معاشرہ

سماجی ذمہ داری کا نظریہ اور ذرائع ابلاغ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ ملک ، شعبہ ابلاغ عامہ ، جامعہ کراچی

[email protected]

جو ڈر گیا وہ مر گیا ، کھالے پی لے جی لے ، داغ تو اچھے ہوتے ہیں ، داغ نہیں تو سیکھنا نہیں ، جسٹ ڈو اٹ ، مزہ ہے زندگی ، سب کہہ دو ، تم ہی تو ہو ، سپر ہے زندگی وغیرہ …… یہ سب وہ جملے ہیں جنھیں ہم نہ چاہتے ہوئے بھی آئے روز ذہنوں میں دہراتے ہیں ۔ لاشعور میں جانے سے پہلے ہی اسے دوبارہ شعور کی دنیا میں لے آتے ہیں۔

سماجی ذمہ داری کا نظریہ

جان ملٹن اور اس کے ہم عصروں کی مسلسل اور سخت جدوجہد کے بعد معاشرے اور حکومتی حلقوں میں ان اصولوں کی روشنی میں کارفرمائی شروع ہوئی . جس کے مطابق انہوں نے کچھ معاملات طے کئے

1.اچهی حکومت لوگوں کے کم معاملات پر حکومت کرے

2 . لوگوں پر بھروسہ کیا جائے

3.عام طور پر لوگ صحیح فیصلہ کر لیتے ہیں.

ان اختیارات کے بعد اخبارات و جرائد نے آزادی حق کا بے جا استعمال شروع کر دیا . بعض اخبارات آزادی اظہار کاغلط ، منفی اور پرفریب استعمال بهی کرنے لگے . جیسا ہمارے معاشرے میں آئے روز عوام ان نقصانات کی ضرر رسانیوں سے متاثر ہوتے رہتے ہیں.

بیسویں صدی کے آخر تک ذرائع ابلاغ اس نظریے کی شقوں کے غلط اور آزادانہ استعمال کی بدولت اپنے عوام کو سب کچھ دکهانے اور منفی پروپیگنڈے ، سچ کو جهوٹ کی آمیزش کے ساتھ پیش کرنے پر بھی کسی جواب دہی کے پابند نہیں ہوتے تهے . بیسویں صدی کے اہم واقعات میں چاند پر زندگی کی خلائی مخلوق کے متعلق جهوٹے واقعات ، جنگ کے متعلق جهوٹی افواہیں ، یلوکڈ کارٹون وغیرہ شامل ہیں.

اس سمت میں کسی ملک کی حکومت کسی وزیر کسی حکومتی سطح پر براہ راست ذرائع ابلاغ پر کوئی بات کرنا ، کوئی شق ، کوئی حکومتی بیان کسی نئےمسئلے کو دعوت دینے کے مترادف تها . اسی لیے ایک نجی ادارے ٹائم ان کارپوریٹ کی فراہم کردہ رقم سے 1942 میں ایک کمیشن قائم کیا گیا . جس نے 47ء تک کام کیا.اسے ہچسن کمیشن فریڈم آف دی پریس (Hutchins Commission on Freedom of the Press)کہتے ہیں.

کمیشن نے پانچ سال کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی . ابهی تک امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک بشمول اسلامی آزاد ممالک اور پاکستان میں بهی اسی رپورٹ کو بنیاد بناکر تمام ذرائع ابلاغ کے متعلق قانون سازی کی جاتی ہے . رپورٹ کے نکات مندرجہ ذیل ہیں.

1 . ذرائع ابلاغ پر معاشرے کی طرف سے ذمہ داریاں عائدہوتی ہے . ان کی ملکیت کسی تجارت کی طرح نہیں ہوتی . عوام کے اعتماد پر پورا اترناضروری ہے.

2.خبری ذرائع ابلاغ کو صادق ، بالکل درست ، سب کے ساتھ مساوی سلوک کا حامل ، غیرجانبدار اور معاشرے کے جملہ حالات کے مساوی ہوناچاہیے.

3.ذرائع ابلاغ کو آزاد ہونا چاہیے ، معاشرے کی خدمت کے لئے نظم کا پابند ہونا چاہیے.

4 . ذرائع ابلاغ کو اخلاقی اصولوں اور پیشہ ورانہ قوائدکےمتفقہ ضابطوں پر عمل کرناچاہیے.

5.عوامی مفادات حفاظت کیلئے حکومت کو ذرائع ابلاغ کے معاملات میں مداخلت کرنی پڑسکتی ہے.

6.ذرائع ابلاغ کا اہم کام یہ ہےکہ خود کوتبصرے و تنقید کے لئے ایک پلیٹ فارم سمجهیں تاکہ انہیں عوام کے تمام حلقوں کےمفادات کامحافظ سمجها جائے.

7.ابلاغی ادارے معاشرے کے اقدار و روایات کو لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ ہونے دیں.

8.ابلاغی ادارے وہ ہوں جو معاشرے کے تمام حالات کی نمائندہ تصویروں کو سامنے پیش کریں . ان کی فراہم کردہ معلومات و اطلاعات سیاق و سباق کےساتھ مکمل ہوں.

