قانتہ رابعہ، گوجرہ
میرے آباء واجداد ہندوستان کے شہر روڑی ضلع حصار سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے ۔ وہ فورٹ عباس والے سرحدی علاقے سے پاکستان میں داخل ہوئے۔ لمبے سفر کی مسافت طے کرکے جہانیاں منڈی میں قیام پذیر ہوئے . نانا مشہور حکیم تھے . پڑھنے لکھنے کے شوقین تو تھے ہی اس کے علاوہ اللّٰه اور اس کے گھر یعنی مسجد سے گہرا تعلق تھا . بہت مذہبی اور باعمل لوگ تھے۔
دین سے محبت ہمیں ورثے میں ملی جونہی رجب کا مہینہ گزرتا ، میرے ابا جی رمضان کے لیے پُرجوش ہوجاتے . گھر کی صفائیاں ستھرائیاں ، دیواروں پر سفید چونا پھروایا جاتا ، جائے نماز دھوئے جاتے . کونوں کھدروں کی یوں صفائی ہوتی جیسے سربراہ مملکت کی آمد آمد ہو۔ چاند دیکھنے کا خوب اہتمام ہوتا جونہی چاند نظر آتا، اور اکثر و بیشتر رویت ہلال کمیٹی کی مدد کے بغیر ہی نظر آ جاتا ۔ ساتھ ہی کمیٹی باغ سے سائرن کی آواز چاروں اور سنائی دیتی جسے اس وقت بزرگ پنجابی میں ” گھگھو ” کہتے۔ بس ! پھر مساجد سے نعتیں اور رمضان کی مبارک باد گا گا کر پیش کی جاتی ۔
گھر میں میرے اور میرے مرحوم بھائی اویس کی اونچی آواز میں تلاوت سے باقاعدہ رمضان المبارک کا آغاز ہوتا ۔ سب چھوٹے بڑے مساجد میں تراویح کے لیے جاتے . بچے بالعموم پچھلی صفوں میں ہوتے ، جب پہلی رکعت میں قاری صاحب رکوع میں جانے لگتے تو تیزی سے نماز میں شامل ہوتے . ہاں دوسری رکعت بچوں کو پوری پڑھنا پڑتی۔
سب سے خوبصورت لمحے سحری کے لیے اٹھنے کے ہوتے . جب گھی کا خالی کنستر پیٹنے والے آدھی رات ہی ڈھم ڈھما ڈھم کنستر پیٹتے آتے . اس خالی کنستر کو جسے سب پیپا بجانا کہتے اور ان سب میں نوردین پیپا بجانے میں وہی حیثیت رکھتا تھا جو ستاروں میں زہراء ستارہ۔ وہ ڈھم ڈھم پیپا پیٹتا آتا اور پاٹ دار آواز میں لے لگاتا.
حکیم صاحب ! اٹھ جائیے ، ماسٹر صاحب اٹھ جائیے، روزے دارو !! اللہ کے پیارو !!! اٹھ جائو ! روزہ کا وقت ہو چکا ہے . درمیان میں وہ چٹکلے چھوڑتا ، سیاسی صورت حال پر تبصرے سے بھی مالامال کرتا، کافی عرصہ تک وہ یہ فرض انجام دیتا رہا۔
اٹھیے ! حکیم احمد سعید صاحب
نواز شریف نے بے نظیر سے شادی کر لی ہے
فلاں ملک سے بھاگ گیا ہے
رات کی تاریکی اور سناٹے میں پیپا بجانا اتنا مسحور کن لگتا کہ محلے کے اچھے گھرانے کا ایک بچہ بھی رضائی میں کپڑے ٹھونس کر نور دین کے ساتھ پیپا بجانے کے لیے چلا گیا تھا۔
پھر میرے چچا مسجد میں سحری کے وقت اپنی مترنم آواز میں گاتے
نیلی چھت والیا کر دے کرم
گناہاں دی گٹھڑی نوں سر اتے چا کے
در تے بلاکے، جا معاف کیتا
افطاری میں ہر گھر میں بہت اہتمام ہوتا اور ہم سب کزنز خالائیں اور ہم عمر رشتے دار لڑکیاں اپنی اپنی افطاری اور سحری لے کر ایک ہی گھر میں جمع ہوتیں . پکوڑے ، چنا چاٹ اور دس طرح کی چیزوں سے دسترخوان سج جاتا۔
سب سے اہم طاق راتوں میں ہم جولیوں کا رت جگا ہوتا ، جب ساری کی ساری بڑے ماموں کی چھت پر عبادت کی غرض سے جمع ہوتیں . نانا ابو کا بتایا دو گھنٹے کا وظیفہ کیا جاتا۔ صلوہ التسبیح پڑھی جاتی اور جب آنکھیں نیند سے بوجھل ہوتیں ، لیلہ القدر بس دو گز کے فاصلے پر ہوتی تو کوئی نہ کوئی کزن آہستہ سے کہتی . وہ رات کو پھڑپھڑانے والا فرشتہ آنے والا ہے . بس ! سب بے سدھ سو جاتے ۔ طاق راتوں میں ہمارے پورے خاندان بلکہ محلے میں گھروں کے دروازے بند نہیں ہوتے تھے خدا جانے کب مرد مسجدوں سے گھر آجائیں۔
روزوں کی سحری کی خاص چیز اصلی گھی کے تڑتڑاتے پراٹھوں سے چوری اور خالص دودھ کی کھیر جسے مکس کرکے کھایا جاتا۔ پورے رمضان المبارک میں ہر فرد بس قرآن سے جڑا رہتا اور جب آخری روزہ ہوتا تو بڑے ماموں جو سعودیہ کا اقامہ رکھتے تھے ایک آدھ دن پہلے ہی عمرہ سے واپس آتے اور ماشاءاللہ بڑے پیمانے پر خاندان کے سب چھوٹوں بڑوں کی افطاری کرتے ۔ مردانہ افطاری کے لیے گھروں میں پکوڑے زمزم سعودی عرب کی کھجوریں بعد میں کھانا تیار ہوتا عورتیں گھر میں افطاری کرتیں مرد گلی میں لگے ٹینٹوں میں روزہ کھولتے اور نانا جی کے دوا خانے میں شربت ٹھنڈک سے پیاسے حلق کو سیراب کیا جاتا۔ اخری رات میں مساجد میں بہت سوز سے گاتا
نہ جا نہ جا رمضان پیارے
اللہ حافظ اے رمضان تیرا
نہ جا نہ جا رمضان پیارے
دل دکھ سے بھر جاتے ، ہر سال ابا جی اپنی موتیوں جیسی لکھائی میں رمضان المبارک کے فضائل و برکات لکھ کر فوٹو کاپیاں کروا کے تقسیم کرتے اور یہ سمجھ نہ آتی کہ عید کی خوشی زیادہ یے یا رمضان کے جانے کا غم زیادہ ہے
3 پر “نہ جا، نہ جا، رمضان پیارے!” جوابات
ماشاء اللہ آپ کی ہر تحریر بہت اچھی ہوتی ہے
اللہ آپ کو سلامت رکھے آمین
بہت اچھی لگی تحریر
بہت شکریہ