ام محمد عبداللہ
پہلے یہ پڑھیے :
امی جان کی رمضان ڈائری ( پہلا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( دوسرا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( تیسرا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( چوتھا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( پانچواں ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( چھٹا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( ساتواں ورق )
”چلنے میں کیا رکھا ہے؟ چلنا تو فضول کام ہے۔ چل چل کے بندہ تھک ہی جاتا ہے۔ لیٹے رہنا اچھی بات ہے۔ بندہ تھکتا بھی نہیں۔ کہانیاں بھی پڑھ لیتا ہے۔ سو بھی جاتا ہے۔“ صہیب نے اپنے سے چھوٹے چچا زاد علی کو اپنے کھلونے دیتے ہوئے کہا۔ علی کھلونے لے کر مسکرانے لگا تھا۔ اس کی چچی جان لمحہ پہلے امی جان کو رو رو کر علی کی بیماری کی کئی بار بتائی گئی تفصیل دہرا رہی تھیں کہ اس کی ہڈیاں کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ کسی انفیکشن کا بھی شکار ہیں اور اب وہ عمر بھر چل نہیں سکے گا۔
کچھ دن پہلے چچا چچی گاؤں سے علی کے علاج کے لیے ان کے پاس آئے تھے۔ چچی جان دن بھر روتی رہتیں اور ڈاکٹروں کی بتائی بات دہراتی رہتیں کہ علی اب کبھی نہیں چل پائے گا۔ علی کی تکلیف اور چچی جان کے رونے سے صہیب بہت اداس رہنے لگا تھا۔
”صہیب میں نے اپنی سکول کی کاپیوں پر کور چڑھا لیے ہیں تم بھی اپنی کاپیوں پر کور چڑھاؤ ۔“ صہیب کو گم صم بیٹھے دیکھ کر سعد بھاٸی نے پلاسٹک کور اور براؤن پیپر شیٹس اسے دیتے ہوئے کہا ۔ صہیب خاموشی سے شیٹس لے کر کاپیاں کور کرنے لگا۔ اس کی سب کاپیاں کور ہو چکی تھیں مگر پھر بھی ایک شیٹ بچ گئی ۔
”اِس کا کیا کروں؟ ہاں آٸیڈیا۔ امی جان کی ڈائری کور کر دیتا ہوں۔“ صہیب امی جان کی ڈائری کور کرنے کے بعد اس میں لکھی جانے والی باتیں پڑھنے لگا۔ ”اس کا مطلب ہے علی چل سکتا ہے۔“ صہیب خوشی اور اطمینان سے مسکرایا۔
صہیب کی بات سن کر علی بہت خوش ہوا تھا۔ ”میں پھر سے چل سکوں گا ناں صہیب بھائی! آپ سچ کہہ رہے ہیں ناں؟ علی نے ایک بار پھر یقین دہانی چاہی۔ ”جی جی بالکل آپ چلنے تو کیا دوڑنے لگیں گے۔“صہیب نے پرجوش ہو کر کہا۔
”امی جی امی جی صہیب بھائی کہتے ہیں میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔“ علی نے خوش ہو کر اپنی امی سے کہا۔ ”جی چچی جان یہ ماہ رمضان ہے۔ یہ دعا کا مہینہ ہے۔ حدیث رسولﷺ کے مطابق ماہ رمضان کے ہر دن اور رات میں ہر مسلمان کے لیے ایک ایسی دعا ہے جسے قبولیت سے نوازا جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہ بلاشبہ روزہ دار کے لیے افطاری کے وقت ایک ایسی دعا ہے جسے رد نہیں کیا جاتا اور یہ حدیث بھی کہ روزہ دار کی دعا قبول ہوتی ہے۔
اسی لیے تو میں روزہ رکھ کر علی کے صحت یاب ہونے کی دعا کر رہا ہوں۔ دن بھر، سحری کھانے سے پہلے ، اذان اور نماز کے بعد اور افطار کے وقت بھی۔ علی ٹھیک ہو جائے گا۔“ صہیب کے لہجے میں یقین ہی یقین تھا۔
”لیکن وہ ڈاکٹر تو کہتے ہیں۔۔۔۔۔ “ چچی جان کچھ کہنا چاہ رہی تھیں لیکن دادی جان نے انہیں ٹوک دیا۔
”لیکن ویکن کچھ نہیں بہو، تم علاج کے ساتھ ساتھ اللہ پاک پر پورا بھروسہ رکھتے ہوئے رمضان المبارک کی ان باسعادت گھڑیوں کو غنیمت جانو۔ ان میں رو رو کر اللہ پاک سے علی کی صحت کی دعا کرو۔ وہ سننے اور قبول کرنے والا ہے۔ جب اللہ پاک نے کہہ دیا کہ مجھ سے مانگو میں دوں گا اور اللہ کے رسول برحق حضرت مُحَمَّد ﷺ نے بتا دیا کہ روزے دار کی دعا رد نہیں ہوتی تو ڈاکٹر کی بات کہاں اہم رہ گئی ۔ بس تم یقین اور اخلاص سے دعا مانگو۔ ہم سب بھی دعا گو ہیں۔“
”جی جی دادی جان یہی تو میری امی جان نے اپنی رمضان ڈائری میں بھی لکھا ہے کہ ہم سب رمضان المبارک کے ان بابرکت دن اور رات میں اللہ تعالی سے بار بار علی کی صحت کے لیے دعا کریں گے۔ اللہ پاک ہماری دعائیں قبول فرمائیں گے اور علی بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا۔“
صہیب نے چہکتے ہوئے کہا تو امی جان کے ساتھ ساتھ سب ہی یقین سے مسکرا دئیے ۔( جاری ہے )
========