قرآن مجید

امام القراء قاری محمد ادریس العاصم کی چند یادیں، چند باتیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن

نرسری سے پی ایچ ڈی تک سینکڑوں اساتذہ سے کسب فیض کا موقع ملا، لیکن جن اساتذہ نے سب سے زیادہ متاثر کیا، جو دل میں اتر گئے، جن سے بار بار ملاقات کو جی چاہا، ان میں سے ایک نمایاں نام تھا، ہمارے ممدوح امام القراء قاری محمد ادریس العاصم رحمہ اللہ کا. استاد کیا استاد گر تھے،

یہ ایک شخص نہیں ایک عہد رخصت ہوا، ایک فرد نہیں، خدمت قرآن کی ایک جماعت سے ہم محروم ہوئے، ایک استاد نہیں، استاد گر سے ہم تہی دامن ہوئے 

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

اللهم اغفر له وارحمه وأدخله جنة الفردوس.

جب سے خبر ملی، دل اچاٹ سا ہے، دل چاہا کہ غم کے ان لمحوں میں ان کی کچھ یادیں اور کچھ باتیں تازہ کرلیں. 

آج سے کم وبیش بیس برس قبل مجھے ان سے شرف تلمذ حاصل رہا، شیخ اس وقت مجھے اپنے گھر عشاء کے بعد ساتھ لے جاتے، اور رات گئے احادیث کی تخریج ، حوالہ جات کی  تلاش وغیرہ میں مصروف رہتے ، کہیں کہیں کوئی حدیث مبارک ڈھونڈنے کا حکم فرماتے ، اور شیخ صبح آٹھ بجے تازہ دم کلاس میں تشریف فرما ہوتے، اور میں اکثر حیران ہوتا کہ شیخ مکرم ، بغیر کسی وقفہ کے مسلسل ظہر تک سبق سنتے رہتے ، بلکہ میں نے متعدد بار غور کیا کہ شیخ ظہر کی نماز بھی اسی وضو سے ادا فرماتے. قرآن مجید سے محبت میں اپنی مثال آپ تھے.

کلاس میں رعب، وقار اور متانت  سے لبریز اور چھٹی کے اوقات میں شفقت، محبت اور پیار کا استعارہ تھے، ہمارے پیارے شیخ رحمہ اللہ ، تواضع ایسی کہ جس دور میں ان کے پاس تھا، وہ ان کے عروج اور اوج کمال کا دور تھا، اس عہد میں بھی بعض عام لوگوں کو گھر کی لائبریری میں ابتدائی قاعدہ پڑھاتے تھے.

……………….. 

ہمارے شیخ 1949 میں پیدا ہوئے ،  مسجد چینیاں والی سے حفظ قرآن مجید کی سعادت حاصل کی ، اس دوران  بعض اساتذہ کی مار پیٹ کو صبر اور حوصلے سے برداشت کیا ، اس سلسلے میں ان کے ساتھ کیا بیتی، ان ہی کی زبانی جانیے. ماہنامہ رشد کے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں :

«میری والدہ مرحومہ مجھ سے کہنے لگیں کہ تمہارے جسم پر خشکی بہت ہورہی ہے ۔ پہلے جسم پر تیل ملو اور اچھی طرح نہا کے پھر جمعہ پڑھنے جاؤ ۔ والدہ نے جب قمیض اتاری تو میرے دونوں کندھے کالے تھے۔ میری دادی مرحومہ نے دیکھا توکہنے لگیں: ’’منڈے دی اے جگہ کیوں کالی اے‘‘ میں نے کہا کوئی نہیں کالی۔ والدہ مرحومہ کہنے لگیں : تم نے ضرور قاری صاحب کو سبق نہیں سنایا ہوگا ۔ تم سبق کیوں نہیں یاد کرتے ہو۔ حالانکہ اس میں میری غلطی کم تھی استاد جی کا مزاج ہی کچھ اس طرح کا تھا۔

«دینی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے حاصل کی، مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہوا . دارالحدیث الجامعۃ الکمالیہ راجووال کو یہ شرف حاصل ہے کہ شیخ نے والد گرامی مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ کے دور میں یہاں دورہ تفسیر کیا، اور اباجی کے ساتھ ایک لازوال تعلق استوار ہوا،

