دعا زہرہ

دعا زہرہ اور ظہیر، ایک جلتا سلگتا مسئلہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ربیعہ فاطمہ بخاری

دعا زہرہ اور ظہیر، ایک جلتا سلگتا مسئلہ، جس پہ دل کی کہوں تو آج تک کچھ بھی لکھنے کی ہمّت ہی نہیں ہوئی کہ میں خود تین کمسن بیٹیوں کی ماں ہوں ۔ کچھ زمانے کی بے باک چال سے دل بےطرح ڈرا رہتا ہے تو کچھ خوفِ خدا سے دِل لرزتا ہے کہ خدانخواستہ انجانے میں کوئی غلط کلمہ سرزد نہ ہو جائے، جو مجھے اپنے آپ سے ہی شرمندہ کر دے۔

میں چونکہ ایک ماں ہوں اور خاص طور پہ بیٹیوں کی ماں تو مجھے تو بیٹیوں کو کسی مسلک ، کسی مذہب یا کسی معاشرت کی آنکھ سے دیکھنے والوں پہ سخت حیرت ہوتی ہے . میرے نزدیک تو بیٹی محض بیٹی ہوتی ہے اور ماں صرف ماں ، چاہے اُس کا تعلّق کسی مذہب ، کسی مسلک اور کسی معاشرت سے ہو ۔ لیکن عملاً اس کیس میں ایسا ہی ہوتا دیکھا گیا ہے۔

جب سے قلم سے ناتا قائم ہوا ہے، زمانے کی بدلتی چال ، نوجوانوں کے بدلتے رویّے ، میڈیا اور سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے کی سرپٹ چال کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ، یہی رونا روتی رہی کہ خدارا مین سٹریم میڈیا کو بالعموم اور ڈرامہ اور ایڈورٹائزنگ انڈسٹری کو بالخصوص لگامیں ڈالی جائیں۔

سارا دن، چوبیس گھنٹے، بیسیوں ڈرامہ سیریلز ہمہ وقت نشر ہوتے رہتے ہیں اور بلامبالغہ ننانوے فیصد ڈراموں میں محض عشق، محبّت، والدین کی نافرمانی ، جوان بیٹے بیٹیوں کی منہ زوریاں ، سالی کے بہنوئی پہ ڈورے ، پھوپھا کا بھتیجی سے عشق ، کالج کی کلاسز بنک کر کے ہوٹلنگ ، مائوں کے سامنے “محبوب” کیلئے سینہ تان کے کھڑی بیٹی ، یونیورسٹیز میں چلتے معاشقے، راتوں کو دیر دیر سے آئوٹنگز اور ہینگ آئوٹس سے واپس آتی نوجوان بچیاں ۔۔۔ کیا اِس سب کے علاوہ کوئی بھی موضوع ہے ہماری ڈرامہ انڈسٹری میں ؟؟

اشتہارات دیکھ لیں، “لمبی رات، فری بات”، “Love at first byte”، “اپنی شادی سے بھاگنا ہو تو کاریم منگوائیں”، ایک دلہن کی تصویر کے ساتھ اشتہار کا اس نوع کا کیپشن ، ناچتی تھرکتی نوجوان لڑکیاں اور اُنہیں ایک آئس کریم کے ذریعے ” پٹاتے” لڑکے، صابن اور شیمپو کے اشتہارات سے لے کے ہر پروڈکٹ کی تشہیر کیلئے نیم عریاں ماڈلز یعنی چوبیس گھنٹے نوجوان بچّے بچیوں کے نوخیز جذبات انگیخت کرتا مواد ہماری سکرینز پہ موجود رہتا ہے ۔

شاید دو تین سال پہلے بھی یہی لکھّا تھا کہ اِس بےحیائی کے سیلاب پہ بند نہ باندھا تو نہ کسی محمّد یوسف کی بیٹی محفوظ رپے گی اور نہ مشتاق مسیح کی۔

یہ سلسلہ صرف مین سٹریم میڈیا پہ ہی نہیں جاری بلکہ سوشل میڈیا نے اِس آگ کے بھڑکانے میں برابر کا کردار ادا کیا۔ خاص طور پہ ہمارے وہ لبرل دوست جو آج اس نوجوان جوڑے کی بے وقت شادی پہ تنقید کر رہے ہیں ، کوئی لڑکے کی شکل پہ طنز فرما رہا ہے اور کوئی دعا کے والدین کی مظلومیّت کا رونا رو رہا ہے . یہی لوگ تھے جو ہمیشہ والدین کو غلط کہا کرتے تھے ، اور مجھ ایسے بار بار لکھا کرتے تھے جو والدین بیٹی کی پیدائش سے لے کے کالج یونیورسٹی تک لاکھوں روپے بیٹی کی پرورش اور تربیّت پہ لگا چھوڑتے ہیں، بیٹی کے ماتھے کی شکن گوارا نہیں کر سکتے، یہ کیوں فرض کر لیا جاتا ہے کہ وہ شادی کے وقت ضرور ہی بیٹی کو اپنے ہاتھوں جہنّم میں جھونک دیں گے؟؟

لیکن یہ سب باتیں اب ہمارے نوجوانوں کے خون میں رچ بس گئی ہیں۔ اب صرف اپنی اپنی دعا اور اپنے اپنے ظہیر کی عافیّت کی دعا کریں کہ یہ سب معاملات جوں کے توں نہ صرف موجود ہیں بلکہ اِن سب عناصر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

پھر سے یہی کہوں گی کہ اِس روز بروز رو بہ زوال معاشرے، شدّت پسند ملّا، بےسمت و بے جہت لبرلز اور بےلگام میڈیا سے اپنے بچّوں کیلئے کسی قسم کی دردمندی کی توقّع ہرگز نہ رکھّیں۔ بس مائیں اپنے بچّوں کا سایہ بن جائیں، اُن کی زندگیوں کا ایک Part n parcel بن جائیں اور خاص طور پہ گیجٹس کے استعمال پہ کڑی نظر رکھّیں۔

اور ربِّ کائنات سے اپنی اولاد کی خیر، عافیّت، ایمان اور صراطِ مستقیم پہ چلنے کے ساتھ، دورِ حاضرکے فتنوں سے بچّنے کیلئے دن رات دعائیں کرتے رہا کیجئیے کہ ہمارے اختیار میں صرف یہی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں