پاکستان کا نظام تعلیم

ہُنر دینا منع ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آصفہ عنبرین قاضی

پچھلے ہفتے چھٹی کے روز دو شاگردوں کا فون آیا کہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔

یہ وہ دو بچے تھے جنہوں نے چھ سال قبل میٹرک میں ٹاپ کیا تھا اور پورے شہر اور مضافات میں ان ہونہار طلبا کا چرچا تھا . بڑے بڑے پینا فلیکس پر ان کی ادارے کے نام کے ساتھ تصاویر لگی تھیں ، بڑے کالجز کی طرف سے فری ایجوکیشن کی پیش کش ہوئی اور انہوں نے من پسند کالجز کا انتخاب کرکے اس میں داخلہ بھی لیا ،

اگلے چار سالوں میں کامیابی کا تناسب بھی قدرے بہتر رہا۔گریڈ میں استحکام رہا ۔ تب ان کو یوں لگا جیسے دنیا فتح کر لیں گے ، ان کے گریڈ ان کی کامیابی کی دلیل اور گارنٹی ہیں ۔ ان کی میڑک کی سند ان کی اعلیٰ ملازمت پر قبولیت کی سند ہے ۔۔۔ لیکن نتائج اس کے برعکس رہے

وہ جس بڑے ادارے میں انٹرویو دینے گئے ، بہت کم نمبروں سے ٹیسٹ پاس ہوسکے . تحریری ٹیسٹ پاس کر بھی لیے تو انٹرویو میں رہ گئے . پینل کے سوالات ان کے سر سے گزر گئے ، اسناد میں اے پلس گریڈ دھرے کے دھرے رہ گئے ، ریک میں رکھی ٹرافی ان کے کسی کام نہ آئی ۔

آج وہ کچھ سنانے آئے تھے اور میں خاموشی سے دونوں کو سن رہی تھی ۔ دونوں کے چہروں پر مایوسی اور انجانا سا عدم تحفظ تھا ،

چائے کا کپ رکھ کر ایک نے فرش کو دیکھتے ہوئے آخری جملہ بولا

” میڈم تعلیی نظام نے بہت ظلم کیا ہے ہم پر ۔۔۔ “
میں نے مسکرا کر کہا ” بیروزگاری تو ہمارا بہت پرانا مسئلہ ہے شہزادے! میرٹ نہیں دیکھا جاتا”.

” نہیں میڈم ! ” دوسرا تڑپ کر بولا ” ہمیں بیروزگاری نے نہیں ، ہماری ڈگریوں نے مارا ہے ، ہمیں وہ کچھ سکھایا ہی نہیں گیا جو اگلے دس سال ہمارے کام آتا ، میں ایک بار پھر غور سے سننے لگی ۔ آج ان کے بولنے کی باری تھی۔

” ہمیں اعتماد نہیں سکھایا گیا ، انگریزی میں پورے نمبر دے کر انگریزی بولنا نہیں سکھایا گیا ، میتھ میں سو بٹہ سو لینے والے اپنی ہی زمین کا رقبہ نہیں نکال سکتے ، اردو میں پورے نمبر لے کر بھی ہم وزیراعلیٰ کو عرضی نہیں لکھ سکتے ، میرٹ ہمارے قدموں کی دھول ہے لیکن نالج ہمارے پاس صفر ہے ، آپ نے نمبروں کی مشینیں بنائی ہیں، جینیس نہیں ۔” آواز اس کے گلے میں رندھ گئی ۔
میرے پاس کوئی جواب نہ تھا

” میرے ابو کے زمانے میں ڈاکٹری کا میرٹ %78 فیصد تھا، اب % 91 پر بھی پاکستان کے سب سے تھکے ہوئے کالج میں بھی داخلہ نہیں ملتا۔” اس کے چہرے پر تھکن ہی تھکن تھی ۔

، لگتا تھا نوکریاں ہمارے قدموں میں گریں گی، آج جس کمپنی میں جاتے ہیں وہاں پورے نمبر لینے والے سینکڑوں کی تعداد میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن ٹیسٹ اور انٹرویو میں سب رہ جاتے ہیں ، کہاں گئے وہ نمبر؟؟ “

وہ اپنا کتھارسس کر رہے تھے یا سوال ۔۔۔ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔

ہم نمبروں کی مشینیں ہی تو بنا رہے ہیں ، میرے نظروں میں اس سال کوویڈ میں میٹرک اور ایف ایس سی میں پورے نمبر لینے والے گیارہ سو ستانوے طلبا گھوم گئے ۔۔۔

چار سال بعد اُن کے سوالات اِن سے بھی تلخ ہوں گے۔ گیارہ سو طلبا اپنے ٹیچر کو فون کرکے کہیں گے: ” آپ سے بات کرنی ہے”
اور جواب میں وہی خاموشی۔۔۔ طویل خاموشی ملے گی ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں