چمنی راک ، شمالی کیرولینا ، امریکا

تم مجھے یاد آتے ہو

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار

ویسے تو تم ہر وقت ہی میرے ساتھ ہوتے ہو مگر زندگی کے سفر میں ایسے بھی کچھ مواقع آئے جب تم مجھے بےتحاشا یاد آئے۔
ووڈسٹاک کا تاریخی قدیم قصبہ تھا۔ پہاڑ کے دامن میں درختوں میں گھرے ہوئے خاموش رستوں پر گھنٹوں چلتے ہوئے تم مجھ یاد آئے۔قصبے کی مرکزی سڑک پر چلتے ہوئے تھک کر ایک چشمے کے کنارے بیٹھا تو سوچا کہ کاش اس چشمے کے پہلو میں تمہارا گھر ہوتا ۔میں تمہارے گھر جا کر سستا لیتا۔ گپ شپ بھی ہوجاتی اور تروتازہ ہوجاتا۔

گو کہ میں مطلبی انسان ہوں محبت میں بھی مطلب کو مدنظر رکھتا ہوں مگر یہاں میں نے بےغرض ہو کر اپنا گھر اس جگہ ہونے کی خواہش کے بجائے صرف تمہارے متعلق سوچا۔ میرا دل کر رہا تھا اس چشمے کے کنارے کھڑا ہوکر تمہارا نام پکاروں اور وادی میں تمہارا نام ایسے گونجے کہ وادی سے نکل کر پہاڑ کے دوسری طرف بھی سنائی دے۔

پھر گزشتہ سال سفر کے دوران شمالی کیرولینا کے سرسبز پہاڑی سلسلے میں پہاڑوں کے اندر نیچے ایک چھوٹے سے گاؤں میں تم مجھے یاد آئے ۔ میں نے یہاں بھی اپنا گھر ہونے کی خواہش نہیں کی۔ دل کیا اس گائوں کے درمیان سے گزرنے والے چھوٹے سے پہاڑی نالے کے اوپر تمہارا گھر ہوتا ، میں تمہاری چوکھٹ پہ بیٹھے بیٹھے زندگی گزار دیتا۔ تمہارے گھر کا دربان بن کر باہر کھڑا ہوتا اور آنے جانے والے سیاحوں کو فخر سے دیکھتا، خود پہ ناز کرتا کہ میں اپنے محبوب کے در پہ کھڑا ہوں۔

رات کی تنہائی میں جب صرف نالے کے پانی کی پتھروں سے ٹکرانے کی آواز کے علاوہ کوئی آواز نہ سنائی دیتی تو میں زمانے کی پروا کیے بغیر تمہارا نام لیکر وادی کے ہر گھر،ہر درخت اور ہر ذی روح کو جگا دیتا۔

میامی کے نواح میں ایک صبح سمندر کی طرف جاتے ہوئے سورج طلوع ہونے کے منظر نے مجھے سحر میں مبتلا کردیا، تب بھی میں نے سوچا سڑک کے اطراف موجود سرکنڈوں کے پاس کسی جگہ تمہارا گھر ہوتا اور آس پاس کوئی اور گھر نہ ہوتا فقط تمہارا گھر ہوتا اور میں گاڑی تمہارے گھر کے سامنے کھڑی کر کے تمہارے در کو محبت سے دیکھتا۔ تم مجھے ہوا کے دوش پر پیغام دیکر اندر بلا لیتے۔

کچھ میل دور جب میں سمندر کے کنارے گاڑی کھڑی کررہا تھا اور پارکنگ کی فیس ادا کرتے ہوئے بھی سوچ رہا تھا کہ یہاں تمہارا گھر ہوتا تو مجھے پارکنگ فیس دینے کی ضرورت نہ پڑتی۔میں گاڑی تمہارے گھر کے سامنے کھڑی کردیتا اور ہم دونوں باتیں کرتے کرتے سمندر کے ساحل پہ جا کر بیٹھ جاتے۔

چمنی راک نامی چوٹی پر کھڑے ہو کر بھی مجھے تمہاری یاد آئی۔ خواہشیں تو بےلگام ہوتی ہیں کب کس موقع پہ خواہش انگڑائی لینے لگے یہ انسان کے بس میں نہیں ہے۔میلوں دور سے نظر آنے والی اس چوٹی پہ تمہارے لیے ایک چھوٹے سے گھر کی خواہش بھی جانے کہاں سے آگئی۔

وہ کتنا خوبصورت منظر ہوتا میں میلوں دور سے تمہارے گھر کو دیکھتا ہوا ٹیڑھے میڑھے راستوں پر گاڑی چلاتا ہوا اس چوٹی کے نیچے آ کر رکتا۔ سر کو اونچا کر کے تمہارے گھر کو دیکھتا اور ہزاروں سیڑھیاں چڑھ کر پسینہ پسینہ ہوکر تمہارے گھر کی چوکھٹ پر پہنچ جاتا۔ تم سرگوشی میں مجھ سے خواہش کرتے کہ اب میرا نام اس چوٹی پر پکارو

اور میں امریکہ کی اس مشہور چوٹی پر ننگے پاوں کھڑا ہو کر ایک نگاہ آسمان کی طرف کرتا ،پھر ایک نظر نیچے وادی میں کیڑے مکوڑوں کی مانند نظر آنے والے انسانوں پر ڈالتا اور میرے لب سے تمہارا نام یوں بلند ہوتا

اللہ اکبر اللہ اکبر
لوگ چونک کر آواز کی سمت ڈھونڈتے اور میں پھر کہتا
اللہ اکبر اللہ اکبر۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں