زارا ثمین
عالیہ نے ہوم ورک مکمل کرکے رجسٹر بند کیا اور صبح کیلئے بیگ تیار کر کے رکھا۔ گھڑی کی طرف دیکھا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ ابھی سونے کے لیے لیٹنے ہی لگی تھی کہ یاد آیا کہ صبح کے لیے یونیفارم نہیں دھلا ہوا ۔ اس نے ایک آہ بھری اور کپڑے دھونے کے لیے چلی گئی۔ کپڑے دھونے کے بعد وہ کمرے میں آئی تو نہایت تھک چکی تھی۔ اصولی طور پر تو اتنی تھکن کے بعد اسے سو جانا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
عالیہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے والد ایک سرکاری ملازم تھے۔ وہ اپنے گھر میں سب سے بڑی تھی اور دسویں جماعت کی طالبہ تھی۔ اس سے چھوٹی بہن بریرہ آٹھویں اور بھائی معاذ پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ عالیہ نسبتاً ایک حساس لڑکی تھی۔ اسے ذرا ذرا سی بات پر غور وفکر کرنے کی عادت تھی۔
سوچتے سوچتے کب نیند اس پر مہربان ہوگئی کہ اسے پتا بھی نہیں چلا۔ صبح اٹھی تو ناشتے کی میز پر سب جمع تھے۔ اچانک عالیہ بولی کہ ابو جان آپ پینٹ شرٹ کیوں نہیں پہنتے؟” بیٹا !شلوار قمیض ہمارا لباس ہے اور اسے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے "، عالیہ کے ابو نے جواب دیا۔
لیکن ابو جان۔۔۔ "
عالیہ بیٹا ابو کو ناشتہ کرنے دو۔ باتیں بعد کرنا ” عالیہ کی امی بولیں۔
اسکول کا وقت ہونے لگا تھا اس لیے وہ معاذ اور بریرہ کے ساتھ اسکول چلی گئی ۔ اسکول جاتے ہوئے راستے میں انہوں نے دیکھا کہ کچھ لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی جیسے کپڑے زیب تن کیے جارہے تھے ۔ بے باکی کا یہ عام مظاہرہ دیکھ کر انہوں نے وہاں سے تیزی سے گزر جانا ہی مناسب جانا۔
ابھی اسمبلی کی گھنٹی بجنے میں وقت تھا اور تمام طالبات خوش گپیوں میں مصروف تھیں جبکہ کچھ اپنا سبق دہرا رہی تھیں۔ اچانک اس کے کانوں میں آواز پڑی : کیا تم نے لکس سٹائل ایوارڈز دیکھے تھے۔” ارے ہاں علیزے شاہ کی آف شولڈر میکسی تو بہت ہی پیاری تھی”، کسی کی آواز ابھری ۔” اور سارے گانے اور ڈانس کتنے اچھے تھے نا "، ارم بولی۔ پھر گردن موڑ کر بولی "عالیہ تمہیں کس کی ڈریسنگ سب سے اچھی لگی ؟” "ااں میں نے نہیں دیکھا شو "، اس نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔ لیکن کیوں؟ "میں پڑھ رہی تھی”، اس نے جواب دیا۔ اتنے میں گھنٹی بجی اور سب اسمبلی گراؤنڈ میں چلے گئے۔
چھٹی کے وقت معاذ کو لینے اس کی کلاس میں گئی تو اس نے غیر ارادی طور پر دوسرے بچوں سے اس کا موازنہ کیا . معاذ ٹائی کے بغیر اور پینٹ ٹخنوں سے اوپر موڑے ہوئے اسے کہیں سے بھی اس کلاس کا حصہ نہ لگا۔ گھر آکر بھی وہ شدید اضطراب میں مبتلا رہی۔ وہ اس بات کو لے کر بے حد پریشان تھی کہ کیوں وہ ہی سب سے الگ ہیں۔ اس نے آج کتنی مشکل سے خود کو کلاس میں شرمندگی سے بچایا تھا جبکہ درحقیقت اس کے گھر میں ٹی وی تھا ہی نہیں ۔ تمام باتوں کو سوچتے ہوئے وہ سو گئی۔ اگلے دن اس کی خالہ کافی عرصے بعد امریکہ سے آرہی تھیں۔سب بہت خوش تھے سوائے عالیہ کے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اب اس کی خالہ کے سامنے بھی انہیں شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔
کچھ ہی دیر میں ساجدہ خاتون اور ان کے بچے گھر آگئے۔ وہ عالیہ کی توقعات پر کہیں سے بھی پورا نہیں اتر رہے تھے۔ ساجدہ خاتون اور ان کی بیٹی فاطمہ نے برقع پہنا ہوا تھا جبکہ بارہ سالہ اویس بھی شلوار قمیض میں معصوم لگ رہا تھا۔ سلام دعا اور ملنے کے بعد سب نے کھانا کھایا اور آرام کرنے لگے۔
شام کا وقت تھا عالیہ چائے بنا کر کپوں میں ڈال رہی تھی کہ اس کی خالہ کچن میں داخل ہوئیں اور عالیہ کے پاس آگئیں۔ ” خالہ آپ یہاں ….. مجھے بلا لیا ہوتا”، وہ ادب سے بولی۔ "نہیں نہیں بیٹا! میں ویسے ہی کمرے میں بور ہو رہی تھی اس لیے یہاں آگئی”،۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔” خالہ جان! آپ سے ایک بات پوچھوں آپ برا تو نہیں مانیں گی؟” اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔ "نہیں ! خالہ کی جان !! تم پوچھو کیا پوچھنا چاہتی ہو” انہوں نے نرمی سے اس کی ہچکچاہٹ دور کی۔ وہ بولی” خالہ آپ تو امریکہ میں رہتی ہیں پھر بھی آپ حجاب کرتی ہیں اور فاطمہ بتا رہی تھی کہ آپ کے گھر بھی ٹی وی نہیں تو کیا آپ کو اپنا آپ سب سے عجیب اور مس فٹ نہیں لگتا؟”
"دیکھو بیٹا! اسلام ایک منفرد دین ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اس کے پیروکار انفرادیت نہ رکھتے ہوں۔ اور ۔۔
ابھی وہ بول ہی رہی تھیں کہ عالیہ کی امی کی آواز آئی ” عالی چائے بنی نہیں اب تک؟” اوہ!” اس نے سر پہ ہاتھ مارا ، وہ تو بھول ہی گئی تھی۔
رات کو وہ ، فاطمہ اور بریرہ لڈو کھیل رہے تھے تو ساجدہ خاتون کمرے میں آئیں اور بولیں کہ یہ دیکھو میں کیا لائی ہوں ۔ فاطمہ مسکرانے لگی اور بریرہ اور عالیہ خالہ کو استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔ خالہ نے شاپر میں سے دو پیکٹ نکالے جس میں دو نہایت خوبصورت اور قیمتی سکارف پیک تھے ۔ عالیہ کے پیکٹ میں سے ایک کارڈ نکلا جس پر لکھا تھا
” یہی اجنبی پن تو اسلام ہے ، سلام ہو ان اجنبیوں پر "
عالیہ کو اس کے تمام سوالات کا جواب مل گیا تھا۔ فرطِ جذبات میں اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور وہ اپنی خالہ کے گلے لگ گئی۔
ایک تبصرہ برائے “اجنبی”
بہت موثر تحریر اور اچھا موضوع ھے مگر کچھ مختصر ھے ، class difference بہت بڑا مسئلہ ھے خاص کر کچے ذہنوں کے لئے۔۔۔