"اذان تو بس تم ہی پڑھو گے” اباجی رحمہ اللہ انہیں فرماتے ، پھر شیخ مکرم اپنی خوب صورت آواز میں مسحور کن اذان کہتے اور اکثر و بیشتر انعام بھی ملتا ، گویا بچپن ہی سے دینداری مزاج میں غالب تھی . والد گرامی رحمہ اللہ نے اپنے متعدد شاگردوں اور چاہنے والوں سے کہ رکھا تھا، میرے جنازے میں ضرور شرکت کرنا ، کوئی مجبوری ہو تو دو رکعت پڑھ کر دعاء مغفرت کردینا، وہ کہتے ہوتے تھے دو رکعت پڑھ کر کسی کا نام لے کر غائبانہ دعا کرنا ہی خصوصی دعا ہوتی ہے. 

جب والد گرامی فوت ہوئے شیخ محترم رحمہ اللہ عمرے پر تھے، شیخ کو اطلاع ملی تو شیخ نے مدینہ یونیورسٹی کے چند طلبہ کو مسجد نبوی میں جمع کرکے والد گرامی رحمہ اللہ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی ، اللہ اللہ کیسے وفادار تھے ، ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے مسند تدریس سنبھالی تو ایسی کہ ساری زندگی ایک ہی ادارے میں گزار دی . ہمارے اسلاف کچھ ایسے ہی تھے.+

"استاد جی ہمیں کسی اچھے قاری صاحب کی ضرورت ہے”میں نے ان سے عرض کی.”تم مجھے اپنے شاگرد دو میں تمہیں اچھی قاری بنا کر واپس کروں گا” شیخ مرحوم مجھے فرمانے لگے، تب سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے . اکثر امتحان کے لیے انہیں زحمت دیتا، خندہ پیشانی سے قبول فرماتے، اس دوران ان کی خدمت میں وقتا فوقتاً چکر لگاتا، اور نصیحت کے لئے عرض کرتا.فرماتے : قرآن مجید کی تعلیم پر خاص توجہ دو ، جو دینی مدرسہ قرآن مجید کی آواز بند کردیتا ہے وہاں سے برکت اٹھ جاتی ہے . ان کا مطلب یہ ہوتا کہ شعبہ حفظ کو معمولی نہ سمجھا جائے ، شیخ مکرم ،امام التجويد رحمہ اللہ نے اپنی زندگی خدمت قرآن مجید کے لیے وقف کر رکھی تھی. اور ان کی خدمت کثیر الجہات تھیں، اس عجالہ میں احاطہ ممکن نہیں، تاہم کچھ پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہوں. 

………… 

*تدریسی خدمات* . 

المدرسہ العالیہ ، تجوید القرآن ، لسوڑی والی مسجد ، شیراں والا گیٹ کی ہمیں تو پہچان ہی شیخ کی وجہ سے ہے. شیخ نے کم و بیش اڑتالیس سال یہاں گزارے. 

یہاں ان کی زندگی میں خدمت قرآن مجید کاسب سے اہم پہلو، تجوید اور قراءاتکی تدریس تھی . اس بارے میں شیخ کا ایک اپنا وژن تھا، درس نظامی کے ساتھ ساتھ تجوید کی بجائے درس نظامی سے فراغت کے بعد یکسو ہو کر کل وقتی تجوید و قراءت کے لیے وقف ہونا وہ زیادہ بہتر اور زیادہ مفید سمجھتے تھے، اور بعض دفعہ اظہار فرماتے تھے کہ درس نظامی کے ساتھ، تجوید پر معیاری محنت کی جائےتو درس نظامی میں کمزوری رہ جاتی ہے اور اگر درس نظامی پر زیادہ توجہ دی جائے تو تجوید مطلوبہ معیار کی نہیں رہتی،

اسی وژن کے تحت شیخ محترم نے اپنے ادارے میں دوسالہ تجوید کلاس رکھی ہوئی تھی ، اور اس کے بعد بعض شائقین کو قراءات پڑھاتے تھے ، بلاشبہ ان سے ہزاروں طلبہ نے علم تجوید و قرات سیکھا ، جو آج اندرون و بیرون ملک تدریس قرآن مجید میں مصروف ہیں.
ان کے تلامذہ میں بعض بڑے بڑے نام ہیں، جن میں سے بعض سعودی عرب ، مصر سے بھی تعلق رکھتے ہیں ، پاکستان میں ان کے تلامذہ ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں، بلکہ شیخ محترم رحمہ اللہ اپنے ادارے میں سالانہ قراءت کانفرنس رکھتے تھے، جس میں صرف انہی کے قراء تلامذہ تلاوتِ قرآن مجید پیش کرتے تھے، 

ان میں سے اس وقت مجھے یہ نام یاد آرہے ہیں، برادر گرامی، الشیخ ڈاکٹر حمزہ مدنی حفظہ اللہ، جو بلاشبہ اس وقت تجوید وقرات کے علم میں ایک بڑا نام ہے، اور ان کا ادارہ تجوید کے حوالے سے ( ام مدارس التجويد) ہے، اسی طرح ڈاکٹر أنس مدنی حفظہ اللہ ،فضیلۃ الشیخ المکرم ،المبجل قاری ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کے چھوٹے بھائی برادرم جناب قاری سلمان صاحب میرمحمدی بھی شیخ کے ارشد وافاضل تلامذہ میں سے ہیں، سدیس پاکستان قاری عبدالودود عاصم حفظہ اللہ ، برادر گرامی قاری محمد حیات صاحب حفظہ اللہ اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی شخصیات نے شیخ مکرم سےاستفادہ کیا ہے. 

. *تصنیفی خدمات*

تدریس کے ساتھ ساتھ شیخ محترم میدان تصنیف میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے . شیخ محترم نے تصنیفی میدان کے لیے بھی قرآن مجید ہی کو اپنا بنیادی موضوع بنایا تھا . قرآن مجید کی جمع و تدوین اور تلاوت سے متعلقہ اہم علوم پر  شیخ نے قلم اٹھایا، اور زیادہ تر طلبئہ ِقرآن مجید اور قراء کرام کی نصابی وتعلیمی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی راہ نمائی کے لیے لکھا اور بہت خوب لکھا.

غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم کے لئے اس ایک عظیم شخصیت نے ایک بڑے پروجیکٹ اور مشروع کی طرح زندگی لگائی . ناظرہ قرآن مجید کی درستی کے لیے سالہا سال کی محنتوں کا نچوڑ * قرآنی تجویدی قاعدہ * میں پیش کیا . اگلے مرحلے کے لئے * حق التلاوة * تصنیف کی ، اس سے ایڈوانس مرحلے کے لئے تمام قواعد تجوید کو مختصرا ، انتہائی منظم طریقے سے جامع انداز میں، *تحبیر التجويد* میں پیش کیا،  تحبیر التجويد ہی کے اہم موضوعات کی مزید علمی تفصیلات اور بعض جدید مفصل مباحث *زینۃ المصحف* میں یکجا کردیں. اس سے اگلے مرحلے کے لیے علم تجوید پر معروف منظوم *مقدمہ جزریہ*کی شرح لکھی . تجوید کے ساتھ ساتھ دیگر علوم قرآن پر بھی شیخ نے قلم اٹھایا علم الرسم پر، نفائس البیان، علم الوقف والابتداء پر الاھتداء اور قراءات پر طیبۃ النشر، جیسی یادگار تصنیفات لکھیں.
قراء کرام کی تعلیم وتربيت کے لیے اپنے تدریسی تجربات کا نچوڑ *تدریب المعلمین*میں سمو دیا.

 رحم اللہ شیخنا رحمۃ واسعة.*دعوتی وتبلیغی کاوشیں*شیخ کا انداز خطابت بھی اچھوتا تھا، ایک دفعہ شیخ سے راجووال میں جمعہ کی درخواست کی ، شیخ نے قبول فرمائی ، ادب کے پیش نظر میں نے کہیں جمعہ پڑھانے کی بجائے شیخ کا خطبہ جمعہ سننا اپنے لیے شرف سمجھا ، شیخ محترم نے  عظمت قرآن اور تجوید کی اہمیت پرخطبہ جمعہ ارشاد فرمایا ، خطبہ کے دوران مخصوص لہجے میں جب تلاوت کرتے تو قرآن گویا دل میں اترتا چلا جاتا.

