ڈاکٹر خولہ علوی
” اب آپ ہی ہمارے اکرم راہی ہیں جی۔” ملک صاحب نے گرم جوشی سے ڈاکٹر صاحب سے مصافحہ کرتے ہوئے بھرپور خلوص سے کہا۔
ڈاکٹر صاحب پی ایچ ڈی ڈاکٹر، معروف اسلامی سکالر، موٹیویشنل سپیکر، مربی (trainer)، کئی کتب کے مصنف ، اور مقامی گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہیں۔ وہ ضلع اوکاڑہ میں رہائش پذیر ہیں جہاں ان کا قدیم دینی تعلیمی ادارہ عرصہ دراز سے دین کی خدمت میں مصروف عمل ہے جس کی کئی ذیلی شاخیں ہیں۔
جبکہ ملک صاحب ضلع قصور کے ایک گاؤں کے قریب ایک فارم ہاؤس (کھوہ) کے رہائشی ہیں اور اچھے خاصے صاحب حیثیت زمین دار ہیں۔
“جب ہم عام دنیا دار انسانوں کی طرح زندگی بسر کر رہے تھے، جب ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت نصیب نہیں ہوئی تھی اور ہم نے دین کے راستے پر چلنا شروع نہیں کیا تھا تو تب دوسرے گلوکاروں کے گانے سننے کے ساتھ ساتھ ہم سرائیکی زبان کے معروف گلوکار اکرم راہی کے بہت زیادہ دیوانے تھے، دیگر لوگوں کی طرح ہم بھی ان کے گانے بہت زیادہ سنتے تھے، انہیں پسند کرتے تھے اور ان کی باتیں کرتے تھے۔ لیکن اب جب سے ہم دین کے راستے پر آئے ہیں تو اکرم راہی کے گانے سننا چھوڑ دیے ہیں، اس کا تذکرہ کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اور آپ کے لیکچر اور درس سننا شروع کر دیے ہیں ۔ اب ہم آپ کی باتیں کرتے ہیں۔” ملک صاحب بڑے جوش سے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔
“اور واقعی بعد میں ان کی ظاہری شکل و صورت، ہیئت اور باطنی شخصیت میں بڑی نمایاں تبدیلی آچکی ہے۔ ” ڈاکٹر صاحب نے بھی ان کے بارے میں بتایا۔
“ملک صاحب ایک رکھ رکھاؤ والے زمین دار ہیں ۔ بارعب حلیہ و باوقار شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ میرے والد کے پرانے واقف کار بلکہ عقیدت مند ہیں۔ جب باباجی حیات تھے تو ملک صاحب وقتاً فوقتاً ان سے ملنے آتے تھے ۔ عموماً دو تین ساتھی بھی ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔” ڈاکٹر صاحب مزید بتارہے تھے۔
“ایک دن میں کسی کام سے لاہور جا رہا تھا۔ راستے میں ملک صاحب بھی اپنی گاڑی میں سوار کہیں جا رہے تھے ۔ انہوں نے مجھے الہ آباد کے قریب دیکھا تو اپنی گاڑی روک لی اور جلدی سے نیچے اتر کر لپکتے ہوئے آئے اور میرے گلے لگ گئے۔ مختصر دورانیے کی بڑی پر تپاک ملاقات کی اور کہنے لگے کہ
“اب تو آپ ہی ہمارے اکرم راہی ہیں جی۔”
ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ گفتگو جاری رکھا۔
یہ حقیقت ہے کہ جب دل کی دنیا بدل جائے اوراس میں انقلاب برپا ہو جائے تو زندگی بدل جاتی ہے۔
اور یہ بھی کہ نیک لوگوں اور بزرگوں کی صحبت کا انسان کی زندگی میں گہرا اثر ہوتا ہے۔ اتنا گہرا کہ بعض اوقات انسان زبر سے زیر ہو جاتا ہے۔ ایک نیک اور بزرگ ہستی کی صحبت اور دعاؤں نے ملک صاحب کی کایا پلٹ دی تھی۔
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
یعنی “نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے۔ اور بُرے لوگوں کی صحبت بُرا بنا دیتی ہے۔”
جب انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف و ڈر موجود ہو تو پھر تنہائی اور رات کی تاریکیوں میں بھی انسان کا دل ودماغ کسی برائی کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ مال و دولت کے ذخیروں میں بھی رہ کر قلب و نظر میں خیانت کا تصور پیدا نہیں ہوتا۔ بے حیائی و فحاشی کے تمام اسباب و وسائل موجود ہوتے ہوئے بھی طبیعت گناہ پر آمادہ نہیں ہوتی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر ہر چیز پر غالب آجاتا ہے۔ بلاشبہ تقویٰ ہر نیکی اور بھلائی کی بنیاد ہوتا ہے۔
