قانتہ رابعہ
صدیوں پرانی نہیں ، یہی کوئی تین چار عشرے پرانی بات ہے ۔ رمضان المبارک جب بھی آتا تو اپنے والد مرحوم جنہیں ہم ابا جی کہتے تھے ، سے ایک ہی بات سنتے تھے کہ رمضان المبارک میں اگر روٹین پچھلے گیارہ ماہ سے نہیں بدلی تو تم رمضان سے کوئی فیض حاصل کرنے میں ناکام ہو ۔ یہ مہینہ ہماری زندگی کی روٹین کو یکسر تبدیل کر دیتا تھا ۔ موضوع یہی ہوتا تم نے کتنے سپارے پڑھے ، تراویح کون پڑھائے گا ، تکمیل قرآن کب ہوگی ، تبرک میں کیا دینا یے ۔
مسجد میں مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے جمعہ کی نماز کی ادائیگی کا بطریق احسن بندوبست کیا جاتا۔ سب سے پہلے جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں پہنچنے پر اونٹ کی قربانی کے ثواب کی احادیث سنا سنا کر متحرک کیا جاتا ۔آخری خطبہ بالعموم میرے ماموں عبدالوحید سلیمانی ( ادارہ مطبوعات سلیمانی) دیتے . وہ لاہور سے بیوی بچوں کے ساتھ عید منانے جہانیاں آتے اور ان کے آنے پر بچوں بڑوں سب کو خطبہ جمعہ سننے کی خوشی ہوتی .
مسجد کے مردانہ اور زنانہ حصے کھچا کھچ بھرے ہوتے . ماموں کے دل نشیں انداز میں نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم کی آواز کے ساتھ ہی سب ہمہ تن گوش ہوجاتے . ان کے خطبہ کا مواد اور انداز دونوں کمال ہوتے . عام سی بات کو وہ ایسے مسحور کن انداز میں بیان کرتے اور واقعات سناتے ہوئے لب و لہجہ بھی اسی کے مطابق ہوتا تو سماں بندھ جاتا ۔
بہت دیر تک ماموں کے خطبہ کا اثر دل و دماغ پر طاری رہتا ۔ ہمارا تو خیر بچپن تھا لیکن امی کا پچپن چل رہا تھا اور وہ خطبہ سنتے ہوئے آنسوؤں سے روتیں . بھائی سے انہیں ویسے ہی بہت محبت تھی . خطبہ کے بعد تو بس میں نہیں رہتا تھا کہ بھائی پر کیا کچھ قربان کر دیں .
خطبہ میں سنے ہوئے اس وقت کے واقعات اب بھی میرے دل و دماغ میں ایسے ہی ہیں جیسے ابھی سنے ہوں . اللہ ماموں کی مغفرت فرمائے ، ان کی اولاد کو صدقہ جاریہ بنائے . ان کے بعد میرے ابا جی کا جوش و خروش رمضان سے متعلق دیدنی ہوتا. اکثر وہ یاد دہانی کرواتے . رمضان کا پہلا عشرہ رواں دوسرا دوڑاں اور تیسرا پراں ہوتا ہے یعنی پہلا پیدل چلنے کے سے انداز میں گزرتا ہے . دوسرا دوڑنے والے اور تیسرا پر لگا کر اڑ جاتا ہے . اور حقیقت یہی ہوتی کہ اکیسواں روزہ شروع ہوتا اور پتہ نہیں کیسے انتیسواں بھی سر پر پہنچ جاتا۔
مل جل کر افطاری کا اہتمام ، اجتماعی سحریاں ، ہر عمر کے بچوں اور بڑوں کی شب بیداریاں ،جس میں نانا جی مرحوم حکیم محمد عبداللہ کا وظیفہ ضرور کیا جاتا ۔ اس وظیفہ میں استغفار، تعوذ ، تسمیہ سے لے کر پچیس طرح کی تسبیحات اور سورہ یاسین ، سورہ مزمل سمیت تیسویں پارے کی درجن بھر سورتیں شامل ہوتیں ۔
