں ۔ یہ صرف ایک دن کا ہلکا سا محسوس ہونے والا کام تھا ۔ اصل کام جس سے میں متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکی، یہ تھا کہ خوبصورت نوجوان ہاتھوں میں کچرے کا لمبا برش لئے سڑکوں کے اطراف میں درختوں سے گرے ہوئے پتے تک صاف کررہے ہیں ۔ مجال ہے جو کہیں کسی سڑک ،کسی گلی کسی گھر کے آگے کوئی معمولی سا بھی کچرا نظر آجائے۔
کوڑے دان بھی صاف تھے ، شہری ازخود ان کے اندر کچرا ڈالتے ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ سڑک پر ہوا سے اڑتے شاپروں کو ایک خاتون نے اٹھایا اور کوڑے دان میں پھینکا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ انقرہ شہر میں اس قدر زیادہ صفائی کیوں ہے۔ انھیں بخوبی سمجھ ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔
اگلے چند روز میں ہونے والی طوفانی بارشوں نے شہر دھودیا ۔ کہیں بھی پانی کھڑا نظر نہ آیا ۔ یہ ہوتی ہے اچھی حکمرانی جو عوام کی بنیادی حقوق کا خیال رکھتی ہے ۔ اس میں ہمارے معاشرے بالخصوص اس کے حکمرانوں کے لئے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ ( جاری ہے )