ام محمد عبداللہ
پہلے یہ پڑھیے :
امی جان کی رمضان ڈائری ( پہلا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( دوسرا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( تیسرا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( چوتھا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( پانچواں ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( چھٹا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( ساتواں ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( آٹھواں ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( نواں ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( دسواں ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( گیارھواں ورق )
”رمضان المبارک قیام کا مہینہ ہے۔ نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں قیام کیا اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے گئے ۔“
صہیب دلچسپی سے امی جان کی رمضان ڈائری پڑھ رہا تھا کہ سعد نے اس کے سامنے ہاتھ لہراتے ہوئے کہا ”پروفیسر صاحب ہوم ورک بھی کر لیں ورنہ کل سکول میں ڈانٹ پڑے گی۔“
”افف میرا بہت سا ہوم ورک رہتا ہے۔“ صہیب نے جلدی سے ڈائری بند کی اور اپنا ہوم ورک کرنے میں مصروف ہو گیا۔
”صہیب! سعد! دادا ابو اور ابو تراویح کے لیے جا رہے ہیں۔ آپ بھی ان کے ساتھ چلے جائیں ۔“ امی جان بچوں کو بلا رہی تھیں۔ ”جی امی جان ۔“ سعد تو اٹھ کر تراویح کے لیے چلا گیا جب کہ صہیب کو ہوم ورک کی فکر تھی۔ ”اچھا یہ تھوڑا سا کام رہ گیا ہے مکمل کر کے جاتا ہوں۔“ اس نے سوچا۔
تھوڑی دیر بعد جب امی جان کمرے میں داخل ہوئیں تو اسے کام کرتا دیکھ کر کہنے لگیں۔ تم دادا ابو کے ساتھ مسجد بھی نہیں گئے اب گھر پر ہی نماز پڑھ لو لیکن اچھی سی نماز پڑھنا ایسی نہیں جیسے مغرب کی جلدی جلدی پڑھ لی۔ امی جان صہیب کو سمجھا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئیں ۔
”ہممم تھک گیا۔“ صہیب نے کاپی بند کر کے انگڑائی لی۔ بس ذرا سی گیم کھیل لوں پھر پڑھتا ہوں نماز۔ وہ کمپیوٹر کے سامنے آن بیٹھا۔ ”صہیب تم ابھی تک یہاں بیٹھے ہو؟ نماز پڑھو !“ صہیب کو گیم کھیلتے دیکھ کر امی نے اسے ڈانٹا اور ساتھ ہی کمپیوٹر بھی آف کر دیا۔ صہیب کو شدت سے بھوک کا احساس ہونے لگا تھا۔ افطاری میں تو وہ بس شربت ہی پیتا رہا تھا۔ ” امی پہلے کھانا دیں بہت بھوک لگی ہے پھر پڑھتا ہوں نماز۔“ اس نے دہائی دی۔
”اچھا!“
کھانا کھانے کے بعد اسے سخت نیند آنے لگی تھی۔ وہ وہیں برتن ایک طرف کر کے بستر میں گھس گیا۔
”اف! صہیب کھانا کھا کر ایسے ہی نہیں سو جاتے ہاتھ دھو کر کلی کرو بلکہ وضو کر کے نماز پڑھو۔ اسے امی جان کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ وضو اور رمضان المبارک میں قیام کے فضائل کے بارے میں بتا رہی تھیں جو تقریبا روزانہ ہی اسے سمجھاتیں لیکن وہ گہری نیند میں جا چکا تھا۔
چودھویں کا پورا چاند آسمان پر جگمگا رہا تھا۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی کہ صہیب کے کمرے کی کھڑکی ہوا کے جھونکے سے کھل گئی ۔
اوہو کھڑکی بند کرنی چاہیے اس نے کمبل سے منہ نکال کر کھڑکی کی جانب دیکھا۔
پھر بستر چھوڑ کر کھڑکی تک چلا آیا۔ وہ کھڑکی بند کرنا ہی چاہتا تھا کہ اس کی نظر آسمانوں تک جاتی چاندنی رنگ کی سیڑھی پر پڑی جو اس کے کمرے کی کھڑکی سے شروع ہو کر آسمان تک جا رہی تھی اور اس کے اطراف سفید موتیے کے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔
سیڑھی کی ایسی کشش تھی کہ بنا کچھ سوچے اس نے اس پر قدم رکھ دیا۔