9.ذرائع ابلاغ کو معاشرے کے خاص خاص پہلوؤں کو اجاگر کرتے رہنا چاہیے تاکہ لوگ ان کے حصول کی جدوجہد سے غافل نہ ہوجائیں اور مل جل کر عظیم برادریاں پیدا کرسکیں .

10.ذرائع ابلاغ کو سنسنی خیزی اور خبروں میں ادارتی رائے زنی سے اجتناب کرناچاہیئے .
11۔ جرائم ، تشدد ، بدامنی ،اقلیتوں کے خلاف اقدامات کی بیخ کنی ہوتی ہے.

12.بڑے ابلاغی اداروں کومعاشرےکے چهوٹے گروہوں کو بڑے گروہوں کے ظلم اور نفرت انگیز پروپیگنڈہ کے تدارک کے لئے ٹیلی ویژن پر وقت فراہم کیا جانا چاہئے . تاکہ یہ گروہ بهی اپنا نقطہ نظر پیش کرسکیں.

یہ ہچسن کمیشن کی وہ رپورٹ تهی جس کی روشنی میں یورپی ممالک میں آج تک سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے . یہ بات شاید ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ کا خود اپنے ملک اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے متعلق الگ نظریہ ہے . ان کی اپنے شہریوں کے لئے پیش کی جانے والی تمام خبریں ، پروگرام ، ریئلٹی شوز ، ڈرامے ان تمام اطلاعات و معلومات سے قطعاً مختلف ہوتی ہیں جو وہ دنیا کے پیشتر ممالک میں اپنی ابلاغی اداروں کے ذریعے پہنچاتے ہیں.

یورپ کے بیشتر ممالک میں یہی فلاسفی استعمال کی جاتی ہے . خود برطانیہ میں اپنے شہریوں کو پر تشدد واقعات اور سنسنی خیز خبروں سے دور رکها جاتا ہے.

اب ہم پاکستانی معاشرے کی جانب چلتے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں . پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا . اس وقت سے لیکر اب تک یہ خطہ ارض جس طرح طاغوتی طاقتوں کی آنکهوں میں کهٹک رہا ہے ہر صاحب بصیرت اس سے اچهی طرح واقف ہوگا . وہ سازشیں ، وہ ایجنڈے ، وہ قانون ، وہ بین الاقوامی منظر نامے جن کو پاکستان پہلے دن سے بهگت رہاہے سب کے سامنے ہیں .

ہمارے ابلاغی اداروں چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہوں یا اعلیٰ اداروں کے سربراہ سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان میں کس کا حکم چلتا ہے . یہ دیس تو لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تها اور بنانے والے نےبهی اپنی جانب سے حتی الامکان کوشش کی کہ یہ ملک دشمن عناصر کے ہاتهوں میں نہ چلاجائے لیکن انتقال سے کچھ دن قبل بانی قوم قائداعظم محمد علی جناح کا یہ بیان کہ "میری جیب میں کهوٹے سکے ہیں "بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے .

کس طرح سازش کے تحت انتقال کے تین سال گزر جانے کے باوجود فاطمہ جناح کو عوام سے دور رکها گیا ، کس طرح لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا ، کس طرح قاتل کو اسی وقت مار دیا گیا ، کس طرح ملک دشمن عناصر برسر اقتدار آگئے اور آج تک ملک کو کها رہے ہیں سب جانتے ہیں .

ان حالات کے بعد 65 کی جنگ میں رات کی تاریکی میں دشمن کا وار قوم کے جیالوں نے حب الوطنی اور محبت و یگانگت کی رہی سہی رمق کے ساتھ سہہ لیا . پھر دشمن پر وہ جوابی وار کیا کہ وہ شکست خوردہ اپنی بیرکوں میں واپس چلا گیا اور ہم آرام سے بیٹهے رہے بلکہ یوں کہنا بے جانا ہوگا کہ ہمیں لوری دے کر سلا دیا گیا.

اسی دوران جب مشرقی پاکستان میں شورش برپا تهی مغربی پاکستان کا مسلمان بےخبر اپنی زندگی میں گم تها . سوائے جماعت اسلامی کے کوئی ایسی جماعت تاریخ میں نظر نہیں آتی جس نے عوام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے اپنا حصہ ڈالا ہو . مسلم لیگ صرف پنجاب ، پیپلز پارٹی صرف سندھ میں فعال تهی .

صرف یہ جماعت اسلامی تهی جس کے کارکنان بیک وقت مشرقی اور مغربی پاکستان میں فعال تهے . سیلابوں کی سرزمین پر جب سیلاب آتے تو یہی کارکنان فلڈ ریلیف فنڈ لینے نکل پڑتے ، یہی لوگ دن رات فنڈ اکٹھا کرکے مشرقی پاکستان میں پہنچاتے . اس وقت بهی ذرائع ابلاغ نے اپنی کوئی خدمت انجام نہ دی . ہماری پروفیسر بتاتی ہیں ہماری جوانی میں ہمیں بنگال کے پی ٹی وی پروگراموں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا کہ وہاں صرف ناچ گانا ہوتا ہے .

بالآخر سازش کامیاب ہوگئی . ہم اپنے ملکی ذرائع ابلاغ کے سبب با آسانی جنگ ہار گئے .90000 ہزار فوج نے ہتهیار ڈال دیئے .۔ یوں دشمن نے نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبو دیا . اس وقت ذرائع ابلاغ کی بنیادی ذمہ داری یہی تهی کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی ترجمانی کرتا . چاہے اخبارات ہوں یا برقی ابلاغ , معاشرے کا باشعور طبقہ سازشوں کا شکار ہوگیا .

آج ہم یہی شورش و سازش بلوچستان میں دیکھتے ہیں . ابلاغی اداروں کا اہم فرض ہے کہ وہ معاشرتی اقدار کو لوگوں کے ذہنوں سے محونہ ہونے دیں . آج کل کے ابلاغی ادارے معاشرے کی اقدار و روایات کا جس قدر جنازہ نکال رہے ہیں میں اور آپ اس سے بخوبی واقف ہیں . مارننگ شوز کے نام پر حیاسوز حرکتیں تمام چینل سے براہ راست نشر کی جاتی ہیں . پرنٹ میڈیا بهی کسی سے پیچھے نہیں بہت سے اخبارات میں مدر ڈے ، فادر ڈے ، ٹیچر ڈے ، بسنت ، ویلنٹائن ڈے ، ہیلووین ڈے اور بلیک فرائیڈے پر خصوصی ایڈیشن شائع کئے جاتے ہیں.

جہاں تک خبری اطلاعات درست و سیاق وسباق کے ساتھ پیش کرنے کا معاملہ ہے ، ایسا لگتاہے کہ ہمارا میڈیا کسی ضابطہ کا پابند نہیں ہے . خبروں کی سنسنی خیزی ،اس کے درست , غلط ہونے سے پہلے ہی اتنی بات کرلی جاتی ہے کہ معاشرے کے افراد میں حساسیت رفتہ رفتہ کم ہوتی جارہی ہے اور اس کی جگہ بے حسی نے لے لی ہے.

تشدد کی بیخ کنی کی شق بھی ہمارے ابلاغی اداروں اور پروگرام بنانے والے افراد کی پالسیوں سے کوسوں دور ہے . ہمارے محترم استادڈاکٹر اسامہ شفیق کے مطابق گھریلو تشدد ، ساس بہو سے جهگڑے ، میاں بیوی میں ناچاقی اس تواتر سے دکهائی جاتی ہے کہ لگتا ہے پاکستان کا ہر گهر اس کشمکش میں مبتلا ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے .

آج ہی ہماری پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ کلاس لیکچر کے دوران میں ہمیں بتارہی تھیں کہ نیویارک سٹی میں ہر منٹ میں ایک جرم ہوتا ہے ، جس تواتر سے وہاں جرائم ہوتے ہیں ہم اور آپ ان جرائم اور اس شرح کا تصور نہیں کرسکتے . لیکن ان کا میڈیا ان باتوں ، افعال کی تشہیر نہیں کرتا اسی لئے ہمارےنزدیک ان کے ہاں بہت امن ہے . جب کہ جرائم کی سب سے کم شرح ( کرائم ریٹ ) اسلامی ممالک میں ریکارڈ کیاجا رہا ہے.

شرمین عبیدچنائے کی پاکستان پر بننے والی اونرکلنگ اور سیونگ فیس جیسی ڈاکومنٹریز کی عالمی پذیرائی کے باعث پاکستانی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے عناصر اور زیادہ گرم جوشی کے ساتھ مل کر اپنا کام ایک خاص ایجینڈا کے تحت سرانجام دے رہے ہیں.

ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام الناس میں شعور و آگہی بیدار کی جائے . ہر خبر پر فوری ردعمل کا اظہار نہ کیا جائے . ذرائع ابلاغ پر بیشتر ڈاکومنٹریز ،خبریں اور پروگرامات جهوٹ پر مبنی ایک خاص پروپگینڈہ پر مبنی ہوتے ہیں لہذا ان پر یقین کرنے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا جائے۔

فوری ردعمل کے ذریعے ابلاغی اداروں کے نمبروں پر فون کرکے ، ای میل کرکے ان کو ان کے غلط پروگرامات کی نشان دہی کروائی جائے . معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی جانب ابلاغی اداروں کی توجہ بذریعہ ای میل ، واٹس اپ ، ایمو ، خطوط ، فون اور سوشل میڈیا پر چلنے والے ان سے متعلقہ صفحات پر کروائی جائے . ابلاغی اداروں کی کسی غلطی کا فوری ردعمل عوام کے بجائے براہ راست ادارے تک پہنچایا جائے . بحثیت قوم اپنے ہونے کا ثبوت دیجئے .وقت بتادےگا آپ درست تهے.

اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آپہنچاہے

جب تخت گرائےجائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے

اے ظلم کےماتحتو لب کھولو چپ رہنےوالوں چپ کب تک

کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں