بادبان / عبید اللہ عابد
میجر جنرل ( ر ) اعجاز اعوان عمومی طور پر دنیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں بطور تجزیہ کار شریک ہوتے ہیں ۔ وہ زیادہ تر کامران شاہد کے پروگرام میں ہی ہوتے ہیں۔ آج تک یہ سمجھ نہ آسکی کہ وہ کس شعبہ کے تجزیہ کار ہیں ۔ دفاعی تجزیہ کار ہوں تو سمجھ آتی ہے ۔ یقینا انھیں دفاعی اور تزویراتی ( سٹریٹیجک ) معاملات کی خوب سمجھ بوجھ ہوگی، اس لئے انھیں دفاعی اور تزویراتی امور کا ماہر مانا جاسکتا ہے۔ تاہم وہ دیگر تمام امور پر زیادہ بولتےہیں جن کا دفاع سے دور دور تک کا تعلق نہیں ہوتا۔
اسی لئے کامران شاہد ہی کے ایک پروگرام میں میجر صاحب کی معروف اینکرپرسن ثنا بچہ کے ساتھ جھڑپ ہوئی ۔ ثنا بچہ نے صرف یہ پوچھا تھا کہ ” جنرل صاحب کا تعلق ( بقول جنرل صاحب ) پی ٹی آئی سے بھی نہیں ہے ، یہ کسی اور سیاسی گروہ کی نمائندگی بھی نہیں کررہے ، کیا یہ تاریخ دان ہیں ؟ کیا یہ تجزیہ کار ہیں ؟ کیا انھوں نے صحافت کی ہے ؟ کیا یہ کوئی کالم لکھتے رہے ہیں ؟ اگر یہ پروگرام میں آتے ہیں تو کسی نہ کسی کی نمائندگی کرتے ہی ہیں نا ، تحریک انصاف کی نمائندگی نہیں کرتے لیکن اس کا دفاع کرتے ہیں "۔ ثنابچہ کا کہنا تھا کہ ” ادارے کو ایک بندے کی تقرری کردینی چاہیے کہ میڈیا میں یہ ہمارا نمائندہ ہوگا ، مذاکرات کے لئے یہ ہمارا نمائندہ ہوگا ۔”
اس پر جنرل صاحب سیخ پا ہوئے۔ انھوں نے ایک نہایت بے تکا اعتراض کردیا کہ ” کیا آپ کے لائسنس ہے کہ آپ ہر موضوع پر بات کریں اور کوئی پڑھا لکھا ، ریٹائرڈ جرنیل ، جج ، ایڈووکیٹ کسی موضوع پر بات نہیں کرسکتا۔”
اس پر ثنابچہ نے کہا : ” وہ جس موضوع پر بات کرتی ہیں ، انھوں نے اس کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے ۔ لیکن میں دفاعی تجزیہ کار نہیں ہوں اور آپ صحافی نہیں ہیں۔ آپ تجزیہ کار نہیں ہیں۔ اگر آپ تجزیہ کار کے طور پر آتے ہیں تو کسی نہ کسی کا دفاع کرنے آتے ہیں۔ آپ کس کا دفاع کرنے آتے ہیں؟ "
اس پر جنرل صاحب کو کوئی جواب نہ سوجھا اور فرمانے لگے : ” بی بی ! مجھے آپ سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں "۔
اس پر ثنا بچہ نے کہا :”جنرل صاحب آپ کو حقائق سننے کا حوصلہ بھی رکھنا چاہیے ۔ میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ دفاع تجزیہ کار ہیں تو یہ بتائیے کہ آپ کس کا دفاع کررہے ہیں؟ میرا دفاع کررہے ہیں؟ عوام کا دفاع کررہے ہیں؟ ملکی سلامتی کے تجزیہ کار ہیں؟ صرف یہ بتادیں۔ میں تو دفاعی تجزیہ کار نہیں ہوں ۔ مجھے دفاع کے امور کا کچھ پتہ نہیں، آپ کو تو پتہ ہے ۔ تاہم آپ کا شعبہ سیاست نہیں ہے سر ! ہم نے سیاسیات کے موضوع کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔”
