دینی تعلیم کا حصول اور مدارس کی عظمتیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی

“میم! میں آپ سے ایک مشورہ لینا چاہتی ہوں۔”سلام دعا کے بعد دانیہ نے اپنا مدعا بیان کیا۔

میم فرزانہ کلاس کے اختتام پر کلاس سے نکل کر سٹاف روم کی طرف روانہ ہوئیں تو سٹاف روم کے باہر ان کی تھرڈ ائیر کی ایک ذہین طالبہ ہانیہ کی چھوٹی بہن دانیہ موجود تھی جس کا کچھ دن قبل میٹرک کا رزلٹ آیا تھا اور اس نے بہترین نمبر حاصل کرکے سکول میں ٹاپ کیا تھا ۔ میم فرزانہ سے شروع سے ان کی گھریلو سطح کی جان پہچان بھی تھی۔

“جی کہیے۔ میں سن رہی ہوں۔”میم فرزانہ نے خوش گواری سے کہا۔ ان کا لہجہ اور ردعمل دیکھ کر دانیہ کو کافی حوصلہ ہوا۔

“میم! میرا شروع سے دینی تعلیم حاصل کرنے کی طرف رجحان رہا ہے۔ میرے گھر کا ماحول مذہبی ہے، سب لوگ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں، رزق حلال اور پردہ و حجاب کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔
میرے والدین کا شروع سے ارادہ تھا کہ وہ مجھے میٹرک کے بعد جامعہ میں داخل کروائیں گے۔ میں بھی یہی چاہتی تھی مگر اب بہترین نمبر اور سکول میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد میری ٹیچرز، سہیلیوں اور ارد گرد کے لوگوں نے میرے اس ارادے کی سخت مخالفت کی کہ میں جامعہ میں داخلہ لوں۔”ہانیہ نے جلدی جلدی اپنی بات بیان کی۔

“پھر اب کیا پریشانی ہے؟”میم فرزانہ نے اس کا مفہوم سمجھ کر استفسار کیا۔

“میں نے اپنے گھر والوں کو کالج میں داخلہ لینے کے لیے منا لیا ہے۔
لیکن۔۔۔
اب میں خود ڈبل مائنڈڈ ہو چکی ہوں۔ کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ میں جامعہ میں ایڈمیشن لے لوں۔۔۔ کبھی میں چاہتی ہوں کہ کالج میں داخلہ لے کر ایف ایس سی کر لوں۔۔۔ مجھے اب کچھ سمجھ نہیں آرہا۔”
دانیہ نے اپنی انگلیاں چٹخاتے ہوئے رک رک کر کہا۔

“آپ آج یہاں کس مقصد کے لیے آئی ہیں؟”

“میں آج کالج میں داخلہ فارم جمع کروانے کے لیے آئی ہوں۔ میری بڑی بہن ہانیہ نےمجھے کہا تھا کہ میں آپ سے بھی مل کر اس بارے میں مشورہ کرلوں۔ تاکہ ابھی بھی مجھے کوئی فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔” دانیہ نے جواب دیا۔

“آپ دینی تعلیم بعد میں کیوں حاصل کرنا چاہتی ہیں؟ ابھی کیوں نہیں؟”میم فرزانہ نے پوچھا۔

“میم! دراصل اب میں سوچنے لگی ہوں کہ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے فراغت کے بعد میں دینی تعلیم حاصل کر لوں گی۔
لیکن۔۔۔
پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ ممکن ہے مستقبل میں مجھے دینی تعلیم پڑھنے کا موقع ملے یا نہ ملے۔”دانیہ بولی۔
“آپ نے اس سلسلے میں استخارہ کیا ہے؟”
میم نے پوچھا۔
“جی نہیں۔ مجھے اس کا طریقہ معلوم نہیں۔”دانیہ نے آہستگی سے کہا۔

استخارہ کر لینے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی حاصل ہو جاتی ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔

لیکن اب آپ کا ڈبل مائنڈڈ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ آپ کالج میں داخلہ لینے پر خود بھی اندرونی طور پر مضطرب ہیں۔
“دیکھیں بیٹا! میں نے اسکول، کالج، اور یونیورسٹی میں پڑھا بھی ہے اور پڑھایا بھی ہے۔ کالج میں انٹر میڈیٹ اور ڈگری کلاسز کو پڑھانے کا مجھے تجربہ حاصل رہا ہے۔”میم فرزانہ نے سمجھ لیا تھا کہ وہ کس کنفیوژن کا شکار ہے۔ لہٰذا انہوں نے سمجھانے کی ابتدا کی ۔
“میم! کیا آپ جامعہ میں بھی پڑھتی رہی ہیں؟” دانیہ نے سوال کیا۔

“جی بالکل۔ میں نے دینی مدارس میں بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ بالکل ابتدائی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور دوسری دینی تعلیم بھی حاصل کی۔”
“پھر میم؟” دانیہ نے بے چینی سے پوچھا۔
“میں نے کالج کے علاوہ دینی مدارس میں پڑھایا بھی ہے اور انتظامی ذمہ داریاں بھی سنبھالی ہیں۔
اور میں اپنے تجربات کی بنیاد پر کہہ سکتی ہوں کہ سکول و کالج اور دینی مدارس کے ماحول میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔ لیکن بہترین اور اعلیٰ ترین سکول میں بھی تربیت کا جو معیار ہوتا ہے ، عموماً اسلامی مدارس میں اس سے بہتر تربیتی سسٹم ہوتا ہے۔”

“جی میم۔ دینی مدارس کا کردار تعمیر معاشرہ میں بہت اہم ہے۔”دانیہ نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

“لہٰذا میں تو آپ کو یہی مشورہ دوں گی کہ آپ جامعہ میں داخلہ لے لیں تاکہ موجودہ وقت کا بہترین استعمال کر سکیں اور اپنی آخرت سنوار سکیں اور اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بن سکیں۔”میم فرزانہ نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا۔
“مگر میم۔۔۔” دانیہ بری طرح مضطرب تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“علماء کرام اور فقہاء دین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت کو قرآن و سنت کی تعلیمات سےکم از کم اس حد تک آراستہ ہونا ضروری ہے کہ وہ پاکی و ناپاکی اور حلال وحرام میں تمیز اور فرق کر سکیں۔ یہ ان کے دینی فرائض میں شامل ہے۔ “میم فرزانہ نے بات آگے بڑھائی۔

“جی بالکل۔ میں نے قرآن مجید ناظرہ پڑھا ہوا ہے۔ اور میرے والدین نے بھی مجھے بنیادی دینی احکامات سکھانے پر پوری توجہ رکھی ہے۔” دانیہ بولی۔

“اور مسلمانوں کی مذہبی قیادت اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے کہ وہ مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ضروری دینی تعلیمات دلوانے کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کریں اور مختلف ممکنہ اقدامات پر عمل پیرا ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ مذہبی قیادت کرنے والے کہاں سے آئیں گے؟”میم فرزانہ نے پوچھا۔

“جی۔ وہ ۔۔۔” دانیہ اٹک اٹک کر کہنے لگی۔

اگر سب ذہین لوگ دنیا دارانہ تعلیم حاصل کرنے لگیں گے تو دین کی تعلیم حاصل کرنے اور پھر عالم اور عالمہ بننے کا فریضہ کون سر انجام دے گا؟
کیا اللہ کا دین سیکھنے اور سکھانے والے لوگوں کی تعداد بالکل کم رہ جائے گی۔ پھر پڑھے لکھے دنیا داروں کی رہنمائی کون کرے گا ؟”میم فرزانہ نے نہایت متفکرانہ انداز میں سوال کیا۔

“میں سوچتی ہوں کہ پہلے کالج کی تعلیم حاصل کرلوں، پھر جامعہ میں داخلہ لے کر دین کی تعلیم حاصل کر لوں گی۔”دانیہ نے پھر پہلے بتائی گئی بات دہرائی۔

“اچھا۔ اگر بعد میں آپ کا ذہن تبدیل ہو گیا کہ میں نے اب جاب کرنی ہے۔ میں نے کس لیے اتنا پڑھا لکھا اور ڈگری حاصل کی ہے۔ تو پھر۔۔۔
یا اگر آپ کی شادی پڑھائی کے دوران یا فراغت کے فوراً بعد ہو جائے تو۔۔۔
یا اگر آپ کی زندگی نے وفا نہ کی تو۔۔۔”میم فرزانہ نے فقرہ ادھورا چھوڑ کر اس کی طرف استفہامیہ نگاہوں سے دیکھا۔
“جی میم۔۔۔” دانیہ اس بات کا جواب نہ دے پائی اور خاموش ہو گئی۔

“پھر کیا کسی بات کی گارنٹی ہے کہ آپ بعد میں دینی علوم حاصل کر سکتی ہیں؟”
“کوئی نہیں۔”
“تو پھر آپ دینی تعلیم کے حصول کی اپنی نیت اور ارادے کو پورا کریں جو درحقیقت آپ کے والدین کے ساتھ ساتھ آپ کی خواہش ہے لیکن وقتی حالات میں یہ دب چکی ہے۔”

“پھر میری عصری تعلیم تو رہ جائے گی؟” دانیہ نے کہا۔
“نہیں۔ آپ عصری تعلیم کا سلسلہ پرائیویٹ طور پر جاری رکھ سکتی ہیں۔ کئی دینی مدارس دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کی بھی تیاری کرواتے ہیں۔”
“اچھا۔ یہ تو پلس پوائنٹ ہے ماشاء اللہ۔” دانیہ کافی ریلیکس ہو چکی تھی۔

“ان کا فوکس تو دینی تعلیم ہوتی ہے مگر وہ عصری تعلیم کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ اور دینی مدارس کے طلبہ و طالبات اتنے محنتی ہوتے ہیں کہ دونوں طرح کی پڑھائی cover کر لیتے ہیں ماشاءاللہ۔”

“آپ آج یا کل شام کو اپنی والدہ کے ساتھ میرے گھر آجائیں۔ پھر مزید بات ہو جائے گی ان شاءاللہ۔” میم فرزانہ نے اس کی

کیفیت دیکھ کر کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے روز شام کو دانیہ اپنی والدہ کے ساتھ میم فرزانہ کے گھر میں موجود تھی۔ حال احوال پوچھنے اور چائے پانی کے بعد کل والی گفتگو کا سلسلہ دوبارہ جاری ہوگیا۔

“ہماری بڑی خواہش ہے کہ ہماری یہ ذہین و فطین بیٹی دینی تعلیم حاصل کرے اور ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنے۔ ہماری اولاد میں سے کوئی تو ہو جو ہمارے مرنے کے بعد ہمارے لیے دعائیں کرنے والا ہو اور صدقہ جاریہ کا باعث ہو۔” دانیہ کی والدہ نے اپنی دلی آرزو کا اظہار کیا۔
“جی بالکل۔” میم فرزانہ نے ان کی تائید کی۔

“عملی طور پر دیکھا جائے تو سکول، کالجز، یونیورسٹیاں، عدالتیں، پارلیمنٹ، نوکریاں، افسری، بزنس وغیرہ سب ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جو دنیاوی طور پر اعلیٰ اور دنیاوی تعلیم یافتہ ہیں لیکن مدارس ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جنہوں نے مشکلات میں زندگی بسر کی۔” میم نے دانیہ کو مزید بتایا۔ وہ سمجھ چکی تھیں کہ لوہے پر ضرب لگ چکی ہے۔
“جی بالکل۔” دانیہ نے ہاں میں ہاں ملائی۔

میم فرزانہ بتا رہی تھیں کہ
“میرے ایک واقف کار نوجوان ڈاکٹر ہیں جنہوں نے حال میں امریکہ سے میڈیکل کا ایک امتحان پاس کیا ہے۔ امتحان کی کامیابی کے لیے انہوں نے بہت زیادہ تیاری کی، دن رات محنت کی ، ساری سوشل ایکٹیویٹیز، سوشل میڈیا، دوست احباب، ملاقاتیں سب کچھ چھوڑ دیا اور اپنے آپ کو کچھ عرصہ مکمل طور پر صرف پڑھائی کے لئے وقف کئے رکھا۔
پہلے ان کا لگاتار 8 گھنٹے کا ایک آن لائن پیپر انٹرنیٹ پر ہوا۔ درمیان میں مختصر سی بریک تھی۔

پھر اگلے دن انہوں نے اسلام آباد جا کر دوسرا آن لائن پیپر دیا جو صبح آٹھ بجے سے شروع ہوا اور لگاتار 9 گھنٹوں تک جاری رہا۔ درمیان میں صرف آدھے گھنٹے کی بریک تھی اور اس میں بھی پیپر دینے والا کمرے سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔ یہ بڑا مشکل اور اعصاب شکن مرحلہ ہوتا ہے۔”
“جی بالکل۔ لیکن اتنا طویل پیپر اور اتنا مشکل طریقہ کار؟” دانیہ نے حیرت سے پوچھا۔

“جی ہاں۔ اور میڈیکل کے اس جامع پیپر کے بارے میں، میں یہ تفصیلات جان کر بس یہ سوچتی رہی کہ اگر اتنی محنت دین کے طلبہ دینی علوم کے حصول اور اس کی اشاعت کے لیے بھی کریں تو دین کو اس کا کتنا فائدہ ہوگا۔
اگر اتنے ذہین دماغ اور افراد دین کے لئے کام کریں تو کتنے مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔”
“جی بالکل۔” دانیہ نے کہا۔

“اسلامی دنیا کے معروف انڈین عالم دین ڈاکٹر ذاکر نائیک نے میڈیکل کی فیلڈ چھوڑ کر اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر لیا تھا تو اللہ تعالی نے انہیں کتنی عزت و احترام اور رفعت و عروج عطا فرمایا ہے۔

اگر وہ صرف میڈیکل ڈاکٹر ہوتے تو شاید اتنے عزت حاصل نہ کر سکتے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر لیا تو اللہ تعالی نے انہیں بے تحاشہ عزت و تکریم عطا فرمائی۔”

“جی بالکل۔ مجھے ان کے لیکچرز بہت زیادہ پسند ہیں اور میں ان کو بہت زیادہ توجہ اور دلچسپی سے سنتی ہوں۔” دانیہ نے بتایا۔

“اس کے علاوہ میرے علم میں کئی ذاتی مثالیں بھی ہیں جنہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر دنیا کو چھوڑا اور دین اختیار کیا تو اللہ تعالی نے انہیں دین میں بہترین مقام اور رفعت و سربلندی عطا فرمائی۔” میم فرزانہ نے بتایا۔
“جی ہاں۔” دانیہ بس تائید میں سر ہلا کر رہ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اگلے روز اپنی والدہ کے ساتھ پھر میم فرزانہ کے گھر میں موجود تھی۔ اب دانیہ کا قلب و ذہن کافی حد تک جامعہ میں داخلہ لینے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔

“یہ مدارس طلبہ و طالبات دونوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کر کے انہیں ملک و ملت کا مفید شہری اور امت مسلمہ کا نافع اور باعمل مسلمان بنانے کی سعی میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
الغرض جن مقاصد کے لیے یہ مدارس بنائے گئے ہیں، ان کو یہ احسن طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔” میم نے شدو مد سے دینی مدارس کا عملی کردار بیان کیا۔
“جی بالکل۔”دانیہ اور اس کی والدہ نے تائید کی۔

“جبکہ عصری تعلیم کے راستے میں مادہ پرستی اور دنیا داری غالب رہتی ہیں۔ لہذا ان کا کردار تو مثالی نہیں ہوتا۔ بلکہ آئے روز طلبہ اور نظام تعلیم کے نت نئے مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔ “
“جی ہاں۔”دانیہ نے کہا۔

“یہ مدارس معاشرہ کے لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتے ہیں، حلال و حرام، پاکی و ناپاکی، اور حق و باطل کی تمیز اور فرق سکھاتے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہیں، اپنی کاوشوں اور کارکردگی کی وجہ سے ملک و ملت کے ارتقاء کا سبب بنتے ہیں۔”میم فرزانہ نے دینی مدارس کا کردار مزید کھول کر بیان کیا۔
“جی ہاں۔” دینی اداروں مساجد و مدارس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں دین پر کچھ حد تک عمل اور نماز روزے کی پابندی نظر آتی ہے۔ ورنہ موبائل، کمپیوٹر، لیب ٹاپ، آئی فون، کیبل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسی چیزوں نے تو موبائل نسل کو وقت کی بربادی اور تباہی کی طرف مائل کیا ہوا ہے۔”دانیہ کی والدہ نے اپنی رائے بیان کی۔

“دراصل یہ تو ان چیزوں کے غلط استعمال کی وجہ سے ہے۔ اگر ان چیزوں کا درست استعمال کیا جائے تو یہ بھی دین کی اشاعت اور دینی تعلیم کے حصول اور فروغ کے لیے بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔” میم فرزانہ نے حقیقت بیان کی۔

“ان دینی مدارس میں صبح وشام دروس قرآن وسنت سے مسلمانوں کے دلوں کو ذکر الٰہی سے گرمایا اور آباد رکھا جاتا ہے۔ کسی جگہ کوئی عالم یا معلمہ خطاب کرنے کے لیے آئیں تو بہت سے لوگ دین کی باتیں سننے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن اگر اسی جگہ پر کوئی ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ یا سائینسدان کھڑے ہو کر خطاب کرنے لگے تو اس کی گفتگو کو سننے کے لیے ویسا جم غفیر اکٹھا نہیں ہوتا۔
یہ عین ممکن ہے کہ اگر آپ آج دنیاوی تعلیم کو قربان کرکے دینی تعلیم حاصل کریں تو کل مستقبل میں ڈاکٹرز، انجینئرز وغیرہ مختلف دینی مسائل کا حل معلوم کے لیے آپ سے استفادہ کر رہے ہوں۔” میم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“جی ان شاءاللہ۔”دانیہ کی والدہ نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔

“جی میم۔ میرا ذہن اب مطمئن ہو چکا ہے۔ میں اب دینی تعلیم حاصل کروں گی اور ساتھ پرائیویٹ طور پر آگے اپنی عصری تعلیم بھی جاری رکھوں گی ان شاء اللہ۔” دانیہ نے جوش وجذبے سے کہا۔
“ان شاءاللہ”میم فرزانہ نے بھی مسکراتے ہوئے خوشی سے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “دینی تعلیم کا حصول اور مدارس کی عظمتیں”

  1. Rafiah Avatar
    Rafiah

    بہت عمدہ اور موثر آرٹیکل ہے ماشاء اللہ