جب پہلے روزہ کی افطاری کے دسترخوان پر بیٹھتے تو ہر سال ابا جی ہمیں اس شخص کا قصہ سناتے جس نے ساری زندگی روزہ نہیں رکھا تھا اور جب روزہ رکھ لیا تو دن گزارنا مشکل ہو گیا ۔ روزہ کھولتے ہی شربت کے گھونٹ سے توانائی اندر پہنچی تو ٹھنڈی آہ کھینچ کے بولا:
لنگھ گئے سارے روزڑے ۔۔۔ رہ گئے ویہہ تے نو
(سارے روزے گزر گئے بس بیس اور نو ہی باقی ہیں )
ایک اور چیز جس کا وہ خوب اہتمام کرتے وہ موسم کے سارے نئے کپڑوں کا رمضان میں زیب تن کرنا تھا . انہوں نے شاید کہیں پڑھا تھا کہ رمضان المبارک میں زیب تن کئیے کپڑوں کا حساب کتاب نہیں ہوگا۔
تحقیق کےلئے آج کی طرح دنیا بھر کے برقی ذرائع تو تھے نہیں کہ روایت ضعیف ہے یا نہیں لیکن اللہ انہیں ان کی نیت کا ثواب ضرور دیں گے
رمضان کا آخری ہفتہ شروع ہوتا تو روزانہ ہمارے کانوں میں ڈالتے : آج اتوار ہے اس کے بعد اتوار رمضان المبارک میں نہیں آئے گا ۔ آج پیر ہے اگلا پیر رمضان المبارک میں نہیں ہوگا . ساتوں دن یہ فقرہ سننے کو ملتا اور جب انیتسواں روزہ آتا تو فقرہ بدل جاتا ۔ یہ نماز ظہر شاید رمضان کی آخری ظہر کی نماز ہو ، عصر کی نماز شاید آخری نماز ہو ، مغرب کی نماز شاید آخری نماز ہو . کیا خبر اگلا رمضان زندگی میں ملے یا نہیں
عید کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہوتیں اور یہ تحریر بھی عید کے حوالے سے لکھنا چاہ رہی تھی لیکن رمضان کی یادوں نے ایسا قابو کیا کہ اس پر ہی اتنا لکھ مارا . رمضان المبارک میں ایک الگ انداز کی خوشی ہمارے پالتو طوطے کی ہوتی . رمضان کی ساری طاق راتوں میں وہ پنجرے میں جھوم جھوم کر میاں مٹھو اللہ ہو
کوانکا اللہ ہو
یہ کوانکا دراصل میرے نام اور میرے مرحوم بھائی اویس کے پیار سے رکھے نام کاکا ، کا مخفف تھا . کاکا اور قانتہ مل کر کوانکا ہوجاتے ۔ مجال ہے جو لمحے بھر کے لیے طاق راتوں میں اس کی زبان کو تالا لگ جائے . اللہ ہو اللہ ہو میں رات گزار دیتا.
اب سوچتی ہوں جو ماہ پرندے کو متحرک اور اللہ کی یاد میں مشغول رکھتا ہے ، وہ اب بندوں کو کیوں بھول جاتا ہے . شاید ہم اپنی نسلوں کو یہ سب جوش محبت نہیں دے پائے اور ہماری نسلیں اپنے بچپن کے رمضان کو یاد رکھیں گی تو سوائے موبائل فون پر الارم ، برگر ، پزا کی افطاری کے ان کے پاس کم کم ہی یادیں ہوں
الوداع الوداع ماہ رمضان الوداع
3 پر “الوداع،الوداع ماہ رمضان الوداع” جوابات
بہت عمدہ انداز اور کہانی بھی یادیں بھی اور. ہترین نصیھت بھی…
بہت زبردست تحریر ماشاءاللہ۔۔
کہانی پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم بھی 50 سال پیچھے چلے گئے آپ کی ہر تحریر انمول ہوتی ہے