بس ! اس کے بعد جنرل صاحب کے سارے چراغ بجھ گئے۔ اب جنرل صاحب ثنابچہ سے شدید ناراض ہیں ۔ وہ کامران شاہد کے پروگرام میں ثنابچہ کے کسی سوال کا جواب دینے کے بجائے صرف یہی کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ آپ کون ہوتی ہیں مجھ سے سوال کرنے والی؟ مجھ سے بات مت کیا کریں۔ اس واقعے کا تذکرہ اس لئے کیا کہ پڑھنے والوں کو معلوم ہو کہ جنرل صاحب کس قدر جلد غضب ناک ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کامران شاہد ہی کے پروگرام میں جنرل صاحب کی سینیٹر افنان اللہ خان سے جھڑپ ہوئی ۔ سینیٹر مشاہداللہ خان کے بیٹے کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے ہیں۔ افنان اللہ خان نے جنرل صاحب پر ارب پتی ہونے اور بھاری بھرکم ٹھیکے لینے کا الزام عائد کیا۔ اس پر جنرل صاحب اس قدر غصے میں آئے کہ انھوں نے پروگرام میں موجود ایک خاتون زرتاج گل کی موجودگی کے باوجود غلیظ گالیاں دیں۔ اس قدر غلیظ گالیاں کہ یوٹیوب پر موجود ویڈیوز میں بھی انھیں نشر نہیں کیا جاسکا۔ حالانکہ یوٹیوب پر بعض اوقات وہ سب کچھ بھی اپ لوڈ ہوتا ہے جو عمومی طور پر نہیں ہوسکتا۔
اس پر کامران شاہد نے بھی جنرل صاحب کے لیے دیانت داری کے لیے کئی ایک سرٹیفکیٹ جاری کردیے۔ واضح رہے کہ کامران شاہد اپنے اکثر پروگرامات میں عمران خان کے لئے ایمان داری کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے رہتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ابھی تک ناپختہ اینکر پرسن ہیں ۔ انھیں علم نہیں کہ اینکرپرسن پارٹی نہیں بنتا ۔ اگر آپ نے کسی کو دیانت داری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے ہیں تو پھر عدالت لگا لیں ، ٹی وی پروگرام نہیں۔ ان کے اس طرز عمل پر بزرگ سیاست دان جاوید ہاشمی معترض ہوئے۔
انھوں نے ایک ویڈیو میں اداکار شاہد کے بیٹے پر تنقید کی کہ وہ ریٹائرڈ جرنیلوں کو اپنے پروگرامات میں بٹھا کر ان کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں اور وہ ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے وکیل بن جاتے ہیں۔ انھوں نے کامران شاہد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : ” آپ جن کی تعریفیں کرتے ہو ان کی جائیداد ، ان کے بچوں کی جائیدادیں دنیا کو ایک مرتبہ دکھا تو دو میں تمہاری بیعت کرلوں گا۔ "
انھوں نے کہا کہ آپ ریٹائرڈ جرنیلوں کو دفاعی تجزیہ کار کے طور پر بلائیں لیکن وہ معاشیات ، خارجہ پالیسی اور سیاست کے معاملات پر کیسے بات کر سکتے ہیں؟ جاوید ہاشمی نے کامران شاہد کے اس طرزعمل کی مذمت بھی کی کہ انھوں نے سینیٹر افنان اللہ خان کا مائیک بند کردیا جبکہ وہ جنرل اعجاز اعوان کو جواب دینا چاہتے تھے۔
جاوید ہاشمی کے اس موقف کے جواب میں کامران شاہد ایک بار پھر ریٹائرڈ میجر جنرل صاحب کے وکیل بن گئے اور ان کے خلاف ثبوت مانگنے لگے۔ اس پر جاوید ہاشمی نے کہا کہ پیارے کامران شاہد ! آپ ریٹائرڈ جرنیلوں کو دفاعی تجزیہ کار کے بہروپ میں بلاتے ہو ، جو سیاست دانوں کی تضحیک کرتے ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ میجر جنرل اعجاز اعوان نے کون سی جنگ جیتی ہے؟ انھیں شو میں بلانے سے پہلے اس بات کو یقینی بنا لیا کرو کہ کیا انھوں نے اپنی اور بچوں کے اثاثے ظاہر کیے ہوئے ہیں۔
