فرح مصباح
ایسا لگے کہ روح بدن سے گزر گئی
مسجد الحرام ہو یا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم صرف عبادت یا ریاضت کی جگہ نہیں، بلکہ وہاں پر تاریخِ اسلام ہے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی یادیں ہیں ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت ہے، صحابہ کرام کی زندگیاں اور بھائی چارگی ہے، اہلِ بیت پر مصائب کی داستانیں ہیں ، غزوات کی گھن گرج ہے، تفقّہ فی الدین والحدیث کے داعیوں کی مبارک زندگیاں ہیں ، روحانی سکون ہے، اور بھی کئی ایسی نعمتیں ہیں جو ہمیں یہیں حاصل ہوتی ہیں۔ بالخصوص امتِ مسلمہ کا یکجا ہونا بہت لطف دیتا ہے، اور تمام رنگ و نسل کے لوگ صرف اسلام کی بنیاد پر، اللہ واحد کی محبت میں ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ اس طرح سے عصبیت ، لسانیت ، قومیت اور وطنیت کے پُر فریب اور کھوکھلے نعرے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
چونکہ ہمیں حاضری کا شرف ماہ رمضان المبارک میں ملا تھا، تو جو فیضِ رحمت اور احساسِ بندگی نصیب ہوئی وہ کچھ الگ ہی تھی۔ میرا تو کیا ، جس ماہر مصنف اور لکھاری کا قلم چاہے اس بارے میں جتنا بھی لکھ لے، یہ احساسات اور برکتیں صرف وہاں پر رمضان المبارک میں حاضری دینے والا ہی محسوس کر سکتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص رمضان المبارک میں کچھ دن بھی ادھر گزار آئے تو پھر مشکل ہے کہ اس کا دل اپنے ملک میں لگے ۔ تقریباً ہر مسلمان کو حاضری کی طلب ہوتی ہے۔ لہٰذا اپنی دعاؤں میں یہ دعا لازمی شامل رکھیں تا کہ اللہ تعالی ہمیں مقبول حاضری نصیب فرمائے ۔ لیکن وہاں سے آنے کے بعد اشتیاق اتنا بڑھتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ ہمارا آنا جانا اُدھر لگا رہے۔ کاش کہ ہم بھی مدینۃ الرسول کے باسی بن جائیں۔ زندگی میں یا زندگی کے بعد ہم وہاں کے مکین بن جائیں۔
جب ہم حج یا عمرے کے لیے جاتے ہیں تو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی حاضری دیتے ہیں۔ یقیناً یہ زندگی کے بہترین ایام اور بہترین لمحات ہوتے ہیں جو آپ کو اپنی زندگی میں میسر آتے ہیں۔ چونکہ کرونا کے بعد بہت ساری چیزوں میں تبدیلی آگئی ہیں۔ اب ترتیب یہ ہے کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کے لیے ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کرنی پڑتی تھی جس کے ذریعے آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کس وقت حاضری دے سکتے ہیں .
ابھی میں نے ایپ ڈاؤن لوڈ نہیں کی تھی۔ کچھ خواتین سے حاضری کے متعلق معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ فجر سے پہلے آجائیں کیونکہ فجر کے بعد رش کی وجہ سے دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔
میں تہجد کی نماز کے بعد حاضری کے لیے روانہ ہوئی۔ دل خوشی سے سرشار بھی تھا روح ندامت کی وجہ سے شرمندہ بھی۔ ہم بھی قطار میں لگ گئے ۔کافی وقت گزرنے کے بعد وقفے وقفے سے آگے بڑھایا جاتا اور بالآخر ہم روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے۔
ویسے تو پہلے بھی وہاں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی تھی لیکن اس دفعہ خوشی اس لیے زیادہ تھی کہ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری ہوئی تو ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سپاہی کے طور پر ہوئی۔
یہ یقین میرے لیے ایک بہت بڑی سعادت تھی۔ اور اس وجہ سے میں زیادہ خوش بھی تھی۔ جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کے لیے میں قطار میں لگی ہوئی تھی تو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھے بیٹھے کچھ اشعار قرطاس کی نذر کیے:
نور ہی نور ہے صبح ہے یا شام ہے
کیسی سہانی رحمت والی نورانی رات ہے
گورے کالے عربی عجمی سب جمع ہیں یہاں
امتی ہیں سب نبی کے، ذات ہے نہ پات ہے
دنیا گھومی ہے مگر رونق ایسی ہے کہاں
یہ مسجد نبوی ہے، خاص اس کی بات ہے
اللہ اکبر کی صدائیں بھی خوب آتی ہیں یہاں
لب پر آنے سے پہلے پوری ہوتی حاجات ہیں۔
پیارا ہے ہر ایک نظارہ گنبد و مینار ہے
آپ کی مدحت میں لکھی یہ نعت ہے
روضئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ حاضری دی، رش کی وجہ سے بہت کم لمحات میسر آئے، لیکن اس بات کی بڑی خوشی محسوس ہو رہی تھی کہ اس دفعہ ختم نبوت اکیڈمی لندن کی ممبر ہونے کے ناتے آپ کی سپاہی بن کر کھڑی تھی۔ اس وقت سب ختم نبوت اکیڈمی کے ممبران کی جانب سے بھی سلام پیش کیا، بالخصوص مولانا سہیل باوا صاحب کی طرف سے، کیونکہ ان کی اور ان کے والد کی خدمات اس شعبے میں نمایاں اور قابلِ ذکر ہیں اور ان تمام لوگوں کی جانب سے بھی سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے آپ کی خدمت میں سلام پیش کرنے کے لیے کہا ۔
جب میں حاضری کے لیے پہنچی تو داخلہ کسی اور دروازے سے اور باہر کسی اور دروازے سے نکالا گیا۔ اس وقت یہ خیال نہ آیا کہ کسی اور دروازے پر پہنچنا ہے اپنی چپل باہر تلاش کرتی رہی، نہیں ملی تو ننگے پاؤں ہی باہر آ گئی۔ جب بیرونی دروازے پر پہنچی تو یہ شعر گوشہ خیال میں آگیا:
"ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے
اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے "
بس یہ خیال سے زبان پر آتے ہی قبول بھی ہو گئے کیونکہ دروازے ایک طرح کے محسوس ہوتے ہیں۔ لہٰذا اندازہ نہ ہوا کہ میں غلط سمت میں جا رہی ہوں۔ کچھ دیر چلنے کے بعد محسوس ہوا کہ یہ تو میرے ہوٹل کا راستہ نہیں۔ میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو گئی تھی۔ ایک دکان سے چپل خریدی، چونکہ دکانوں میں اردو بولنے والے کم تھے تو کسی سے مدد بھی نہ لے پائی۔
چلتے چلتے راستے میں ایک بنگالی بھائی نے ٹیکسی روکی۔ شاید انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ میں پریشانی کے عالم میں اپنا ہوٹل تلاش کر رہی ہوں۔ انہوں نے پوچھا تو میں نے اپنے ہوٹل کا نام بتایا۔ انہوں نے میری مدد کی اور بتایا کہ آپ اس نمبر کے دروازے سے نکل کر سیدھی چلی جائیں تو آپ کا ہوٹل آ جائے گا۔ لہٰذا روزے کی حالت میں چلتے چلتے گھومتے پھرتے مدینے کی گلیوں سے واپس مسجد نبوی میں داخل ہوئی اور پھر صحیح سمت والے دروازے پر پہنچ کر نکلی اور اپنے ہوٹل کی راہ لی۔
اس پورے واقعے میں مجھے برکت اور رحمت کے معاملات بھی سمجھ آئے۔ روزے کی حالت میں تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ چلنے کے باوجود مجھے پیاس محسوس نہ ہوئی۔ سخت گرمی میں پسینہ سے شرابور ہونے کے باوجود مجھے کوئی خاص مشکل محسوس نہ ہوئی۔ یہ مدینے اور مسجدِ نبوی میں ہونے کی وجہ سے تھا، ورنہ عام دنوں میں تو میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی کہ میں اتنا چلوں۔ میں خود حیران تھی لیکن جانتی تھی کہ مدینة النبی میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہوں، آقا کی مہمان ہوں۔
اس واقعے کے بعد میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چاہت میں اور اضافہ ہوگیا۔ آپ سے دور نہ جانا چاہتی تھی لیکن مجبور تھی، جانتی تھی کہ کچھ دنوں میں واپس جانا پڑے گا۔
اس بار سمجھ میں آیا کہ کیوں لوگ تڑپتے ہیں وہاں کے رہائشی بننے کے لئے یہ جو لوگ خوش ہوتے ہیں کہ مکے مدینے کے قریب ہی رہائش ملے تاکہ باآسانی وہاں آنا جانا لگا رہے تو میں نے بھی دعا مانگی کہ اگر زندگی میں نہ سہی تو بعد زندگی ضرور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جگہ مل جائے تا کہ آخری سفر اور آخری گھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے بھرپور ہو۔
جس روز مدینہ سے مکے کے لیے روانہ ہونا تھا ہم نے اس سے پچھلی رات ہی رختِ سفر باندھا۔ سحری کے بعد اپنی ساس کو لے کر حاضری کے لیے روانہ ہوئی، تقریبا ساڑھے تین بجے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر پہنچے، تہجد کی نماز ادا کی اور فجر کا انتظار کرنے لگے بعد نماز فجر ویل چیئر والی لائن میں لگے رہے۔
اچانک آنکھ لگ گئی اور تھوڑی دیر بعد آنکھ کھلی تو دیکھتی ہوں کہ اوپر محراب ہے، مسجد نبوی کے فانوس لٹکے ہوئے ہیں۔ اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا لیکن یہ واقعی کوئی خواب نہ تھا بلکہ سچ مچ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نظارے تھے۔ تقریبا صبح آٹھ بجے حاضری کی سعادت حاصل ہوئی اور بالآخر الوداعی سلام دیا اور واپس اپنے ہوٹل کی طرف پہنچے۔ آج عمرے کے لیے نکلنا تھا سب نے احرام پہنا اور عمرے کے لیے روانہ ہوئے ۔
دل جدائی کے صدمے سے دکھی تھا اور خوش بھی کہ کچھ دن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں گزارنے کا موقع ملا ۔
بس وہی کیفیت تھی کہ ۔۔۔۔۔۔۔
بقول شاعر
طیبہ سے لوٹنا کسی عاشق سے پوچھیے
ایسا لگے کہ روح بدن سے گزر گئی۔