شیخ سعدی اپنی مشہور کتاب ’’گلستان سعدی‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ
“ایک دن حمام میں میرے دوست نے مجھے خوشبو والی مٹی دی ۔ میں نے اس مٹی سے پوچھا کہ “تو مشک ہے یا عنبر ہے ؟ تیری خوشبو نے تو مجھے مست کر دیا ہے۔”
مٹی کہنے لگی کہ “میں تو مٹی ہی ہوں مگر ایک عرصہ تک پھولوں کی صحبت میں رہی ہوں یہ میرے ہم نشیں کے جمال کا اثر ہے ورنہ میں تو وہی مٹی ہوں۔”
ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ
” ڈاکٹر سعید صاحب ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور ہمارے پڑوس میں واقع ایک پرائیویٹ کلینک کے مالک ہیں اور بڑے خوش اخلاق، ملنسار اور والد محترم کے عقیدت مندوں میں سے ہیں ۔ ان سے ملک صاحب کے اظہار محبت کے اپنے ہی انداز ہیں۔
ملک صاحب ڈاکٹر سعید صاحب کے بے تکلف دوست ہیں اورانہیں بے تکلفی سے “ڈی ایس ڈیکا ران” کہتے ہیں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ “آپ انہیں ایسے کیوں کہتے ہیں؟ یہ تو مناسب نہیں لگتا۔”
“یہ میں پیار سے کہتا ہوں۔” ملک صاحب نے جواب دیا۔
“اس کا مطلب کیا بنتا ہے؟” میں نے پوچھا۔
“ڈی ایس، یعنی ڈاکٹر سعید اور یہ عموما ڈیکا ران انجکشن لگاتے ہیں۔ اس لیے میں انہیں ایسے مخاطب کرتا ہوں۔” ملک صاحب نے جواب دیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب مزاحیہ انداز میں یہ باتیں بتا رہے تھے.
“ملک صاحب وقتاً فوقتاً جامعہ میں آتے رہتے ہیں اور طلبہ اور اساتذہ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔ کبھی کبھار وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے بڑے اہتمام سے ہماری مسجد میں آکر میرے پیچھے نماز جمعہ پڑھتے ہیں۔ “ڈاکٹر صاحب نے گفتگو جاری رکھی۔
“بعد میں مجھ سے بڑے دھیان سے ملاقات کرتے ہیں، اگلی پچھلی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ خصوصاً اس محفل میں اباجان محترم کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔ ان کی باتیں یاد کی جاتی ہیں اور ان کی نصیحتیں دہرائی جاتی ہیں۔ جامعہ کے حالات، دینی موضوعات، ذاتی مسائل کے حل، حالات حاضرہ اور موسم کے حوالے سے گفتگو ہوتی ہے۔ اور ان کے ساتھ اچھی نشست رہتی ہے۔”ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے۔
“ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کے مدارس موجود ہیں جو صحیح طریقے سے طلبہ کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کر رہے ہیں اور ملک و ملت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ نیک اور صالح عالم باعمل اساتذہ کی محنت اور صحبت تو طلبہ کی زندگی بدل دیتی ہے۔” ملک صاحب کہتے ہیں۔
“بلاشبہ ملک صاحب جیسے لوگ مساجد اور دینی مدارس کے قدر دان اور معاون ہیں اور دامے درمے قدمے سخنے ان کا ساتھ دینے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔” ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے۔
اللہ تعالیٰ دین کے رشتے میں منسلک ان سب حضرات کو صحت و تندرستی عطا فرمائے اور ان میں دین حنیف کی خدمت کا پاکیزہ اور صالح جذبہ برقرار رکھے۔
آمین ثم آمین
***********************
2 پر “ہمارے اکرم راہی” جوابات
بہت عمدہ اور بامقصد تحریر ہے ماشاء اللہ۔
بلاشبہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔
اور صحبت صالح سے زندگی بدل جاتی ہے۔
عمدہ اور مؤثر کاوش ہے ماشاء اللہ.
رحمتی ونعمتی بالاتر از نعمت
صحبت درویشان وفقیران نیست
کوئی نعمت اور کوئی رحمت درویشوں فقیروں کی صحبت سے بڑھ کر نہیں.