ردعمل کے طور پر میجر جنرل اعجاز اعوان نے جاوید ہاشمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے تمام وسائل استعمال میں لائیں ، میرے ، میری بیوی اور بیٹی کے آمدن سے زیادہ اثاثے ثابت کریں۔ اگر ایف بی آر کے ریکارڈ سے ہٹ کر میرے اثاثے ہوئے ، بنک اکائونٹ میں ایسی کوئی دولت ہوئی ، حکومت یا کسی سیاست دان سے ٹھیکے یا فائدہ حاصل کیا ہوا ہو ، میں اس کی ذمہ داری قبول کروں گا۔ میں اپنے وعدے پر پکا رہوں گا۔
جاوید ہاشمی نے میجر جنرل اعجاز اعوان سے کہا : آپ نے ٹی وی شو میں سینیٹر افنان اللہ خان کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا۔ جہاں تک آپ کے اثاثوں کی بات ہے ، میں صرف آپ کی یا کسی ایک فوجی افسر کی بات نہیں کررہا ہوں، میرا کہنا ہے کہ ہر فرد کو چاہے وہ سیاست دان ہو ، سیاست دان ہو یا بیورو کریٹ ہو ، اسے سیاست میں آنے سے پہلے اپنے اثاثے ظاہر کرنے چاہئیں۔”
اس پر میجر جنرل اعجاز اعوان نے کہا : ” جاوید ہاشمی ! تم سید زادے نہیں ، الو کے پٹھے ہو ، جو مجھے کہا تم نے ۔ شیطان کی وکالت کر رہے ہو ۔ مزدور کا بیٹا تعلیم کے لئے لندن تعلیم کے لئے گیا۔ یہ معجزہ سیاست ہی میں ہوتا ہے ۔ بکواس کرتے ہو ۔ میرے اور میری اولاد کے خلاف کسی عدالت میں مقدمہ لائو اگر غیرت ہے تو ۔ تمہارا سامنا کروں گا۔”
اس کا جواب جاوید ہاشمی نے یوں دیا : ” جنرل اعجاز آپ کی اصلیت کھل کر سامنے آگئی ہے، آپ لوگوں کو سخت بات کرنا آتی ہے، سننا برداشت نہیں، یہ قوم آپ کی غلام نہیں ہے . آپ اپنے اور آپ کے ساتھی جو دفاعی تجزیہ کاری کی بجائے ، سیاست اور سیاست دانوں کو گالی دیتے ہیں، ان کے اثاثے ڈکلیر کریں۔ قوم جلد آپ سے حساب لے گی۔”
اس کے بعد میجر جنرل اعجاز اعوان نے اپنی وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی جس میں جاوید ہاشمی کو الو کے پٹھے کہا تھا۔ اور ایک ٹویٹ کی : جاوید ھاشمی صاحب آپ سے زندگی میں ملاقات نہ اختلاف ۔ اگرچہ گالی کی ابتدا آپ نے کی مگر آج نماز کے لئے اٹھا تو درود پاک پڑھتے ہوئے ندامت ہوئی ۔ آپ ھاشمی سید ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں “ صرف اس لیے “ آپ سے معافی مانگ رہا ہوں” — اللہ اور اللہ کا رسول بھی معاف فرمائے ۔ سلام یا رسول اللہ”
سوشل میڈیا پر صارفین نے میجر جنرل اعجاز اعوان کی گالیوں والی ٹویٹ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ پھر انھوں نے اعجاز اعوان کی معافی والی ٹویٹ کو بھی مسترد کردیا۔ انھوں نے میجر جنرل کے الفاظ : آپ ہاشمی سید ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں پر شدید اعتراض کیا ۔ صارفین کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ میجر جنرل کی معافی میں بھی اکڑ نہیں گئی۔
رہی بات کامران شاہد کی ، دوران پروگرام بعض اوقات وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو اینکر پرسن کو زیب نہیں دیتیں۔ مثلا فرسٹریشن کا شکار ہونا ، کسی ایک مہمان کی گفتگو کے ردعمل میں منہ بنا کر ، ریوالونگ چئیر پر ٹیک لگا کر اسے گھماتے رہنا ۔ انھیں سیکھنا چاہیے کہ میچور اینکر پرسن کیسے ہوتے ہیں؟ ان کا طرز عمل کیسا ہوتا ہے؟