یہ کیا سیڑھی کسی لفٹ کی مانند یکدم خود سے چلنے لگی اور لمحوں میں وہ کسی اور ہی جگہ پر موجود تھا۔
ہر طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ ہوا کے جھونکوں کے ساتھ خوشبو بھی ہر جانب پھیلی ہوئی تھی وہ کچھ ہمت کر کے آگے بڑھا تو سامنے اسے کئی شہزادے چلتے پھرتے دکھائی دئیے جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی مانند دمک رہے تھے۔ ان کے لباس نہایت شاندار اور قیمتی تھے۔
اس نے ارد گرد نگاہ دوڑائی ۔ قطار در قطار لگے درختوں کے تنے سونے کی مانند چمک رہے تھے۔ ان پر لگے ہوئے بڑے بڑے پھل خود بخود سونے چاندی کی طشتریوں میں سج کر ان شہزادوں کے حضور پیش ہو رہے تھے۔
وہ دھڑکتے دل کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہا تھا
کہ
وہ شہزادے آپس میں باتیں کرنے لگے۔
”میں جب دنیا میں تھا تو مجھے پتا چلا کہ آپﷺ اپنے صحابہؓ کو قیامِ رمضان المبارک کی ترغیب دیتے تھے۔
بس پھر کیا تھا۔ میں نے اپنی دنیا کی زندگی میں نماز کو عام دنوں میں بھی اور رمضان المبارک میں قیام اللیل کو ہمیشہ اہمیت دی۔ میں جیسے ہی اذان کی آواز سنتا اذان کا جواب دیتا۔ اذان کے بعد درود شریف اور مسنون دعاٸیں پڑھتا
پھر
بسم اللہ پڑھ کر پوری توجہ سے وضو کرتا کہ میرا کوٸی عضو خشک نہ رہ جائے ۔ میں جانتا تھا کہ وضو ہی نماز کی کنجی ہے اور یہ بھی کہ اچھی طرح وضو کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
پھر وضو کر کے میں دوسرا کلمہ
کلمہ شہادت پڑھنا کبھی نہ بھولتا
أشْهَدُ أنْ لا إله إِلًَا اللہ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
کیونکہ میں جانتا تھا ایسا کرنے سے جنت کے آٹھوں دروازے میرے لیے کھل رہے ہیں۔ وہ مسکرایا۔
تو یہ جنت ہے؟ صہیب نے حیرانی سے سوچا؟
پھر میں مسجد جا کر پوری توجہ اور دلچسپی سے نماز پڑھتا۔ رکوع اور سجدے اطمینان سے ادا کرتا کبھی جلدی نہ مچاتا۔
میں نے نماز کا ترجمہ بھی یاد کر لیا تھا میں نماز کے دوران اس ترجمے پر بھی اپنا دھیان دیتا یوں میرا دل نماز میں خوب لگنے لگا تھا۔
میں اور ابا مسجد میں ہمیشہ پہلی صف میں نماز پڑھتے امی اور میری بہنیں بھی ہمیشہ اول وقت پر شوق سے نماز ادا کرتیں۔
نماز کے ساتھ محبت پر ہمیں یہ صلہ ملا کہ اللہ پاک نے اپنی رحمت سے ہمیں جنت کی اس حسین دنیا میں ہمیشہ کے لیے بسا دیا ہے۔
سب ساتھی شہزادے یہ سن کر اللہ پاک کی حمد و ثنا کرنے لگے تھے۔
” اور جو نماز نہیں پڑھتے تھے؟ صہیب نے سوچا
تو یکایک اسے کچھ چیخیں سنائی دیں کچھ لوگ کہہ رہے تھے
ہم نمازی نہ تھے ۔ اس نے اپنے قدموں تلے جھانک کر دیکھا آگ کا دہکتا الاؤ تھا جس میں جلتے ہوئے لوگ کہہ رہے تھے ہم نمازی نہ تھے۔
نہیں نہیں میں تو نماز پڑھتا ہوں وہ تو آج ویسے
صہیب بے ربط سا کہنے لگا تھا
کیا ہوا صہیب کیا ہوا بیٹا امی جان کا مہربان چہرہ اس پر جھکا ہوا تھا۔
خواب دیکھا کوئی! ۔
صہیب نے آنکھیں مل کر ادھر ادھر دیکھا
وہ چاندنی رنگ کی سیڑھی
وہ سرسبز و شاداب جگمگاتی ہوئی دنیا
وہ خوشبوئیں
وہ پھل
وہ شہزادے
اور
یہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔
امی جان؟ اس نے سوالیہ نظروں سے امی جان کی جانب دیکھا۔
جی بیٹا ! آپ عشاء اور تراویح پڑھے بغیر سو گئے تھے اب اٹھ گئے ہیں تو وضو کر کے نماز پڑھ لیں۔۔
عشاء اور تراویح
وہ یکدم بستر سے اٹھ گیا
پتا ہے امی جان مجھے بہترین وضو کر کے اطمینان اور سکون سے کیے گئے سجدوں اور رکوع کے ساتھ رمضان میں دھیان سے قیام کرنا ہے
تاکہ اللہ پاک اپنے کرم سے مجھے جنت کا شہزادہ بنا دیں۔ وہ ہنسا تو امی جان نے مسکراتے ہوٸے آمین کہا۔