زرافشاں فرحین
غافل تجھے گھڑیال یہ کرتا ہے منادی
ہرگزرتا لمحہ یہ پیغام دے رہا ہے
گردوں نے تیری عمر کی گھڑی اک اور گرادی … دن .. ہفتہ . مہینہ سال سب روز و شب گزرتے جارہے ہیں
دسمبر کی اداس سرد راتیں ….. خشک دن
میری فکر، میری بھاگ دوڑ، میرا وقت میری صلاحیتوں کا استعمال کہاں ہورہا ہے…
لمحہ لمحہ گزررہا ہے
لمحہ لمحہ پوچھ رہا ہے کیا کھویا ان لمحوں میں
کیا پایا ان لمحوں میں
. سال کی آمد ہے سال نو کی مبارک باد کی صدائیں ہوں گی کیا واقعی گزرتے ایام ، آنے والے پل باعثِ مبارک ہیں
خاصان خدا وقت آخر کا خوف پاتے تو لرز جاتے
ان کے غم ہی اور تھے….. روز حشر نگاہوں کے سامنے رہتا
عمل گواہی دیتے کہ …….. دنیا مہلت عمل ختم
قیامت کا دن منتہائے عمل ہے ، جزائے عمل ہے ، سزائے عمل ہے . ان سادہ الفاظ میں جو جامعیت ونصیحت ہے وہ اظہر من الشمس ہے، یعنی دل میں خوفِ خدا اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرکے روزِ قیامت کی تیاری کے لیے فکرِآخرت پیدا کرنا ہے ۔
حضور نبی کریم رحمۃ للعالمین فخر المرسلین نے ارشاد فرمایا : ’’آنکھوں کو بھی عبادت کا حصہ دو، یعنی قرآن میں دیکھو اور اس میں غور وتدبر کرو اور اس کے عجائبات سے درسِ عبرت لو‘‘۔(الصحیح لابن حبان بروایت ابی سعید، کنز العمال )
امام التابعین حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ: ’’ پہلے لوگ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور وتدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ ا س کے حروف اور زیر وزبر تو بہت درست کرتے ہو، مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے، اس میں غور و تدبر نہیں کرتے۔(فضائل قرآن مجید، زیر حدیث نمبر: ۱۹)
البتہ خود سے غور وتدبر کرنے کی بجائے علمائے کرام سے اس کا طریقہ پوچھنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے، تاکہ خود ساختہ طریقے پر چلنے سے گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائے، کیونکہ کلام پاک کے معنی کے لیے جو شرائط وآداب ہیں ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اور ایک جگہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’افسوس اس شخص پر جس نے یہ آیت پڑھی۔ ( ترجمہ )-: ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات ودن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔ ( آل عمران:۱۹۰) – لیکن اس میں کچھ غور وفکر نہ کیا۔‘‘
اس آیت پر حضور کا ایک واقعہ بھی منقول ہے، ملاحظہ ہو: حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ آپ نے حضور کی سب سے زیادہ عجیب بات جو دیکھی ہو، وہ ہمیں بتادیں۔ پہلے تو وہ خاموش ہوگئیں، پھر فرمایا: ایک رات حضور نے فرمایا:’’اے عائشہ! مجھے چھوڑو، آج رات میں اپنے رب کی عبادت کروں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم ! مجھے آپ کا قرب بھی پسند ہے اور جس کام سے آپ کو خوشی ہو وہ بھی پسند ہے، چنانچہ حضور اُٹھے اور وضو کیا، پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے اور نماز میں روتے رہے اور اتنا روئے کہ آپ کی گود گیلی ہوگئی اور بیٹھ کر اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے ترہوگئی، پھر سجدہ میں اتنا روئے کہ زمین تر ہوگئی،
پھر حضرت بلال حضور کو نماز کی اطلاع دینے آئے، جب انہوں نے حضور کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے ہیں۔
حضور نے فرمایا: تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے کہ جو آدمی اسے پڑھے اور اس میں غور وفکر نہ کرے، اس کے لیے ہلاکت ہے، وہ آیت یہ ہے: ترجمہ:…’’بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور رات ودن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ ( آل عمران:۱۹۰) (اخرجہ ابن حبان فی صحیحہ، کذا فی الترغیب:۳۳۲ بحوالہ حکایۃ الصحابہ:۳/۱۵۰، ۱۴۹ )
حضور پر بڑھاپے کے آثار قبل از وقت کیوں؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کے بنیادی مضمون تین ہیں: ۱:…توحید، ۲:…رسالت، ۳:…قیامت۔ قرآن پاک میں کچھ سورتیں ایسی ہیں جن میں قیامت کی ہولناکیاں اور اگلی اقوام کے حالات وغیرہ کا ذکر ہے۔ مختلف احادیث میں ان سورتوں کی نشاندہی فرمائی گئی ہے۔
ان سب روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابۂ کرام مثلاً حضرت ابوبکرصدیق حضرت عمر فاروق وغیرہ نے ریش مبارک میں بالوں کی سفیدی دیکھ کر اظہارِ رنج کے ساتھ عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! آپ بوڑھے ہوگئے؟ سید الانبیاء حضور سرور عالم نے فرمایا کہ: مجھے سورۂ ہود اور اس کی بہنوں یعنی دوسری چند سورتوں نے بڑھاپے سے قبل ہی سفید بالوں والا یعنی بوڑھا کردیا۔ (مستفاد از کنز العمال اردو مترجم)
ان سورتوں میں پچھلی قوموں پر نازل ہونے والے قہر الٰہی ، مختلف قسم کے عذابوں ، قیامت کے ہولناک واقعات اور ان کی منظر کشی، کفار وفجار کی سزا اور مؤمنین ومتقین کی جزاء وغیرہ کا ذکر خاص انداز میں آیا ہے، اس لیے ان واقعات کے خوف ودہشت کی وجہ سے آپ پر بڑھاپے کے آثار شروع ہوگئے۔ اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور اقدس دولت کدہ سے تشریف لاتے ہوئے داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیر رہے تھے، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر مسجد میںتشریف فرما تھے، حضرت ابوبکر نے یہ منظر دیکھا اور عرض کیا: یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کس قدر جلدی آپ پر بڑھاپا آگیاہے اور یہ کہہ کر رونے لگے اور آنسو جاری ہو رہے تھے۔ حضور نے فرمایا: سورۂ ہود جیسی سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔ (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی، ص:۴۳) سورتوں کے نام وہ سورتیں جن کا ذکر آپ نے مختلف روایات میں فرمایا، وہ مندرجہ ذیل ہیں: ۱:… ہود ، ۲:… الواقعۃ ، ۳:… الحاقۃ ، ۴:… المعارج ، ۵:… المرسلات ، ۶:… النبأ ، ۷:… التکویر ، ۸:… الغاشیۃ ، ۹:… القارعۃ ۔ (کنز العمال اردو مترجم،ج:۱،رقم الحدیث:۲۵۸۶ -۲۵۹۲، ۴۰۹۱- ۴۰۹۶)
ان سورتوں کے علاوہ بھی اس طرح کی بہت سی سورتیں اور آیتیں ہیں، لیکن چونکہ درج بالا سورتوں میں اس موضوع کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے، اس لیے ان کے نام لے کر بتائے گئے۔ ایک ہی رات میں بال سفید ہوگئے (ایک واقعہ) علامہ زمخشری کہتے ہیں: میں نے ایک کتاب میں دیکھا ہے کہ ایک شخص شام کے وقت بالکل سیاہ بال جوان تھا، ایک ہی رات میں بالکل سفید ہوگیا۔ لوگوں نے پوچھا، تو اس نے کہا کہ میں نے رات قیامت کا منظر دیکھا ہے کہ لوگ زنجیروں سے کھینچ کر جہنم میں ڈالے جا رہے ہیں، اس کی دہشت مجھ پر کچھ ایسی غالب ہوئی کہ اس نے ایک ہی رات میں مجھے اس حالت پر پہنچادیا۔ اللہ اکبر! (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی:۴۴، ۴۳)
چند مخصوص آیات مبارکہ کاتذکرہ خوفِ خدا اور فکرِ آخرت پر حضور اقدس صحابۂ کرام اور علماء ومشائخ کے ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ ایک ہی آیت کو پڑھتے رہے اور خوف وخشیت سے روتے رہے۔ اپنے موضوع (خوفِ خدا اور فکر آخرت) کی مناسبت سے صرف حضور سرور عالم کے چند واقعات وارشادات پر ہی اکتفا کرتی ہوں، جن میں مخصوص آیاتِ قرآنیہ کا ذکر ہے:
۱:۔۔۔۔۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایاکہ: ’’سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی آیت: ’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ‘‘ ہے۔ (الزلزال:۸، ۷) ۔۔۔۔۔ ’’چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھے گا۔‘‘ سب سے زیادہ امید رساں اور دل کو تقویت بخشنے والی آیت: ’’ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ‘‘ ہے۔(الزمر:۵۳)۔۔۔۔۔ ’’کہہ دو کہ:اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘ (کنز العمال اردو مترجم:۱/۳۵۰، رقم الحدیث: ۲۵۶۰) ۲:۔۔۔۔۔
رسول اللہ نے ارشاد فرمایاکہ: ’’میں تم پر ایک سورت ( التکاثر) پڑھتا ہوں، جو اس پر رویا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، پس جس کو رونا نہ آئے وہ رونے کی کوشش کرے۔ (شعب الایمان بروایت عبد الملک بن عمیر، مرسلاً، کنز العمال اردو مترجم:۱/۳۶۵، رقم الحدیث:۲۷۱۵) اس سورت میں دنیا کی زندگی اور مال ودولت کو مقصد بنانے والوں کی مذمت کی گئی ہے، نیز مال کی بے ثباتی، روز قیامت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بارے میں سوال ہونے اور جہنم سے ڈرایاگیا ہے۔ ۳:۔۔۔۔۔ نبی اکرم ایک مرتبہ تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے:
’’ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ‘‘(المائدۃ:۱۱۸) ترجمہ:۔۔۔۔۔’’اگر آپ ان کو سزادیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں۔‘‘ یعنی آپ ان کے مالک ہیں اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو ان کے جرائم پر سزا دے، اس لیے آپ اس کے بھی مختارہیں، قدرت والے ہیں، معافی پر بھی آپ قادر ہیں، اس لیے اس کے بھی آپ مختار ہیں تو آپ کی معافی بھی حکمت کے موافق ہوگی، اس لیے اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہوسکتی، مطلب یہ کہ آپ دونوں حالت میں مختار ہیں، میں کچھ دخل نہیں دیتا۔ ( زیرآیت ہذا: ۲۷۱، وحکایات صحابہؓ:۳۶)
رب کے حضور سجدہ ریز ہونے کا وقت ہے توبہ کی مہلت موجود ہے آئیے خود کو پیش کریں کسی کے درد کو بانٹ لیں امت کے غم سانجھ لیں کوئی ایسی گواہی مقدر کرلین جو باعثِ نجات بن جائے آمین