اس کے علاوہ اپنے شاگردوں کو اندرون و بیرون ملک بڑی فراخ دلی، محبت اور شفقت کے ساتھ ایڈجسٹ کرتے. 

مسجد اسحاق یو کے ، سنٹر والے بھائیوں کو کہیں میرے بارے علم ہوا ، تو شیخ محترم کو ساتھ لے کر ایک وفد کی صورت میں راجووال تشریف لائے اور والد گرامی سے میرے سارے خطبات جمعہ لاہور ( أولا :مسجد بلال، ثانیاً :مسجد اسحاق ) میں طے کرنے کے لیے  بات کی، یہ غالبا 2014 کی بات ہے، 

"بیٹا! آپ کے استاد جی تشریف لائے ہیں، انہیں خالی نہیں موڑا جاسکتا، آپ دو جمعے لاہور پڑھا دیا کریں”، اباجی رحمہ اللہ نے مجھے حکم دیا. اس سال سے آج تک یہ تعلق نبھا رہا ہوں، اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے اور قبول فرمائے. 

مطلب یہ ہے کہ شیخ کی سادگی ، تواضع اور عاجزی ملاحظہ کیجیے ، مسجد اسحاق، شیخ محترم کی مسجد سے صرف پانچ منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے، لیکن شیخ اس نئی بننے والی مسجد اور مسجد بلال کی آبادی کے لیے مخلصانہ طور پر فکر مند ہی دیکھے گئے، بلکہ جب میں نے نیا نیا جمعہ شروع کیا تو ایک دو دفعہ جمعے کے بعد مسجد اسحاق میں تشریف لائے اور حوصلہ افزائی فرمائی، یہ اخلاق، مخلص اہل قرآن ہی کے ہوسکتے ہیں،.

الوداع شیخنا 

کورونا کی وبا کے دوران اور اس کے بعد ہمارے کتنے ہی مشایخ رب کریم کے پاس جا پہنچے، اللهم اغفر لهم وارحمهم برحمتك يا أرحم الراحمين . ابھی ان کے غم تازہ تھے کہ 8 فروری کو شیخ محترم کے گھر میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگنے کی دردناک خبر موصول ہوئی، وہ ہونٹ جو ساری زندگی تلاوت قرآن کریم میں مصروف رہے وہ، چہرہ جو نور قرآن سے منور تھا، اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ قرآن مجید کی لائبریری میں، تجوید وقراءت کی کتب کے عین وسط میں مرتبہ شہادت پر فائز ہو،

شارٹ سرکٹ کی بنا پر شیخ محترم کے کچھ اعضاء  شدید متاثر ہوئے ، اور اس شدت تکلیف میں بھی شیخ اپنے بیٹے اویس سے کہتے رہے : اویس ! مجھے چھوڑو ، کتابوں کی فکر کرو .پھر مؤرخہ، 16فروری،2022،شیخ ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے،

ہمیں امید ہے کہ شیخ محترم کے بعض اعضاء کا جھلس جانا اور اس کے نتیجے میں ان کی موت یہ بھی شہادت کی ایک قسم ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
صاحب الحریق شہید، جل کر فوت ہونے والا بھی شہید ہے. (سنن ابی داؤد، 3111).

شیخ محترم کے بیٹے ماشآء اللہ دین اور علم سے وابستہ ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہمارے شیخ کا خیر خلف، لخير سلف کا مصداق بنائے، ان سب کی حفاظت فرمائے اور انہیں صبر جمیل عطا فرمائے آمین. 

اللهم اغفر لشيخنا وخادم كتابك، وارفع درجته في المهديين واخلفه في عقبه في الغابرين ونور له في قبره ووسع له فيه واغفر لنا وله يا رب العالمين. 
القلب يحزن والعين تدمع وإنا بفراقك يا شيخنا الحبيب لمحزونون. ولا نقول إلا ما يرضي ربنا، إنا لله وإنا إليه راجعون.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں