محمد خلیق ارشد
مہنگائی کا بڑھتا ہوا رجحان ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ تاہم گزشتہ دو برسوں سے یہ شدت سے ابھر کر سامنے آیا ہے ۔ مہنگائی کی یہ لہر بلا امتیاز ساری دنیا میں آئی ہے۔ سیاسی اختلافات اور سوشل میڈیا نے اسے کچھ زیادہ ہی ہوا دی ہے ۔ قطع نظر سیاست کے ، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کو قوت خرید کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا چاہیے۔
ریاست مدینہ سے لے کر آج کی ویلفئیر ریاستیں ہمیشہ سے اپنی عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھتی ہیں لیکن پاکستان اپنے وسائل اور انکم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کردار ادا نہیں کرسکا لیکن اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حد غربت سے نیچے رہنے والے پاکستانی شہریوں کے لئے ایسی پالیسیز ترتیب دی جائیں جن سے ان کی روز مرہ ضروریات زندگی آسانی سے میسر آسکیں۔
گندم اور آٹا انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں جہاں ان کے شہریوں کو اس بنیادی غذا کے ساتھ ساتھ اور بھی انواع و اقسام کی خوراک میسر ہوتی ہے۔ پاکستانی عوام کے لئے گندم ہی بنیادی ضرورت اور غذا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت وقت نے گندم اور آٹے کی پالیسی کو سیاسی نظر سے دیکھا ہے اور مصنوعی طریقہ سے آٹے کی قیمت کو کم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس عارضی قسم کی پالیسیز کے نتیجے میں ہم آج تک گندم کے حوالے سے خود کفیل نہ ہوسکے اور چند سالوں کے لئے خود کفیل ، چند سالوں کے لئے ایکسپورٹر بنے وگرنہ ہر سال لاکھوں ڈالر زرمبادلہ خرچ کرکے ہم گندم امپورٹ کرتے رہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ گندم کے حوالے سے ایسی پالیسیز مرتب کی جائیں جن سے ہم گندم جیسی بنیادی خوراک میں خودکفیل ہوسکیں۔ چنانچہ ہم بطور پروگریسو ملرز اور سٹیک ہولڈر تجویز کرتے ہیں کہ گندم کے کاروبار پر سے ہر قسم کی پابندیاں اور قدغنیں ختم کی جائیں اور گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں آنے والے اخراجات کے تناسب سے گندم کی امدادی قیمت مقرر کی جائے۔ تجویز ہوگی کہ جس طرح حکومت نے چینی ، چاول کی پیداوار اور اس کے کنٹرول سے اپنے آپ کو الگ کیا ہے اسی طرح گندم کے کاروبار سے بھی علیحدہ ہوجائے۔
سبسڈی تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ سرکاری سطح پر گندم کی خریداری ، باردانے کی تقسیم سے اقربا پروری سے لے کر کرپشن کی انتہا ہوجاتی ہے۔ کسان سے خریدتے وقت وزن سے لے کر کوالٹی پر کٹ لگا کر کسان کا استحصال کیا جاتا ہے اور یہی ناقص کوالٹی کی گندم فلورملز کو ریلیز کرنے سے آٹے کی کوالٹی ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہی سبسڈی ہے کہ جس سے فلورملز ضرورت سے چارگنا لگ چکی ہیں۔ لوہے اور سریے کے پہاڑ کھڑے کیے جارہے ہیں اور ملک و قوم کا سرمایہ منجمد ہورہا ہے۔
بے ہنگم اور بغیر منصوبہ بندی سے ملز میں اضافہ کے سبب فلورملز کو اتنی گندم میسر نہیں آتی کہ وہ آٹھ گھنٹے کی معاشی منصوبہ بندی کرسکیں۔ یہاں یہ بات طے شدہ ہے کہ گندم کی قیمت سے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے معاشی مشکلات پیش آئیں گی۔ لیکن اصولی طور پر سبسڈی ہر ایک کے لئے نہیں ہوتی۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہوگا کہ ایک جیب سے ٹیکس کی صورت میں رقم نکالی ، سبسڈی کی صورت میں خرچ کردی جائے۔ بے نظیر انکم سپورٹ یا احساس پروگرام کے تحت کم انکم والے طبقے کی براہ راست مدد کی جائے۔ سبسڈی اگر بہت ہی ضروری ہے تو کسان کو کھاد ، بیج ، ڈیزل اور زرعی مشینری سستی کرکے گندم کی قیمت کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد ہر صوبہ اپنی پالیسی بنا رہا ہے۔ گندم کی قیمت کے معاملے میں صوبوں میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ صوبہ سندھ نے 2200 روپے فی من گندم کی امدادی قیمت مقرر کرکے دوسرے صوبوں کے لئے ایک سوال کھڑا کردیا ہے۔ بین الاقوامی گندم کی قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرے صوبوں کو بھی قیمت بڑھانا ہوگی کہ جہاں دیہاتی علاقہ جات بھی خوشحالی آئے گی بلکہ ملک بھی گندم میں خود کفیل ہونے کے بعد اس قابل ہوسکے گا کہ گندم امپورٹ کی بجائے ایکسپورٹ کرنے کے قابل ہوسکے۔
ہمارا پالیسی ساز اداروں کے لئے مشورہ ہے کہ گندم کی خریداری کے موقع پر فلورملز کو یہ آپشن دی جائے کہ وہ پرائیویٹ ملنگ کرنا چاہتی ہیں یا گورنمنٹ کی جاری کردہ گندم کی پسائی کرنا چاہتی ہیں۔ دو قسم کے گروپس بننے سے بہت سی آسانیاں ہوں گی۔
پرائیویٹ طور پر گندم کی پسائی کرنے والوں کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق گندم خرید اور سٹور کرسکیں۔ یہ ملز گورنمنٹ سے گندم حاصل کرنے کی سہولت سے محروم ہوں گی۔ یہ ملز 10 یا 20 کلو آٹے کی پیکنگ نہ کرسکیں گی۔ پرائیویٹ بنے ہوئے آٹے پر قیمت کا کنٹرول نہ ہوگا۔ یہ باہمی صحت مند مقابلے کے ذریعے مارکیٹ فورسز سے قیمت کا خود بخود تعین ہوگا۔
پرائیویٹ اور سرکاری گندم پیسنے والی ملز کے الگ ہونے کی صورت میں حکومتی چیکنگ کا نظام آسان اور ٹارگیٹیڈ ہوگا ، تمام صوبوں کے محکمہ خوراک 4.5 ملین خریداری سے 5 ملین ٹن گندم کی خریداری کریں جو کہ ہنگامی ضرورت میں ملک میں میسر ہوں۔
پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ کی وجہ سے گندم کے گرائنڈنگ چارجز میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ گندم اور آٹے کی ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے فلورملز کے لئے پیداواری لاگت پوری کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
اس تناظر میں بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کو مدنظر رکھتے ہوئے گندم کے گرائنڈنگ چارجز کا فوری ازسر نو تعین کی اجائے تاکہ فلور ملنگ انڈسٹری کو مزید مالی نقصان سے بچایا جاسکے۔
( جناب محمد خلیق ارشد معروف صنعت کار ہیں اور فلورملنگ انڈسٹری سے وابستہ ہیں )