قانتہ رابعہ
الحمدللہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہے . دن بہت تیزی سے گزر رہے ہیں . نیکیوں کا موسم بہار قریب الاختتام ہے . یہ رب ہی جانتا ہے کہ کس نے نیکیوں کے مہینے میں کتنی کمائی کی . بلاشبہ بد بخت وہ یے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنی مغفرت کی تگ و دو نہ کی.
رمضان سے پہلے رمضان کی منصوبہ بندی مجھے والدین سے گھٹی میں ملی ہے . جوں جوں رمضان قریب آرہا تھا ، میری پریشانی بڑھتی جا رہی تھی کیونکہ جسمانی اور ذہنی طور پر میں بیمار تھی . یہ سوچتے ہوئے میں رو پڑتی تھی کہ رمضان کا مہینہ آئے گا اور میں روزے نہیں رکھ پائوں گی !!.
وجہ پچھلے سال کے رمضان کے دن تھے جب مجھے قدرت کی طرف سے آزمایا گیا رمضان المبارک سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل اندرونی اور بیرونی مصروفیت کا گراف بہت اوپر چلا گیا تھا . ” مستحکم خاندان مستحکم معاشرہ ” مہم کے ساتھ استقبال رمضان کے پروگرام شروع ہو گئے . موسم گرما کا آغاز اور پے درپے فوتگیاں ۔ رمضان سے دس بارہ دن پہلے بخار ، اور جسمانی تھکاوٹ محسوس ہوتی تھی . صبح کہاں سے شروع ہوتی اور شام کب سر پر پہنچ جاتی مصروفیت کی وجہ سے پتہ ہی نہ چلتا . یہاں تک کہ درد کش ادویات لے لے کر رمضان 2021ء کا چاند اس طرح طلوع ہوا کہ میں اپنی محلہ دار عزیز پڑوسن کے جنازہ میں شریک تھی , وہ سنتیں جن پر عمل پیرا ہو کر چاند کا استقبال کرتی تھی ، ان سے بھی محروم رہی .
بہر حال دورہ قرآن لیتے ہوئے بہت اذیت محسوس ہوتی رہی . درد ، بخار نے ڈاکٹر کے پاس جانے پر مجبور کر دیا . رپورٹس کے مطابق کرونا کا شدت سے حملہ ہو چکا تھا . دورہ قرآن کے ساتھ روزوں کی سعادت سے محروم ہو گئی. چودہ دن آکسیجن پر رہی پھیپھڑوں کا کام کرنے سے زیادہ ناکارہ ہونے کا رجحان تھا . ایسے میں ایک سہیلی نے روٹین میں حال دریافت کیا .
جس انداز میں سکھیوں نے مجھے دعاؤں میں یاد رکھا اور اپنی محبت کا اظہار کیا اسے صرف رب کا انعام ہی کہا جا سکتا ہے . خیر یہ تو الگ سے رام کہانی یے بات تو موجودہ رمضان کی ہو رہی تھی . شاید نفسیاتی طور پر گزشتہ روزوں کی کیفیت بھی شامل تھی کہ مجھے یہ روزے رکھنا پچھلے سال سے زیادہ مشکل لگ رہے تھے . رجب کا مہینہ شروع ہوا . رجب اور شعبان کی برکتوں کی دعاؤں میں روزے رکھنے کی دعا ہر حال میں کرتی رہی تا آنکہ شعبان المعظم کے دو عشرے گزر گئے . دوائیوں کے سائڈ ایفیکٹس نے گلے کو اتنا خشک کر دیا کہ استقبال رمضان کے جتنے بھی پروگرام ہوئے بار بار گلا خراب ہوتا اور سونف ،چینی کے ساتھ پانی کا گلاس بھی دوران درس بار بار منہ سے لگانا پڑتا .
دل یہ سوچ کر دھک سے رہ جاتا کہ اب تو یہ اہتمام ہے . روزوں میں اگر دورہ قرآن لینا پڑا تو کیا ہوگا؟؟ اس بات پر میں حوصلہ ہار کر دورہ قرآن لینے یا نہ لینے کے بارے میں ڈانواں ڈول ہو جاتی۔ ہاں ! دعاؤں میں استخارہ کی دعا موجود رہتی کہ جو بھی بہتر ہو ویسا ہی منظور ہوگا۔
اسی عالم میں رمضان سے صرف چار پانچ دن قبل دورہ قرآن کے بارے میں یکسوئی نصیب ہوئی اور یوں لگا کہ چار پانچ دن پلک جھپکنے میں گزر گئے . رمضان کا چاند دیکھنا ممکن نہیں تھا . مسنون عمل سوچ کر چھت پر گئی . آسماں پر نظریں دوڑائیں ، نوافل اور صدقہ کے ذریعے مہینوں کے سردار کو خوش آمدید کہا . سحری کے بعد گھنٹہ بھر سونے کی عادت ہے . دورہ قرآن کے لیے گئی تو چند لفظوں کی ادائیگی کے بعد گلا بند ،!!
نمناک آنکھوں اور رب سے التجاؤں کے ساتھ جیسے تیسے پہلے دن کا دورہ قرآن ختم ہوا . اپنی بہت محترم دوست کے میاں کے کلینک میں ہومیوپیتھی دوالی ، پتہ چلا کہ چلڈرن لٹریری سوسائٹی کی طرف سے میری کتاب شائع ہونے کے بعد گوجرہ میں گڈز ٹرانسپورٹرز کے ہاں موجود ہے, نئی کتاب کے کارٹن وصول کر کے گھر آئے تو ظہر کی نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے . اب یہ سطور لکھ رہی ہوں تو چوبیسواں روزہ اور نماز عصر کا وقت ہوا چاہتا ہے ، آپ یقین نہیں کریں گے کہ پتہ ہی نہیں چلا درمیان کے تئیس دن کیسے گزر گئیے!!
دورہ قرآن بھی الحمد للّٰہ مکمل ہوا ، روزے بھی رکھنے کی سعادت مل رہی ہے اور الحمدللہ کچھ نہ کچھ لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے . یہ سب رب کے بے پناہ فضل کے ساتھ قرآن میں فرضیت رمضان والے رکوع سے لئے تین مقاصد پر عمل کی بناء پر ہے . آپ بھی سورہ البقرہ میں اس رکوع کی تلاوت کرتی ہیں جس میں روزوں کے متعلق رب العزت نے تین حکم دیے ہیں
لعلکم تتقون
لعلکم تشکرون
لعلھم یرشدون
اپنی حد تک گناہوں، فضول گفتگو سے اجتناب کی ہر ممکن کوشش تقوی کی ہی کوشش تھی . شکر گزاری میں بھی دین اسلام اور امت محمدیہﷺ میں شمولیت کے ربی اعزاز پر جتنا شکر ادا کرنے کی کوشش کرتی تھی کم ہی محسوس ہوتا رہا یہ بھی احساس تھا
ان تعدو١ نعمتہ اللہ لا تحصوھا
اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے . ہاں ! گھر میں گھر والوں کی موجودگی میں زبانی کلامی شکر ادا کرنا سب سے مفید رہا . تیسرا تعلق دعا سے ۔۔دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا لازم نہیں دل کی خشیت ضروری ہے کم نصیب ہوئی یا زیادہ یہ ضروری نہیں بس دعا کے لیے طبیعت آمادہ رہی . اللہ نے روزوں کو واقعی آسان کردیا گو چھوٹے بڑے مسائل انسانی زندگی کا حصہ ہیں پھر بھی یہ کیا کم ہے کہ رحمان نے رمضان میں قرآن سے تعلق قائم رکھا .
اللہ سب کے اس تعلق کو بعد از رمضان بھی قائم و دائم رکھے اور ان سب کوششوں کو قبول فرمائے
آمین
ایک تبصرہ برائے “یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے”
سبق آموز۔ ﷲ قبول فرمائے۔ ہمیں بھی توفیق دے سراج عظیم نی دہلی