اسلامی قانون

پاکستان ، جرائم اور حدود اللہ کا نفاذ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

 ڈاکٹر خولہ علوی

“حکومت کی طرف سے آپ کی ڈیوٹی لگی ہے کہ ڈاکٹر کی حیثیت سے قتل ہونے والے مجرم کے موت کے سرٹیفیکیٹ (Death Certificate) پر آپ نے تصدیقی دستخط کرنے ہیں۔”جب یہ حکم نامہ مجھ تک پہنچا تو میں ایک دفعہ تھوڑا سا پریشان ہوا۔ “جو کچھ ہوگا، دیکھا جائے گا۔” میں نے اپنے کولیگ سے کہا۔

یہ ایک قریبی رشتہ دار ڈاکٹر احمد کی سچی داستان ہے جنہوں نے قتل کے جرم میں سزا پانے والے مجرم کی گردن کٹ کر گرتے دیکھنے کا ماجرا کھلی آنکھوں اور بقائم ہوش و حواس دیکھا تھا۔ 
“جب سعودی عرب کے شہر طائف میں میری میڈیکل ڈاکٹر کی حیثیت سے تعیناتی ہوئی تو یہ میرے اور میرے اہل خانہ کے لیے بڑی خوشی کی بات تھی۔”ڈاکٹر احمد نے بتایا تھا۔

 “حرمین شریفین مکہ و مدینہ جانے اور عمرہ و حج کی ادائیگی کی سعادت نصیب ہونا بہت بڑی خوش قسمتی ہوتی ہے۔ اور سعودی عرب کے نام سے ہی محبت اور یہی نسبت ہوتی ہے۔”مجھے یاد ہے کہ میرے والدین نے مجھے بخوشی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا۔
“سعودی عرب میں مجرموں پر جب حدود اللہ  نافذ کی جاتی ہیں تو انہیں سر عام کھلے گراؤنڈ یا کسی کشادہ جگہ پر عموماً نماز جمعہ کے بعد سب کے سامنے سزائیں دی جاتی ہیں۔” ہسپتال میں ایک مصری کولیگ نے مجھے بتایا۔ مجھے یہ بات خود بھی معلوم تھی۔

“اس طرح کے مواقع پر کئی دفعہ ڈاکٹروں کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے۔” ایک پاکستانی کولیگ نے مزید اضافہ کیا۔
 گزرتے کئی سالوں کے بعد میں کچھ سینئر ہو گیا تو میری بھی اس طرح کی ڈیوٹی لگ گئی۔ چنانچہ وقت مقررہ پر طے شدہ مقام پر مجرم کو لایا گیا۔ ساتھ ہی جلاد بھی حاضر ہو گیا۔ جلد ہی لوگوں کا ایک  عظیم الشان مجمع اکٹھا ہو گیا۔ اور سزا دینے کے لیے سارا ماحول تیار کر دیا گیا۔ 

جب میں نے دیکھا کہ جلاد نے مجرم کی گردن پر تلوار بھرپور ضرب لگا کر اس کی گردن آن واحد میں اڑا دی ہے تو میں اتنے مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کے باوجود یہ عبرت ناک منظر اور مجرم کا علیحدہ علیحدہ کٹا سر اور بہتے خون والا دھڑ برداشت نہ کر سکا۔ مجھ پر کپکپی سی طاری ہو گئی۔ اور میں نے بمشکل جانچ پڑتال کا کام مکمل کرکے لرزتے کانپتے ہاتھوں سے سرٹیفکیٹ پر دستخط کیے۔

بعد کتنے عرصے تک مجھے راتوں کو صحیح طرح نیند نہیں آتی تھی۔ کبھی خواب میں مجھے ڈراؤنے مناظر نظر آتے تھے، کبھی کٹی گردن، کبھی کٹا ہوا دھڑ، کبھی بہتا ہوا خون۔رات کو کبھی میری آنکھ کھل جاتی تو پھر دوبارہ نیند آتی نہیں تھی۔ پھر رفتہ رفتہ میں نارمل ہوا۔لیکن اگر اب بھی میرے ذہن میں وہ دل دہلا دینے والا منظر دوبارہ آجائے تو میں ایک دفعہ کانپ جاتا ہوں۔

مجھے بہت اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ “اگر سرعام حدوداللہ نافذ کی جائیں اور لوگوں کے لیے یہ عبرت بن جائیں تو یقیناً لوگ جرائم کرنے سے باز رہیں گے۔ بلاشبہ حدود اللہ کے نفاذ میں معاشرے کے لیے بہت ساری بھلائیاں، برکتیں اور رحمتیں پوشیدہ ہیں۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

14 اگست 2021ء کو مینار پاکستان واقعہ میں  یوٹیوبر اور ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا، وہ عائشہ اکرم کے لیے پریشانی کا باعث تو بنا ہی، لیکن اس واقعے سے پاکستان کی بھی عالمی سطح پر جو بدنامی ہوئی ہے، وہ نہایت خطرناک، پریشان کن اور افسوسناک ہے۔ 

پوری دنیا میں پاکستان کے مردوں کا امیج نہایت خراب ہوا ہے اور اب پاکستان کو حقوقِ نسواں اور تحفظ نسواں کے حوالے سے بین الاقوامی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور مزید کرنا پڑے گا۔ “گھریلو تشدد بل”کے نفاذ کے حامی شدو مد سے اس کے نفاذ کا مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل آنے والا نور مقدم کے قتل کا واقعہ بھی نہایت غیر معمولی اور معاشرے کو ہلا کر رکھ دینے والا ہے۔ ایک انسانی جان کے ایسے بہیمانہ قتل کی روداد جان کر رونگٹے کھڑے ہو گئے ، روح کانپ اٹھی، دل و دماغ پریشان ہو گئے اور ذہن میں طرح طرح کے سوالات گردش کرنے لگے۔
یہ نہایت کربناک واقعہ ایک طرح کا ٹیسٹ کیس ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ “میرا جسم، میری مرضی” نظریہ کے کیا کیا نتائج سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں!

عائشہ اکرم کیس (مینار پاکستان واقعہ) اور نور مقدم کیس کے حوالے سے ہماری نئی نسل بالخصوص بچیوں کے سیکھنے کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ جن کا خیال رکھا جائے تو امید ہے کہ آئندہ حالات اتنی بھیانک صورت اختیار نہیں کریں گے۔
اب نور مقدم کے قتل پر افسوس کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا نور مقدم کے قتل پر عوام نے بہت پریشانی کے ساتھ حکام بالا سے قصاص کا بھرپور مطالبہ کیا تھا کہ اس کے قاتل کو اسی طرح سزائیں دی جائیں اور پھر پھانسی گھاٹ تک پہنچایا جائے۔ 

اس واقعہ نے گزشتہ کچھ عرصے سے ملک بھر میں سنسنی پھیلائے رکھی ہے ۔ اس واقعے کی تحقیقات بھی نہایت زور وشور سے جاری رہیں لیکن وقت کے ساتھ اس پر مٹی پڑ گئی۔ کیوں؟؟؟ اس مجرم کو جلد از جلد سزا کیوں نہیں دی گئی؟ جس کا جرم سو فیصد واضح ہے۔
ہمارا سماج کیوں ہر لحاظ سے روز بہ روز  زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے! 
پھر جب اس طرح کا کوئی کیس سامنے آتا ہے تو حدود اللہ کے نفاذ کا مخالف طبقہ ظالم مجرم کو نشان عبرت بنانے کا بڑا مخالف ہوتا ہے۔

‏یہ لوگ مرد و عورت کی دوستی، بغیر شادی کے “ریلیشن شپ”رکھنے کے تو حق میں تو ہیں لیکن حقوق نسواں، آزادی، مساوات کے نام پر خواتین اور لڑکیوں کو ایسے گمراہ کن  نظریات کا حامل بنا دیتے ہیں کہ قریبی ترین محرم رشتہ داروں باپ، بھائیوں، شوہر جیسے بہترین رشتوں سے عورتوں کا اعتبار اُٹھ جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنا گھر بنانے اور آباد رکھنے کے قابل نہیں رہتیں۔

مینار پاکستان واقعہ کے حوالے سے حقائق پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہعورت ہر وقت اور ہر جگہ نہ مظلوم ہوتی ہے، اور نہ ہی معصوم۔اسی طرح مرد ہر وقت اور ہر جگہ نہ ظالم ہوتا ہے، اور نہ ہی مردود۔بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی فرشتہ نہیں ہوتا۔دونوں کی غلطیاں ہوتی ہیں، کسی کی کم، کسی کی زیادہ۔بہت کم ایسے ہوتا ہے کہ مرد اور عورت میں سے کسی ایک کی ساری غلطیاں ہوں اور دوسرا بالکل مظلوم اور معصوم ہو۔

اگر عورت کی عزت قابل احترام اور مقدس ہوتی ہے تو مرد کی عزت بھی قابل احترام اور ضروری ہوتی ہے۔پھر یہ کہ دنیا کے تمام مرد برے اور بد کردار نہیں ہوتے۔ ہر جگہ ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی شریف اور قابل احترام مردوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ بد کردار، لفنگے اور بدمعاش قسم کے لوگ یہاں تھوڑے ہیں۔ الحمد للّٰہ

لڑکیوں کو بھی شرم و حیا اور احکام ستر و حجاب کی مکمل تربیت دینی چاہیے اور لڑکوں کو بھی سکھانا چاہیے کہ جب لڑکیاں “عزیز مصر کی بیوی” کی طرح بن جائیں اور بے حیائی و زنا کی دعوت دیں تو حضرت یوسف علیہ الصلاۃ و السلام کی طرح اللہ رب العزت سے ڈرتے ہوئے مضبوط ترین کردار کے حامل بن جائیں۔

اب ٹھہریے!  نور مقدم کیس میں صرف قاتل نہیں بلکہ مقتولہ بھی ذمہ دار تھی۔آخر کیوں اس لڑکی نے کسی بھی شرعی حکم کا خیال نہیں کیا تھا؟؟؟
اس کیس کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایلیٹ کلاس یا دولت مند طبقے میں لڑکے یا لڑکی کے گرلز یا بوائے فرینڈز ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مسئلہ تو صرف یہ بنتا ہے کہ لڑکی کا کسی بوائے فرینڈ کے ہاتھوں مارا جانا قابل افسوس ہے۔ یا لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا یا زیادتی (rape) کرنا ہے۔
قاتل ظاہر جعفر، مقتولہ نور مقدم کا دوست تھا ۔لیکن یہ غیر شرعی دوستی اور اندھا اعتماد نور کے لیے جان لیوا ثابت ہوا تھا۔

نور نے گزشتہ برس “عورت  مارچ” میں بھرپور حصہ لیا تھا۔”موٹر وے ریپ کیس” کے سلسلے میں ایک مظاہرے میں شرکت بھی کی تھی جس کی سوشل میڈیا پر تصویر وائرل ہوئی تھی۔اس کی ذہنیت اور سرگرمیاں سب موم بتی مافیا والی تھیں۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نور اور اس کے اہل خانہ کا اسلامی اور روایتی سوچ سے کوئی تعلق نہ تھا ۔

قتل کے روز بھی مقتولہ مجرم کے بلانے پر اس کے گھر آئی ہوئی تھیں، جہاں نجانے کن کن باتوں پر جھگڑا ہوا اور تلخیاں اس حد تک بڑھیں کہ وہ جان سے گئی ۔ قاتل نے پرتشدد طریقے سے اسے قتل کیا اور اس کی گردن کو جسم سے الگ کر دیا۔

ہائے افسوس! یہ لادینی تھی یا دولت کا نشہ؟ بے غیرتی تھی یا فحاشی؟یا دونوں؟؟؟اور اس کے اسباب میں صرف بے دینی، مال و دولت، عہدہ، غرور و نخوت، نشے کا عادی ہونا، لبرل اور سیکولر خاندان سے تعلق، بڑھتی ہوئی  بے حیائی و بے غیرتی ہی نہیں بلکہ عورت اور مرد کی اپنی مرضی اور آزادی بھی ہے جس کے لیے پاکستان میں مٹھی بھر مافیا نے طوفان اٹھا رکھا ہے۔
اس وقوعہ سے دل و دماغ میں کئی طرح کے سوال پیدا ہوتے ہیں۔

یہ سارے معاملات نام نہاد آزادی، روشن خیالی اور لبرلزم کا نتیجہ ہیں۔ ورنہ دیکھا جائے توایک جوان لڑکی کسی غیر محرم کے پاس کیسے رہ سکتی ہے؟اگر دو سال سے دونوں کی دوستی تھی تو کس بنیاد پر قاتل نور کو پریشان کرتا تھا؟اور پھر یہ کیوں پریشان ہوتی رہی؟اور پھر بھی اس سے دوستی جاری رکھی؟؟اس سے دوستی یا تعلقات ختم نہ کیے؟کیوں اپنے والدین کو اعتماد میں نہیں لیا؟کیوں اس نے ظاہر جعفر کی ذہنیت نہیں سمجھی تھی؟ایک جوان بے پردہ لڑکی کیوں کسی غیر محرم اور وہ بھی عادی نشہ باز کے گھر گئی اور اس کے ساتھ رہی؟ 
پھر یہ بات ان دونوں کے والدین کے علم میں آ چکی تھی۔ظاہر جعفر کے سکیورٹی گارڈز اور گھریلو  ملازمین کو پتہ تھا۔تو کیا سب نور مقدم کے قتل ہونے کے انتظار میں تھے؟

یہ صرف مقتولہ پر الزام تراشیاں (victom blaming) نہیں بلکہ بڑے تلخ حقائق ہیں جن سے کسی صورت نظریں چرانا ممکن نہیں۔
اب اتنے دن گزر جانے کے بعد لگتا ہے کہ شاید اس سارے کیس میں کچھ نہیں ہوگا۔شاید چشم دید گواہ نہ ہونے اور شک کے فائدہ کی وجہ سے یہ قاتل بری ہو کر امریکہ چلا جائے گا۔

اگر یہ عدالت سے بری ہو گیا اور باہر چلا گیا تو؟؟؟ قانون قدرت ہے کہ بالآخر حشر اس کا بھی بہت برا ہوگا۔شاید وہاں کسی اور کو قتل کرکے خود کشی کرلے گا۔ یا جیل جائے گا اور بدترین انجام سے دوچار ہوگا۔ایسے قاتل لوگوں کا انجام بھی ایسا ہوتا ہے۔
لیکن اگر اسے عدالت سے پھانسی کی سزا ہو گئی اور اس پر عمل درآمد بھی ہو گیا تو یہ ایک جرات مندانہ قدم ہوگا۔
بہر حال دنیا مکافات عمل کا نام ہے۔ بلاشبہ جس نے جو کیا، وہ بھگتے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ہمارے گرد و پیش میں اس طرح کے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہونے لگتے ہیں، تو معاشرے کے لوگوں میں بھی گویا بے حسی پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ ان کے لیے روٹین کے معاملات بن جاتے ہیں۔ لہذا ان مجرموں کو بروقت گرفتار کرنا اور ان کو اسلامی سزائیں دینا یعنی ان پر حدود اللہ کا نفاذ کرنا نہایت ضروری ہے۔

دل چاہتا ہے کہ کاش! مجرموں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے اور وہ ان بے حس اور سنگ دل مجرموں کو ان کے گناہوں کی سزا دیتے ہوئے انہیں زمین میں زندہ گاڑ کر سنگسار کردیں، انہیں پتھر مار مار کر ختم کر دیں!!!ان پر زنا بالجبر، قتل ناحق اور حدود کو پامال کرنے جیسے کبیرہ گناہوں کی سزائیں نافذ کی جائیں!!! 

معاشرے میں بے حیائی و فحاشی، زنا و جنسی درندگی، فعل قومِ لوط کرنے والوں، چوری و ڈکیتی، قتل و غارتگری اور دیگر گناہوں کو پھیلانے والے ان ناسوروں کو حسبِ گناہ سزائیں دے کر، ان پر اسلام کی مقرر کردہ حدود نافذ کرکے ان کے وجود سے معاشرے کو پاک کردیا جائے!!!
ایسے مجرموں کو دنیا سے مٹا دیا جائے!!!ان کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے!!!
انتظامیہ اور عدلیہ کو ان کبیرہ اور گھناؤنے جرائم میں مجرموں کو حدود اللہ کے نفاذ سے کم سزائیں دینے پر کسی قسم کی لچک اور نرمی نہیں ہونی چاہیے!!!

عن ابن عمر أن رسول اللهﷺ  قال :”إقامة حد من حدود الله خيرمن مطر أربعين ليلة في بلاد الله عز و جل۔”  (سنن ابن ماجة: 2537)​ترجمہ: “حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ “اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کا قائم کرنا اللہ عزوجل کی زمین پر چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔“
معلوم ہوا کہ شرعی حدود کا نفاذ انسانیت کے لیے  رحمت وبرکت ، امن و امان، سکون و سلامتی کا باعث ہے۔

بہرحال، ان واقعات میں مجرموں کو حدود اللہ کے نفاذ کی عبرت ناک سزا دینے کے سواکوئی اور سزا قابل اصلاح نہیں اور نہ ہی قابل قبول ہیں۔ 
صرف چند ایک دفعہ کے بعد جرائم میں ان شاءاللہ نمایاں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی۔ اور پھر حدود اللہ کا مکمل نفاذ معاشرے کو پاکیزہ اور جرائم سے پاک کر دے گا۔ ان شاءاللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

6 پر “پاکستان ، جرائم اور حدود اللہ کا نفاذ” جوابات

  1. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    Effective and efficient Article
    Masha Allah

  2. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    Indeed Hudoodullah are best for the Law and Order.

  3. احمد Avatar
    احمد

    بہترین اور مؤثر کاوش ہے ماشاء اللہ

    بلاشبہ زمین میں ایک حد نافذ کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے.

  4. احمد Avatar
    احمد

    اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسے جرائم سے پاک کر دے اور امن و سکون کا گہوارہ بنا دے.
    آمین ثم آمین یا رب العالمین

  5. طہورا Avatar
    طہورا

    عمدہ اور معلوماتی آرٹیکل ہے ماشاءاللہ۔

    بلاشبہ زمین میں ایک حد کا نافذ کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔
    اگر پاکستان میں حدود اللہ کا نفاذ صحیح طریقے سے ہو تو یقینی طور پر جرائم میں بہت کمی ہو جائے گی۔ ان شاءاللہ

  6. طہورا Avatar
    طہورا

    عمدہ اور معلوماتی آرٹیکل ہے ماشاءاللہ۔