نماز تراویح ، قیام اللیل اور خواتین

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

نماز تراویح سنت مؤکدہ ہے۔ رمضان کی راتوں میں یہی قیام اللیل ہے اور اس کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے۔
بلا عذر تراویح چھوڑنا نیکیوں سے محرومی، اور نبی اکرم ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا باعث ہوگا۔ البتہ کبھی کسی عذر کی وجہ سے چھوڑ دیں تو گناہ نہیں۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِيْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ۔ (صحیح بخاری)
ترجمہ: “جس نے اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہوئے رمضان کی راتوں کا قیام محض ثواب سمجھ کر کیا، اس کے پہلے سب گناہ بخش دیے گئے۔”
اس مہینے میں ہر نیکی کا اجر و ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس لیے نماز تراویح ضرور پڑھنی چاہئیں۔

نماز تراویح اور روزہ الگ الگ عبادات ہیں

اگر کوئی رات کو نماز تراویح نہ پڑھ سکے تو اگلے دن روزہ رکھنا ضروری ہے۔
اگر روزہ رکھنا ہو اور نماز تراویح کی ادائیگی نہ کی جاسکے تو کوئی مسئلہ نہیں ۔اس سے روزے پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
کیونکہ روزہ فرض عبادت ہے اور نماز تراویح نفل عبادت ہے ۔
دونوں عبادات علیحدہ علیحدہ ہیں اور دونوں کی ادائیگی بھی علیحدہ ہوتی ہے۔ اور دونوں کا ثواب بھی الگ الگ ہے۔ اگر شرعی عذر کی بنا پر ایک عبادت رہ گئی تو دوسری پر اس کا فرق نہیں پڑتا ۔ دوسری عبادت کی ادائیگی بشرط صحت لازمی ہوتی ہے ۔

قیام اللیل میں طویل قرات کرنا یا ویسے صرف قرآن مجید کی تلاوت کرنا بھی مستحب ہے

حافظ ابنِ رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
“نبی اکرم ﷺ اور جبریل علیہ السلام آپس میں قرآن مجید کا دور رات کے وقت کیا کرتے تھے۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان کی راتوں میں بہت زیادہ تلاوت کرنا مستحب ہے۔”
(لطائف المعارف : 315)

اس کے علاوہ ان راتوں میں طویل قیام اللیل میں قرآن مجید کی زیادہ تلاوت بھی ثواب کے حصول کا ذریعہ ہے۔

خواتین کے لیے نماز تراویح کی ادائیگی کا حکم

نماز تراویح کا حکم مرد و زن دونوں سے متعلق ہے اور دونوں کے لیے سنت مؤکدہ ہے۔ اگر عورت مکمل قرآن مجید کی حافظہ ہو یا مناسب مقدار میں قرآن کے پارے یا صرف چند سورتیں یاد ہوں، تو وہ گھر میں انفرادی طور پر تراویح کی نماز ادا کر سکتی ہے۔ دوسری صورت میں قرآن مجید سے دیکھ کر بھی پڑھ سکتی ہے جیسے مردوں کو اجازت ہوتی ہے۔

معروف عرب عالم شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر امام ہونے کی صورت میں مرد کو ضرورت محسوس ہو تو قرآن مجید سے دیکھ کر بھی پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح عورت بھی دیکھ کر قرآن مجید کی تلاوت کر سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔”
(فتاوى نور على الدرب : 8/246)

نماز تراویح میں خواتین کی امامت
صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت ام ورقہ اور دیگر صحابیات رضی اللہ عنہن اپنے گھروں میں نماز میں امامت کرواتی تھیں۔
امام حاکم نے حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا کے بارے میں روایت بیان کی ہے کہ
“وہ صف کے درمیان میں کھڑی ہو کر عورتوں کی امامت کرواتی تھیں۔”
(مستدرک حاکم: 731)
اس روایت سے ثابت ہوا کہ گھر میں عورتوں کی باجماعت نماز جائز ہے۔ اس صورت میں امامت کروانے والی خاتون صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔ نماز باجماعت کی ادائیگی سے خواتین میں دینی تربیت، عبادت، ذکر الہی میں رغبت، وقت کی پابندی، اجتماعیت وغیرہ کا شوق پیدا ہوتا ہے۔

اگرچہ خواتین کے لیے گھر میں نماز اداکرنا افضل ہے تاہم ان کے لیے مسجد میں نماز کی ادائیگی جائز ہے کیونکہ دور نبوی میں صحابیات بھی پردہ کی مکمل پابندی کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرتی تھیں۔
تو خواتین اسلام بھی پردہ کی پابندی اور شوہر کی اجازت کے ساتھ مسجد میں نماز باجماعت ادا کرسکتی ہیں۔

اسی طرح خواتین کی گھر میں باجماعت نماز تراویح ادائیگی میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ امامت کروانے والی خاتون عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہو کر قرآن کی تلاوت کرے گی، اور اگر قرآن مجید سے دیکھ کر تلاوت کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
“بہتر تو یہی ہے کہ عورت اپنے گھر میں ہی نماز پڑھے، چاہے نمازِ تراویح کے لیے قریب مسجد میں انتظام بھی ہو۔ چنانچہ اگر عورت گھر میں باجماعت نماز تراویح ادا کر لیتی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اس صورت میں اگر عورت کو قرآن مجید کا تھوڑا حصہ ہی یاد ہو تو اسے قرآن مجید سے دیکھ کر تلاوت کرنے کی اجازت ہے۔” (فتاوى نور على الدرب: 8/246)

شب قدر میں دعائیں صرفِ دنیاوی نہیں بلکہ آخرت کے لیے ہونی چاہییں۔

طاق راتوں میں شب قدر افضل ترین رات ہے۔ اس کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
”من قام ليلة القدر إيمانًا واحتسابًا، غُفِر له ما تقدَّم من ذنبه.“
(صحيح البخاري : 255/4 ، صحيح مسلم : 759)
ترجمہ: “جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ شب قدر کا قیام کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔”
تو اس قیمتی ترین رات میں اللہ تعالیٰ سے صرف دنیا مانگنے کے بجائے دنیا و آخرت کی بھلائیوں اور کامیابیوں کی دعائیں مانگنی چاہیئں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ “یا رسول اللہ ! اگر مجھے شب قدر کا پتا چل جائے تو میں کون سی دعا مانگوں؟” نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کہو : اَللّٰهم إِنَّک عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ۔ (سنن ترمذی)
“اے اللہ! تو بے شک معاف کرنے والا ہے اور تو معاف کرنے کوپسند کرتا ہے۔ پس مجھے بھی معاف فرما دے۔”

اور یہ بات یاد رہے کہ اس سے پہلے اپنے دلوں کی صفائی و پاکیزگی اور دوسروں کو معاف کرنا بھی ضروری ہوتا ہے!!!

                  **********

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں