مسلمان خاتون قرآن مجید پڑھتے ہوئے

تربیت اولاد لمحہ آخر تک

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ام محمد عبداللہ

یہ ان کی آخری عیدالاضحی تھی ۔ میری ان سے فون پر بات ہوئی۔ وہ منتظر تھیں کہ میں جلد سے جلد ان سے عید ملنے آٶں۔ خواہش تو میری بھی یہی تھی لیکن ذوالحج کا مبارک مہینہ ملاقات کے بغیر ہی گزر گیا۔ ان سے فون پر بات ہوتی ۔ وہ کہتیں ہمارے یہاں ایک یتیم بچی کی شادی ہے ، تمہارے شادی کے کپڑے ابھی تک رکھے ہیں ، اس مرتبہ ساتھ لیتی آٶ ، اس بچی کا کام بن جائے گا۔

جی امی”۔ میں سعادت مندی سے کہتی اور بیگ میں بھاری کام والے کپڑے بھی تہہ کر کے رکھ لیے۔ پھر فون پر بات ہوئی . اب کے انہیں” اپنی کام والی کی چند ماہ کی بچی کی فکر تھی۔ تمہارے بچوں کے پرانے کمبل اور گرم سویٹرز کسی کے کام آجائیں تو کیسا اچھا ہو؟ وہ مجھے ترغیب دلاتیں۔ میرے بیگ میں بچوں کے کپڑوں کا اضافہ ہو جاتا۔

ذوالحج گزر گیا۔ محرم آن پہنچا۔ اللہ اللہ کر کے ہمارا امی جان کے پاس جانے کا پروگرام بن ہی گیا۔ میں نے جب امی جان کے گھر میں قدم رکھا تو خوشی سے نہال تھی۔ وہ کمرے میں اپنے پلنگ پر بیٹھی تھیں۔ میں نے فرط محبت سے اپنے بازوں کا گھیرا ان کے مہربان وجود کے گرد بنا لیا۔

وہ سر پر پٹی باندھے بیٹھی تھیں۔ ” میری پیاری امی” میں کہتی جاتی تھی اور وہ خوشی سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ مجھے، میرے شوہر اور بچوں کو انہوں نے فرداً فرداً توجہ دی۔ ان کے سر میں درد تھا۔ بخار بھی تھا۔ گھر والے انہیں ہسپتال لے جانا چاہتے تھے لیکن وہ فکر مند تھیں میرے اور میرے بچوں کے لیے۔

وہ مجھ سے پوچھ رہی تھیں۔ بچوں نے کھانا کھایا؟؟ کام والی کی بچی صبح سے رو رہی ہے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں شاید۔ اسے ڈاکٹر کی فیس اور دوا کی رقم انہوں نے اپنے ہاتھوں سے دی۔ انہیں سب کی فکر تھی۔ وہ خود کچھ کھا پی نہیں رہی تھیں۔ ہاں لیکن شہد سنت رسولؐ کے اتباع کے شوق میں انہوں نے عقیدت سے لے لیا۔

انہیں ہسپتال لے جائے گیا۔ ہمیں اندازہ بھی نہ ہوا اور وہ آئی سی یو میں منتقل کر دی گئیں۔ میں ان سے ملنے گئی۔ وہ بیڈ پر بیٹھی تھیں۔ ” امی ! ڈاکٹرز یہاں رکنے نہیں دے رہے۔ میں باہر جاتی ہوں۔ ” میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر پیار کیا۔ اللہ کے حوالے انہوں نے ہاتھ اٹھا کر میری جانب دیکھا اور میں آئی سی یو سے باہر آگئی۔ ہاں یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔ جس میں وہ مجھے اللہ تعالی کے سپرد کر گئیں۔

انہیں جب ایمبولینس میں گھر لایا گیا تو ان کی نصیحتیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں: ”ہم سب نے مرنا ہے۔ دیکھو میری میت پر رونا چیخنا چلانا نہیں، کوئی غیر شرعی کام نہ کرنا، میری مغفرت کی دعا اور قبر کے سوالوں جوابوں پر میرے ثابت قدم رہنے کی دعا کرنا۔ میری میت کو تم بہنیں خود مل کر غسل دینا“

میں آج تک حیران ہوں اتنی شدید بیماری میں بھی میری ماں کا لباس صاف ستھرا اور نکھرا ہوا تھا۔کہیں ذرہ برابر میل نہ تھی۔ ناخن تراشے ہوئے اور بال سنورے ہوئے تھے۔

آنسو آنکھوں سے گر رہے تھے۔ دعائے مغفرت زبان و دل پر جاری تھی۔ مگر مجھے مجال نہیں تھی کہ کوئی آہ سسکی یا فریاد لبوں تک آتی۔ میری صبر والی ماں کی مجھے صبر کی نصیحت تھی۔

میں پلٹ کر اپنی ماں کے بارے میں سوچتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں . اتنی خوبیوں والی ہستی ہمارے درمیان تھی اور اب نہیں ہے۔
اپنے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے گھر میں موجود مولانا مودودی کی قرآن پاک کی تفسیر پڑھنے لگی تھیں۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگیں : مجھے ڈر لگتا ہے روز قیامت یہ کتابیں اللہ سے فریاد کریں گی اس گھر میں ہم موجود تھیں اور کسی نے ہمیں پڑھا نہیں۔

جوڑوں میں تکلیف کے باعث چلنے میں دقت ہوتی تھی اس کے باوجود قرآن پاک کی تجوید کی کلاس کے لیے بہت شوق اور اہتمام سے چل کر جاتیں۔ بچوں کی طرح رنگ برنگے مارکروں سے کاپی میں سبق لکھتی اور یاد کرتیں۔ درود شریف اور استغفار پڑھنے میں ہر وقت مشغول رہتیں۔ گھر کے ہر کام ، سینے پرونے اون سویٹرز بنانے اور باغبانی میں ہر وقت خود کو مصروف رکھتیں۔

ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد گھر گئی تو ابا جان پوچھنے لگے۔ تم نے اپنی امی کو کوئی قرض دے رکھا تھا؟ امی پر اور میرا قرض میں نے آزردگی سے سوچا۔ میرا تو بال بال ان کا مقروض ہے ابو میں رو پڑی۔ ابو نے ایک لفافہ میرے سامنے کیا۔ اس پر میرا نام لکھا تھا۔ لفافے کے اندر پیسوں کے ساتھ بھی ایک چٹ پر میرا نام تھا۔ میں دیکھ کر حیران رہ گئی۔ امی اس قدر محتاط تھیں۔

میں کبھی کبھار اپنی بچت امی کے پاس رکھوا دیا کرتی تھی۔ جس کا میرے اور امی کے سوا کسی کو علم نہیں تھا۔ اور وہ امانت امی نے یوں محفوظ کر رکھی تھی۔ ابو جان بتانے لگے امی کے پرس میں سب پیسوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی چٹیں رکھی تھیں۔ یہ پیسے ملازمہ کے ہیں۔ یہ مسجد میں دینے ہیں۔ یہ گھر کے خرچ کے ہیں۔ یہ صدقہ و خیرات کے اور اسی طرح جو ہم بہنوں کے تھے وہ الگ الگ نام لکھے لفافوں میں پڑے تھے۔

اپنے مال کے ایک تہائی حصے پر وصیت کا شرعی حق استعمال کرتے ہوئے بنا کسی کو ناراض کیے انہوں نے اپنا زیور اپنی دو نواسیوں کو دینے کی وصیت بھی کی ہوئی تھی۔

اپنی ذاتی استعمال کی بیشتر چیزیں وہ اپنی زندگی میں ہی خیرات کر گئی تھیں فقط چند جوڑے کپڑوں کے ہم بہنوں کے لیے الماری میں موجود تھے۔ جن کے متعلق ہدایت یہ تھی کہ ہم انہیں اپنے ناپ پر کر کے پہنیں اور ان میں نماز ادا کریں۔

آج ان کو بچھڑے قریبا تین برس کا عرصہ گزر گیا ہے۔ میری کوئی چادر اور دوپٹہ ایسا نہیں جس پر ان کے ہاتھ کا کروشیا نہ بنا ہو۔ میرے بچے اب بھی ان کی بنی ہوئی سویٹر اور ٹوپیاں پہن رہے ہیں۔ میری آنکھیں اب بھی ان کی یاد میں آنسوٶں سے بھر جاتی ہیں لیکن لب نہیں ہلتے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہمیں صبر اور شکر کا سبق پڑھایا تھا۔

اور ہاں
طلب علم، پاکیزگی، دوسروں کی ضرورتوں کا خیال اور امانتوں کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے یہ وہ اسباق ہیں جو ان کی آخری سانسیں مجھے پڑھا گئیں۔ بے شک میں نے اپنی ماں کی زندگی سے بھی بہت کچھ سیکھا اور ان کا وقت آخر بھی نیکی کی راہ پر میری تربیت کرنے والا تھا۔

اب جبکہ ان کی یاد ستاتی ہے تو ایک سوال شدت سے چھبنے لگتا ہے کیا
میں اپنی زندگی اور اپنی موت سے اپنے بچوں کو ایسا کچھ سکھا پاٶں گی؟؟؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “تربیت اولاد لمحہ آخر تک”

  1. زبیدہ روف Avatar
    زبیدہ روف

    بہت اچھی اور جذبات سے بھر پور تحریر ھے۔ یقیننا آپ کی والدہ جنت الفردوس میں جگہ پائیں گی۔