قانتہ رابعہ
اللہ رب العزت کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے کتاب کتابوں کی سردار ، نبی نبیوں کا سردار دیا ، مہینوں میں رمضان المبارک جسے سید الشہور یعنی ” مہینوں کا سردار ” کہا جاتا ہے اس کی سرداری کی واحد وجہ اس کا قرآن سے تعلق ہے.
قرآن رمضان المبارک میں نازل ہوا . یہ کتاب اپنے اندر ان گنت صفات رکھتی یے . یہ کتاب اعجاز بھی یے اور راہ ہدایت بھی . کتاب فرقان بھی ہے اور راہ نجات بھی . یہ ہمیشہ زندہ رہنے والی کتاب ہے . یہ انسان کی دنیوی اور اخروی فلاح کا باعث ہے.
قرآن کھولتے ہی ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ہدایت ، تقوی سے مشروط ہے . یہی مقصود رمضان المبارک کا بھی لعلکم تتقون شاید کہ تم پرہیز گار بنو.
پرہیز گاری کا تعلق باطن سے یے . جب تک باطن کی اصلاح نہیں ہو گی قرآن یا رمضان کے اثرات نہیں حاصل کیے جا سکتے اور کتاب الہی کے بارے میں بھی ارشاد باری تعالیٰ ہے نزل بہ روح الامین علی قلبک اس کتاب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل کیا گیا ہے . قرآن اور رمضان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ مہینہ اسی کی یاد دہانی کے لیے ہر سال بھیجا جاتا ہے کہ یہ ایک ماہ قرآن کے لیے وقف کردو ، زبانیں اس کی تلاوت میں مصروف رہیں ، نظریں اس کے اوراق پر دوڑیں ، گفتگو کا موضوع کسی کی ذات نہیں بس کتاب الہی ہو .
اسی ایک مقصد کے لیے رمضان المبارک میں پچھلی زندگی کی تمام سرگرمیوں کو بیک جنبش قلم منسوخ کر کے دن میں جائز اور حلال چیزوں کا کھانا پینا بھی چھڑوا دیا جاتا ہے . لڑائی جھگڑا ، جھوٹ سمیت تمام باطنی برائیوں سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم بھی یہی ہے . رمضان المبارک میں تم سے کوئی گالی گلوچ کرے تو کہو ” انی صائم ” میں روزے سے ہوں . فالتو لفظ منہ سے نکالنا منو جیسا کہ صوم کا مطلب ہے رک جانا تو گزشتہ گیارہ ماہ کے ایمان کا لیول چیک کرو ، اپنی عادات بد کو چن چن کر نکال پھینکو ، مشکل کام ہے تو مسلسل تیس دن اسی کی پریکٹس کے لیے تو دئیے ہیں . بس محاسبہ اسی کو کہتے ہیں کہ اپنی روٹین چیک کرو ، جو عادت پکڑ کا باعث بن سکتی ہے وہ عادت نہیں خدا کی ناراضی کا سبب ہو سکتی ہے ، قبر میں تکلیف کا باعث ، حشر میں رسوائی کا باعث بن سکتی ہے ۔ اس پر ندامت کا اظہار ہو توبہ پر آمادگی اور آئندہ نہ کرنے کا عزم ۔ بس معاملہ ان شاءاللہ اس ہستی کے دربار میں پہنچ گیا ہے جو بے انتہا محبت کرنے والی یے تاہم محاسبہ میں اوروں کی عادتوں کا جائزہ لینا، شامل نہیں
تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
جب کھانے پینے کے جھنجھٹ سے آزاد کردیا ، فالتو بولنے سے روک دیا ، غیر ضروری سرگرمیوں کو اس ماہ میں نا پسندیدہ قرار دے دیا تو صورت حال یہ بنتی ہے کہ جس طرح بیت اللہ کے ارد گرد کوئی سبزہ نہیں ، کوئی حسین وادی نہیں . پہاڑ ہیں تو بنجر ۔۔۔ صرف اس لیے کہ اللہ رب العزت کو اپنے گھر کے ارد گرد کوئی دل کو کھینچ لینے والا نظارہ پسند نہیں بس دیکھنے والی کی نظر اس گھر پر رہے بھٹکنے کے مواقع ہی ختم کر دئیے بالکل اسی طرح اللہ رب العزت نے اس ماہ میں کھانے پینے سمیت ساری دل لبھانے والی سرگرمیوں کو ناپسند قرار دے دیا . بس قرآن کے ہو جائو ، تلاوت میں مشغول رہو اور قرآن سنو ۔
اس ماہ میں جبرائیل امین قرآن سنایا کرتے تھے کہ ہدایت کا مرکز دل ہے اور دل تک پہنچنے کی کھڑکیاں دروازے کان اور آنکھیں ہیں . آنکھوں سے قرآن گیارہ ماہ پڑھتے تھے اس ماہ میں کانوں سے سنو سنت پر عمل بھی ہو جائے گا اور کانوں کے گناہوں کا کفارہ بھی . اہم بات یہ کہ بسا اوقات کہانی پڑھ کر چیزاتنی اچھی طرح سے سمجھ میں نہیں آتی جتنی کسی دوسرے سے سن کر . اللہ اس ماہ کو قرآن سے جڑنے اس پر عمل پیرا ہونے کا باعث بناے امین
4 پر “رمضان المبارک : سید الشہور” جوابات
اچھی تذکیر
جزاک اللہ قانتہ باجی
Buht umda.Qanta Rabia keep it uo
بہت اچھا رمائنڈر بیت اللہ والی مثال بہت خوب لگی جزاک اللہ باجی
روزوں کو خوبصورت بنانے والی تحریر
جزاک اللہ باجی