شبانہ ایاز
۔ ترکی کے شہر استنبول کے علاقہ کارا کوئے ( karakoy) میں پہنچیں تو سمندر کے بالکل بائیں جانب ٹرام سے اتر کر تھوڑا سا آگے چلیں تو سیڑھیاں اتر کر ایک جانب بازار ہے اور دوسری جانب گلی میں مکانات کے درمیان زیر زمین مسجد یرالٹی جامعی yerality jamii کے نام سے موجود ہے۔
ترک زبان میں ” یرالٹی ” زیر زمین جگہ ، جب کہ ” جامعی ” مسجد کو کہتے ہیں ۔ یہاں پر فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص اور دو دیگر جلیل القدر اصحاب رسول حضرت وہب بن حصیری رضوان اللہ علیہم اجمعین اور حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی بھی قبریں مبارک موجود ہیں ۔
استنبول میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار ” سلطان ایوب ” کے نام سے مشہور ہے ۔ ان کے مزار سے نکل کر سڑک کی طرف آئیں تو مزار کی گلی کے بالکل سامنے گلی میں کچھ دور پیدل چل کر الٹے ہاتھ پر حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک ہے ۔
رہائشی مکانوں کے درمیان میں ، احاطہ کے اندر ان کی اکیلی قبر ہے ۔ جب حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار پر آپ قبروں کا نقشہ چیک کریں گے تو ان کی قبر نمبر 29 ہوگی ۔
مگر ان تینوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ایک تابعی کو یہاں کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی گوگل پر ان کی لوکیشن موجود ہے ۔
یرالٹی جامعی لکھیں تو وہ ھے گوگل میپ ہے ۔ yeralti jamii گوگل پہ لکھیں تو پھر ملے گی لوکیشن ۔۔۔
یہ ایڈریس ہے وہاں کا۔
Kemankeş Karamustafa Paşa, Kemankeş Cd. No:23, 34425 Beyoğlu/İstanbul
میں نے دو دن کی تگ ودو کے بعد پہلے پیدل ، پھر بس اور پھر ٹرین ( ٹرام ) پر سفر کرکے بالآخر اپنے بیٹے کعب بن ایاز کی مدد سے( جو ترک زبان جانتا ہے ) ان عظیم ہستیوں کی قبور مبارک پر حاضری کی سعادت حاصل کی ۔ ہم نے دولما باغچہ محل کی شاہی مسجد کے گارڈ و دیگر ٹریفک پولیس وغیرہ سے بھی لوکیشن پوچھی مگر کسی کو بھی حضرت عمرو بن العاص کی قبر مبارک کا پتہ نہیں تھا ۔ خیر جب لگن سچی ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق قسطنطنیہ ( استنبول ) کو فتح کرنے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو فوج 672ء عیسوی میں بھجوائی تھی ، یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس فوج کے ساتھ تشریف لائے تھے ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو بیماری کے باعث فوت ہوئے جنھیں فصیل شہر کے باہر دشمن فوجوں سے چھپا کر دفنایا گیا۔ ان تینوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی زیر زمین چھپا کر دفنایا گیا تھا ، تاکہ دشمن کی فوجیں جسم مبارک کی بے حرمتی نہ کریں ۔
یہ جنگ 672ء سے 677ء تک جاری رہی مگر حضرت امیر معاویہ کی فوج قسطنطنیہ فتح نہ کرسکی ۔1453 عیسوی میں سلطان محمد فاتح نے اللہ تعالیٰ کی مدد اور بہترین جنگی حکمت عملی سے قسطنطنیہ ( استنبول ) فتح کیا۔
سلطان محمد فاتح نے اپنے روحانی استاد آق شمس الدین سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک کے بارے میں معلومات چاہیں ۔ ان تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قسطنطنیہ میں تدفین کا سلطان محمد فاتح کو بھی علم نہیں تھا ۔ اق شمس الدین نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی تو خواب میں انہیں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک دکھائی گئی جس سے آسمان تک نور نکل رہا تھا۔
جب اق شمس الدین کی بتائی گئی جگہ کی کھدائی کی گئی تو دو ہاتھ نیچے سے قبر مبارک برآمد ہوئی جس پر عبرانی زبان میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی لکھا ہوا تھا ۔
1639ء میں حضرت عمرو بن العاص ایک دمشق کے بزرگ کے خواب میں تشریف لائے اور اپنی قبروں کی نشان دہی فرمائی ۔
اس وقت کے عثمانی سلطان مراد چہارم کو جاکر اس بزرگ نے اپنا خواب بتایا ۔ کھدائی ہوئی تو قبریں مبارک برآمد ہوئیں جنھیں بہتر انداز میں دوبارہ بنانے کے لیے سلطان مراد چہارم نے احکامات صادر کیے ۔ ابھی تعمیر نامکمل تھی کہ سلطان مراد چہارم کی وفات ہوگئی اور معاملہ زیرِ التوا چلا گیا ۔ پھر عثمانی سلطان محمود اول نے 1754 میں اس مسجد کی تعمیر مکمل کروائی ۔