مدثر محمود سالار
مانچسٹر سٹی پہلی رات عدی صاحب کی حماقتوں کی نذر ہوگئی۔ صبح گوگل پہ چیک کیا تو گھر کے پاس سیون الیون نامی سٹور تھا۔ ڈبل روٹی ،انڈے اور دودھ خریدے ،کاونٹر پہ انڈین بابو تھا ،فورا پہچان گیا کہ نیا پنچھی آیا ہے ۔ حال احوال پوچھ کر مانچسٹر شفٹ ہونے کی وجہ پوچھی۔ اس کے ساتھ ہی موصوف نے درخواست کی کہ اگر کام کی ضرورت ہو تو میرے پاس بھی آپ کرسکتے ہیں۔
شہر میں پہلی صبح ہے اور بابو جاب آفر کر رہا ہے ۔ گیس سٹیشن اور سٹور پہ کام کرنے کے لیے بندے ملتے ہی نہیں۔ سب کا برا حال ہے۔ کرونا کی وجہ سے ساری دنیا بیروزگاری الاؤنس لے کر کھارہی ہو تو کام کیوں کریں۔نیز گیس سٹیشن اور سٹوروں پہ تنخواہ بہت کم دیتے ہیں۔ سیٹھ والا انداز ہوتا ہے ایک تو یہی فخر کم نہیں کہ پاکستانی یا انڈین ہو کر اپنا گیس سٹیشن بنا لیا . سونے پہ سہاگہ پیسے کی ہوس کی وجہ سے ملازم کو تنخواہ دیتے موت پڑتی۔
اسی شام حلال گوشت خریدنے قریبی بنگالی سٹور پہ گیا۔ سلام دعا ہوئی گوشت کا آرڈر کیا ۔ موصوف نے بھی جاب آفر کی بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ عربوں پہ اعتبار نہ کرنا ، یہ ایسے ویسے ہوتے ہیں اور پردیس ہم پاکستانی اور بنگالی اور انڈین ہی ایک دوسرے کے کام آتے ہیں ۔ حاجی صاحب نے کافی دن کوشش کی بڑا گھیرا کہ ہم نے گیس سٹیشن چند دن پہلے ہی خریدا ہے وہاں آپ کام کرو۔ زمین آسمان کے قلابے ملا دئیے ۔
کنیٹیکٹ کا دارالحکومت ہارٹ فورڈ ہے۔ خوبصورت شہر ہے شہر کے وسط سے ایک دریا گزر رہا ہے۔ بلند و بالا عمارات اور شاہراہوں کا نظام بہترین تھا۔ ہارٹ فورڈ میں انسانوں کا ہجوم اسی طرح کسی نامعلوم منزل کی طرف دوڑ رہا ہے جیسے نیویارک سٹی میں ہے۔ نیویارک کے دارالحکومت البنی میں اس طرح رش اور بےہنگم ٹریفک نہیں ہے۔
امریکہ کی خاص بات یہاں کا شجرکاری کا نظام ہے۔ آدھا امریکہ گھوم کے دیکھا ہر جگہ درختوں کی بہتات ہے۔ مصنوعی جھیلیں اور قدرتی جھیلیں تقریبا پورے امریکہ میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ مصنوعی جھیلوں کی تعداد تقریبا 60 ہزار کے قریب ہے اس سے اندازہ کر لیں کہ قدرتی وسائل کا کتنا خیال کیا جاتا ہے یہاں۔50 ہزار سے زیادہ قدرتی جھیلیں ہیں۔ پانی کی حفاظت کی بدولت یہاں سبزہ بہت ہے۔
اوہو یاد آیا ہمیں بھی زعم تو ہے نا کہ دنیا کا سب سے منظم آب پاشی کا نظام پاکستان میں ہے۔ یہ الگ بات کہ زراعت، بجلی اور پانی تینوں شعبوں میں ہم روز بروز تنزلی کی طرف جارہے۔
مانچسٹر سٹی سے 30 میل دور میساچوسٹس کا بارڈر ہے۔ چیشر والے سٹور سے وداع ہوکر اگلے دن مابدولت میساچوسٹس کے شہر سائوتھ برج گئے۔ ہائی وے سے اتر کر ایک گائوں سے گزر چھوٹا سا قصبہ تھا سائوتھ برج۔ گائوں سے گزرتے ہوئے ہی دل تنگ پڑنے لگ گیا۔ بے چینی سی محسوس ہونے لگی۔ راستے میں فون کے سگنل بھی ختم ہوگئے تقریبا 2 میل کے بعد سگنل آنا شروع ہوئے۔ سائوتھ برج جس گیس سٹیشن پہ جانا تھا ایسی آبادی میں تھا جہاں سارے ہسپانوی بھوکے ننگے لوگ تھے۔
آس پاس کی تمام اپارٹمنٹ بلڈنگز میں غریب غرباء سرکار کی امداد سے رہ رہے تھے۔ گھروں کا کرایہ بھی سرکار دے رہی اور راشن پانی کے لیے بھی سرکار نے راشن کارڈ دیا ہوا ۔ سٹور پہ اندر کاونٹر پہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے کی ایک گوری مائی کھڑی تھی ۔ اس نے گھنٹہ ڈیڑھ ٹریننگ دی . اس کے بعد اسے جانا تھا۔ سہ پہر سے رات 10 ،11 بجے تک عوام 2، 2 ڈالر کی چیز لینے آتی رہی پھر رش کم ہوتا گیا۔
اس جگہ مجھے کافی سوچنے کا موقع ملا ۔ میں مختلف لوگوں کو آتے جاتے دیکھ رہا تھا اور سوچتا رہا کہ زندگی کے کیسے کیسے رنگ دیکھنے کو مل رہے ہیں ، کل چیشر میں تھا جہاں سوٹڈ بوٹڈ ہائی فائی قسم کے لوگ دیکھے اور آج اس چھوٹے سے قصبے میں ہر بندے کے چہرے پر بھوک لکھی ہوئی نظر آرہی ہے۔ چونکہ مجھے معلوم تھا کہ صرف 3 دن میں نے یہاں کام کرنا ہے تو کسی سے گھلنے ملنے یا گپ شپ کرنے کا موڈ نہیں ہورہا تھا۔
صبح 4 بجے کے قریب ایک گوری آئی جس نے 4 سے 12 تک کام کرنا تھا۔ عمر تقریبا 40 کے قریب ہوگی۔ وہ پیدل ہی آئی . میں سمجھ گیا اس کے حالات بھی کمزور ہیں۔
اگلے دن صبح وہ پھر 4 بجے سے کچھ پہلے آئی تو مابدولت کو موقع مل گیا۔ اس سے گپ شپ کی ، علاقے کا احوال لیا۔ لوگوں کا نظام زندگی پوچھا ، اس کی ذاتی زندگی کے متعلق گپ شپ ہوئی۔ وہ بار بار کہتی تھی: ادھر پہلے تو جو بھی بندہ آتا ہے وہ اس طرح گپ شپ نہیں کرتا اور سب فاصلہ رکھتے ہیں۔
اس کے حالات اتنے خراب تھے کہ دو جگہ جاب کرنے کے باوجود اس کے گھر کے اخراجات اور کرائے میں سب لگ جاتا تھا اور اس کے پاس اتنی گنجائش نہیں بن رہی تھی کہ وہ اپنی گاڑی کا ٹائر نیا خرید سکے۔ اسی لیے روزانہ 3 میل پیدل چل کر آتی تھی اور اسی طرح واپس جاتی تھی۔ اپنی اولاد نہیں تھی دو لے پالک بچے تھے . ان کے لیے فکرمند رہتی تھی کہ وہ شہر کے ماحول میں خراب نہ ہوجائیں۔ نشہ، اسلحہ اور جرائم سے ان کو دور رکھنا چاہتی ہے مگر ڈرتی ہے کہ کل کو جوان ہوکر خودمختار ہو جائیں گے تو پھر بھی ان پر ماحول کا اثر نہ ہو جائے۔
امریکہ کے کیسے کیسے رنگ دیکھنے کو مل رہے تھے۔ اس خاتون کو بھی احساس تھا کہ ان کا معاشرہ کس تباہی کی طرف جارہا مگر بے بس ہے کیا کرسکتی۔
اس جگہ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ لوگ دودھ کی گیلن بہت خرید رہے ہیں ۔ یہی گمان ہوا کہ شاید بچے زیادہ ہوں اس کمیونٹی میں۔ بچے زیادہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ جتنے زیادہ بچے اتنا زیادہ ویلفیئر فنڈ ملتا ہے سرکار سے۔
اسی گوری نے بتایا کہ یہاں کی پولیس بھی بہت متعصب ہے۔ نیز آس پاس کے چھوٹے شہروں کی انتظامیہ بھی ہمارے ساتھ بدسلوکی کرتی ہے اور اس قصبے کو قانونی طور شہر کی حیثیت نہیں مل رہی۔ اگر اسے قانونی طور پہ شہر قرار دے دیں تو ہمیں شہر والی سہولتیں مل جائیں گی۔ مقامی بس سروس کی سہولت بھی کافی ہوجائے گی ہمارے لیے۔
تیسرے دن صبح وہاں سے روانہ ہوتے ہوئے گھنٹہ سے زیادہ وقت اضافی گزارا ، گاڑی میں بیٹھ کر یہی سوچ رہا تھا کہ اس قصبے میں دوبارہ زندگی میں آنا نہیں ہوگا ۔ گو ایسے مواقع درجنوں بار آئے جب خیال آیا کہ یہ چیز یا شہر یا علاقہ آخری بار دیکھ رہا ہوں ، پھر شاید ساری زندگی یہاں نہ آ سکوں مگر اس صبح یہ احساس بہت زیادہ ہوا کہ اس خاموش سے قصبے میں دوبارہ کبھی نہیں آئوں گا۔