Imran Khan

آزادی سے غلامی تک کا سفر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد بلال اکرم کشمیری

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سے فارغ ہوتے ہی 2018 سے پہلے والی پوزیشن سنبھال لی ہے اور مسلسل جلسے جلوسوں سے حسب دستور اور روایت اپوزیشن پر لفاظی گولہ باری کر رہے ہیں ،جب کے ان کے فالورز ان سے بھی 10 ہاتھ آگے بڑھ کر عدلیہ اور فوج کو مسلسل نشانہ بنانے بلکہ نشان عبرت بنانے میں دن رات مصروف عمل ہیں ،

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایساہورہا ہے کہ سیاسی اختلاف کو تمیز اور دلیل کے دائرے سے نکل بدتہذیبی اور بدتمیزی کا جامہ پہنایا جارہا ہے ،اس کا سہرا صرف اور صرف سابق وزیر اعظم عمران خان کے سر ہی جاتا ہے جنہوں نے کنٹینر سے اپنے پیروکاروں کی اس قسم کی تربیت اپنے ہر جلسے اور اپنی ہر تقریر میں کی ،جس کا نتیجہ آج پوری قوم اور پوری دنیا کے سامنے ہے ۔

عمران نے 2018 سے قبل جن باتوں پر ووٹ حاصل کیے ان کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ حکمران چور ہیں ،ان کی لوٹ مار کے سبب ملک ترقی نہیں کر رہا ،ہم پہلے سو دن کے اندر تمام نظام کو ٹھیک کر دیں گے،منی لانڈرنگ بند کر دیں گے ، لوٹا ہوا پیسہ ملک میں واپس لائیں گے ،وغیرہ وغیرہ ،مگر پھر موصوف آزاد مملکت کے سربراہ بھی بنے ،ابتدائی 100 دن بھی گزر گے ،اپوزیشن پر مقدمات بھی قائم ہوئے ،مگر تقریروں اور جلسوں کی روش تبدیل نہیں ہوئی،بلکہ اس گفتگو میں مزید اتنا اضافہ ہوا کہ ’’NRO‘‘ نہیں دوں گا۔

عمران خان نے جن وعدوں اور جو خواب دکھا کر ووٹ حاصل کیے تھے ان میں سے ایک وعدہ اور ایک خواب بھی پورا نہ ہوسکا،بلکہ حالت یہ ہوگئی کہ آئی ایم ایف جس کے پاس جانے سے یہ انکاری تھے ان سے مذاکرات اور قرض ملنے کو پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا جانے لگا۔سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے پاس بطور ضمانت کے رکھوا دیا گیا جہاں سے اب تک آئی ایم ایف کی روشنی میں سمریاں منظور کی جارہی ہیں اور اپنا قرض سود سمیت واپس لینے کے لیے مختلف انداز سے اور وقتاً فوقتاً مہنگائی کے آفٹر شاکس عوام کو دیئے جا رہے ہیں ۔اس دوران سی پیک کا کام مکمل طور پر ٹھپ ہو گیا ،ہزاروں بے روزگار ہوئے اور چین کی ناراضگی کا علیحدہ سے سامنا کرنا پڑا،اگرچہ چین کے سی پیک کو بند کرنے کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کو ہوا جو آج بھی یہ چاہتا ہے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ملک کے حالات بگڑے ،بیروزگاری میں اضافہ ہوا،کاروبار تباہ ہوگے تو بیرون ملک مقیم عزیز و رشتہ داروں نے باہر سے بھجوائی جانے والی رقم میں اضافہ کر دیا ،جسے حکومت نے اپنی کامیابی تصور کیا ۔

حکومت کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں نے ملک کو بیرونی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا ،اندرونی طور پر مسلسل ناکامیوں کا ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈال کر ہاتھ جھاڑنے کی عادت ڈال لی ،حسب معمول ہر بیان اور ہر تقریر میں 2018 والا ہی راگ مختلف انداز سےبجاتے رہے کہ فلاں خاندان چور ہے ،انہیں این آر او نہیں دیں گے، جبکہ مہنگائی اور بیروزگاری سے پسے عوام کے سوال کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا،موصوف کو یہ گمان ہو چلا تھا کہ شاید اب وہ اس ملک کے تاحیات وزیراعظم بن چکے ہیں ،اس خوش فہمی میں مبتلا رہنے کا براہ راست نقصان عوام کو ہوا جو مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر جان دے بیٹھے جبکہ اس دوران بھی حکومت قرضوں کے حصول کے لیے کبھی ایک ملک اور کبھی دوسرے ملکوں کے چکر لگا رہی تھی،

حکومت کاکوئی نیا منصوبہ شروع کرنا تو درکنار گزشتہ دور کے جاری منصوبوں کو بھی بند کر دیا اور عوام کو یہ باور کرانےاور انہیں یقین دلانے پر سارا زور صرف کردیا کہ وہ چور ہیں ،اور انہوں نے منی لانڈرنگ کی اور ایسا کیا اور ویسا کیا، اس دوران پورا ملک قرضوں میں ڈوب چکا تھا ،صنعتیں بند ہوچکی تھیں ،عوام کی قوت خرید ختم ہو چکی تھی ،معیشت کاچکہ جام ہو چکا تھا۔

2022 پر جب چوری اور کرپشن کا باب بند ہوا،اور اپنے موقف کو ثابت کرنے میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اور مسند اقتدار سے الگ ہوئے تو ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا کہ یہ لوگ سازشی بھی ہیں ،انہوں نے امریکہ کے کہنے پر مجھے نکالنےکی سازش کی اورعوام کو یہ بھی باور کرانے کی کوشش شروع کر دی گئی کہ آپ کو تو پتہ ہی نہیں کہ آپ لوگ غلام ہو ،اب میں آپ کو غلامی سے نجات دلانے آیا ہوں ،اور حسب روایت جمہوری قدروں کا سہارا لینے کے بجائے ایک مرتبہ بھی مذہب کارڈ کا استعمال کیا گیا اور عمران خان کے فالوراس وقت عمران کو امیر المومنین اور خلیفۃ المومنین اور نامعلوم کیا کچھ بناچکے ہیں ۔پشاور جلسہ ہو یا کراچی بیانات کا طرز 2018 سے مختلف نہ تھا البتہ اتنی تبدیلی ضرور آئی کہ بیانیہ تبدیل ہو گیا۔نئے اور تازہ بیانیے میں ’’سازش‘‘ شامل کر لی گئی اور عوام کو مقامی غلامی سے نکال کر بین الاقوامی غلامی میں ڈال دیا گیا۔

لاہور کا جلسہ عمران خان کااس سیزن کا آخری جلسہ ہوگا،کیونکہ تادم تحریر پشاور میں اپنی حکومت جبکہ پنجاب میں بھی اب تک حکومت (گورنر ،وزیراعلیٰ)ان کی ہی ہے ،لہٰذا پی ٹی آئی کے مکمل خاتمے سے پہلے پہلے ہی موقع تھا کہ سرکاری مشینری کے بل بوتے پر یہ جلسے کر لیے جائیں ،2018 سے قبل کی پی ٹی آئی کی پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو اس کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا بے حد آسان ہوجائے گا کہ لاہور جلسے کے بعد پی ٹی آئی پورے ملک میں دھرنوں اور ریلیوں کا اعلان کرے گی۔کیونکہ عمران خان آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ عوام آج بھی اتنی ہی بیوقوف ہے جتنی 2018 سے قبل تھی نیز اقتدار کا راستہ صرف اور صرف بہت زیادہ بہیودگی اور بدتمیزی ہی ہے ۔مگر اب یہ راستہ ان کو ’’تخت‘‘ تو نہیں لیکن ’’تختہ دار‘‘ تک ضرور لے جا سکتا ہے ۔جس طرح انہوں نے محض ساڑھے تین برس میں آزاد اور خودمختار مملکت کو ’’آزادی ‘‘سے ’’غلامی‘‘ تک پہنچا دیا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں