محترمہ ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی اپنے مرحوم و مغفور والد مولانا عبد الوکیل علوی کے بارے میں تاثرات بیان کرتی ہیں
ڈاکٹر خولہ علوی
پہلے یہ پڑھیے
گلِ آرزو کی جو باس تھے، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے ( پہلی قسط )
“ابو جان نے اپنی زندگی کی محنتوں اور مشقتوں کو خوبصورت انداز میں کتابوں کے صفحات میں نقش کر دیا ہے جن میں ان کا بلند پایہ کام موجود ہے۔” میں نے ان کی چھوٹی سی ذاتی لائبریری میں ان کے تحریری کام کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
“بالکل۔ “ارد گرد موجود تمام لوگوں نے تائید کی۔
ابو جان طہارت و نظافت کا نہایت خیال رکھتے اور اکثر باوضو رہتے تھے۔ وہ خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے، مختلف قرآنی و مسنون اذکار کرنے اور درود شریف کثرت سے پڑھنے کے عادی تھے۔
وہ باوقار، رکھ رکھاؤ والے اور متواضع انسان تھے۔ صلہ رحمی کرنے والے، محنت کے عادی، اچھی حس مزاح رکھنے والے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے متقی مسلمان اور عالم باعمل تھے۔ اپنی زندگی کے آخری رمضان المبارک میں انہوں نے پورے روزے رکھے تھے۔ اور زندگی کی آخری نماز کی ادائیگی بھی کی تھی۔ طاق راتوں میں پوری رات جاگ کر قیام کرتے تھے، اور لیلۃ القدر کے حصول کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ الحمد للّٰہ ثم الحمدللہ۔
آج ان کا کمرہ ان کے وجود سے خالی ہے!!!
ان کا بستر خالی ہے!!!
ان کی آرام کرسی خالی ہے!!!
وہ تو چلے گئے ہیں لیکن ان کا اخلاق و کردار، ان کا سلجھا ہوا مزاج ہماری یادیں ہیں!!!
ان کی وصیتیں ہمارے لیے سرمایۂ حیات ہیں!!!
بقول شاعر
؎ ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ لباس کیسا لگ رہا ہے؟” ابو جان آخری سالوں میں ہم سے وقتاً فوقتاً پوچھتے رہتے تھے۔ بڑھاپے میں انسان کی کئی عادات بچوں کی طرح ہو جاتی ہیں۔
“بہت اچھا لگ رہا ہے۔ماشاء اللہ۔” ہم کہتے تھے۔ اور وہ مطمئن ہو جاتے تھے۔
وہ بیماری کے باوجود لباس بڑے دھیان سے انتخاب کرکے پہنتے تھے۔
اور واقعی ہر لباس ان پر ایسے سُوٹ کرتا تھا گویا یہ رنگ اور کپڑا انہی کے لیے بنایا گیا ہو۔
اپنی کپڑوں کی الماری بھی بڑے منظم طریقے سے سیٹ رکھتے تھے۔
والد صاحب خوبصورت اور وجیہہ انسان تھے ماشاءاللہ۔ وہ سرخ و سفید رنگ، کشادہ پیشانی، تیکھے نقش و نگار، موٹی چمک دار آنکھیں، چوڑے سینے، میانہ قد، اور بھرے ہوئے گداز جسم اور میٹھی مگر کھنک دار آواز کے مالک تھے۔
ظاہری لحاظ سے جتنے شکیل تھے، باطنی اعتبار سے اس سے زیادہ ورع و زہد کا حسیں مجسمہ تھے۔ جوانی سے داڑھی اور سر کے بالوں کو مہندی لگانے کے عادی تھے اور مہندی سے رنگے بال ان کے سرخ و سفید رنگ پر بے حد بھلے دکھائی دیتے تھے۔ بہت نفیس طبیعت و مزاج کے حامل تھے۔ موقع محل کے لحاظ سے مناسب لباس زیب تن کرتے تھے جو ان پر سوٹ کرتا تھا۔
زندگی کے آخری ایام میں وہ کافی کمزور ہو گئے تھے۔ سرخ و سفید رنگ ماند پڑ گیا تھا لیکن نفاستِ طبع اور مزاج کی صفائی ستھرائی و پاکیزگی اسی طرح برقرار تھی۔
حتی کہ جب وہ فوت ہوئے تو تب بھی باوضو حالت میں اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہوئے تھے۔
الحمد للّٰہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو جان یکم جنوری 1941ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقے بھٹنڈہ (ریاست پٹیالہ) میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد کا اسمِ گرامی محمد عبداللہ تھا۔ جو پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ اور والدہ کا نام فاطمہ بی بی تھا۔ دو تین سال کی عمر میں والدہ کاسایۂ شفقت سر سے اُٹھ گیا تو پھر ان کی نانی جان انہیں اپنے ساتھ ریاست “بیکانیر” لے گئیں۔ جہاں ان کے ننھیالی رشتہ دار ایک گاؤں میں رہائش پذیر تھے۔
ابو جان نے 1947ء میں تقریباً سات سال کی عمر میں اپنے ننھیالی خاندان کے افراد کے ہمراہ پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ ان کا حافظہ بڑا قوی تھا اور انہیں ہجرت کے تمام چھوٹے بڑے واقعات تفصیلاً یاد تھے،
کون سے مقام پر خاندان کے کتنے افراد اور کس طرح شہید ہوئے؟
راستے میں ان کے قافلے کو کن تکلیفوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا؟
وہ کہاں کہاں قیام پذیر ہوئے؟
کس طرح کے کٹھن حالات پیش آتے رہے؟ وغیرہ تقریباً سب باتیں ان کو اچھی طرح یاد تھیں۔
ابوجان کا خاندان پہلے سندھ میں قیام پذیر ہوا، سات آٹھ مہینے وہاں رہے۔ اس کے بعد پنجاب میں اپنے والد وغیرہ کے بارے میں معلوم ہوا تو پھر وہاں سے ان سب نے پنجاب کا رُخ کیا۔ اور ملتان کے قریب جہانیاں منڈی میں آکر وہاں آباد ہو گئے۔ چند عزیز قرب و جوار کے علاقوں میں حسب حال شفٹ ہو گئے۔
مشہور و معروف حکیم محمد عبداللہ (آف جہانیاں) ابو جان کے سگے ماموں تھے۔ وہ بڑے متقی انسان اور کامیاب ترین معالج تھے۔ علمِ طب پر ان کی کئی کتب بڑی مستند سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً “کنز المجربات” ان کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔ جوانی میں ابا جان ان کے مطب پر علمِ طب کی شُد بُدھ حاصل کرنے کے لیے بیٹھتے تھے۔ وہ مکمل حکیم یا طبیب تو نہیں تھے لیکن طب کے طریقہ علاج اور ادویات سے وہ کافی حد تک واقف تھے۔ ابا جان کی کفالت اور تربیت میں حکیم عبداللہ صاحب کا کافی ہاتھ ہے۔
؎ نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابا جان بڑے ذہین و فطین انسان اور علم حاصل کرنے کے حد درجہ شوقین تھے۔ انہیں جب سکول میں داخل کروایا گیا تو پہلی دفعہ ہی چہارم جماعت میں داخلہ مل گیا۔ نامساعد حالات کے باوجود انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کوئی دقیقہ فرد برداشت نہ کیا۔ اور دینی و دنیاوی علم کی تحصیل کے لیے کوشاں رہے۔
والد صاحب کی وفات کے بعد ان کے بڑے بھائی محترم عبدالغنی (آف جہانیاں) ان کی کفالت کرتے رہے۔ بالآخر وہ اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور ہوگئے اور اس پر عمل پیرا بھی رہے۔ وہ بڑی حد تک سیلف میڈ (Self Made) انسان تھے۔ ابا جان نے مڈل کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول 135/10.R جہانیاں سے امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ میٹرک اور ایف اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر دے کراعلیٰ نمبر حاصل کیے۔
اسی دور میں انہوں نے قلم و قرطاس سے آشنائی پیدا کرنا شروع کردی تھی۔ جلال پور پیر والہ میں شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود کے مدرسہ میں صرف ایک ماہ کے قلیل عرصے میں حدیث کی معروف کتاب “بلوغ المرام” مکمل کرلی۔ عربی گرائمر میں صرف و نحو دونوں پر بھی ان کی بھرپور توجہ تھی۔
انہیں ابتدا سے اپنی بات دوسروں تک بہترین اور مدلل انداز میں پہنچانے میں ملکہ حاصل تھا۔ ان کا نام “عبدالوکیل” ہونے کی وجہ سے اکثر اجنبی و انجام لوگ ان کے بارے میں استفار کرتے تھے کہ کیا وہ وکیل ہیں؟
وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تو نہ تھے لیکن وکیلوں کی طرح ہی دلائل دے کر بات کرتے تھے اور دوسروں کو متاثر کرتے تھے۔ اکثر ان کے دلائل کے آگے لاجواب ہو کر لوگ ان کی بات تسلیم کر لیتے تھے۔
ایف اے کے بعد انہوں نے “جامعہ اسلامیہ، بہاولپور” میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے “التخصص فی التاریخ الاسلام” کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لے لیا اور ایم اے عربی اور ایم۔ اے اسلامیات کے امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مولانا ابو الکلام آزاد، امام ابنِ تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سے میں شعوری یا لاشعوری طور پر تب سے متاثر تھا جب میں نے ابھی ان کا لٹریچر بھی نہیں پڑھا ہوا تھا۔”ابو جان بتاتے تھے۔
“اچھا۔” ہم پوچھتے تھے۔
“تومیرا سید مودودی صاحب سے یہ لگاؤ تب سے تھا اور ان کے لٹریچر کامطالعہ کرنے کے بعد تو اس میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔”ابو جان کہتے تھے۔
ابا جان طالب علمی کے خوبصورت دور میں میں اپنے اساتذہ کرام کے علاوہ ان دیگر چند اولیاء اللہ سے بھی بے حد لگاؤ رکھتے تھے۔ جن سے ان کا مضبوط علمی تعلق قلم و قرطاس کی وجہ سے تھا۔
ابا جان نے علم کے مختلف مراحل میں کئی ایک معروف اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی جن میں سے چند ایک کے نام حسب ذیل ہیں:
مولانا عبدالغفور حسن صاحب آف لاہور، مولانا سلطان محمود صاحب آف جلاپور، پیر والہ،
مولانا عبدالحمید آف جلال پور، پیر والہ، مولانا حافظ محمود گوندلوی صاحب آف گوجرانوالہ،
مولانا حافظ محمد عبداللہ روپڑی صاحب آف لاہور،
مولانا شریف اللہ صاحب آف سوات (یہ مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی صاحب کے بھی استاد تھے)،
مولانا احمد اللہ صاحب آف لاہور، مولانا احمد علی لاہور، ان کے درسِ قرآن میں شامل رہے،
پروفیسر غلام احمد حریری صاحب، جامعہ سلفیہ فیصل آباد۔ “دیوان متنبّی” پڑھنے کے لیے ان کی شاگردی اختیار کی اور کافی حصہ ان سے پڑھا۔
اس کے علاوہ جامعہ اشرفیہ لاہور میں درس حدیث میں شریک رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابا جان 1970ء کے اواخر میں جماعت اسلامی کے تحقیقی ادارہ “دارالفکر” سے وابستہ ہو گئے تھے۔ اچھرہ میں واقع مولانا نعیم صدیقی کے اس ادارہ میں انہوں نے کام کرنا شروع کیا تھا۔ وہ تقریباً دس گیارہ برس وہاں کام کرتے رہے، پھر 1981ء میں جب منصورہ میں “ادارہ معارفِ اسلامی” کا قیام وجود میں آیا تو “دارالفکر” کو ختم کرکے اسے مستقل نئے بننے والے ادارہ میں ضم کردیا گیا۔
مولانا نعیم صدیقی اور ابو جان دونوں نئے ادارہ سے وابستہ ہو گئے جس کے پہلے ڈائریکٹر خلیل احمد حامدی صاحب تھے۔ 1983ء میں انہیں منصورہ میں جماعت کی طرف سے گھر مل گیا جس میں وہ مع اہل خانہ دس برس مقیم رہے۔
اس سے پہلے وہ 1976ء سے 1983ء تک والدہ محترمہ کی گورنمنٹ جاب لیکچرر شپ کی وجہ سے گجرانوالہ میں اپنے ذاتی گھر میں رہتے تھے۔ اتنی دور سے آمد و رفت کافی مشکل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آسانی کر دی اور وہ منصورہ میں منتقل ہو گئے۔ امی جان کی بھی لاہور ٹرانسفر ہوگئی۔
ابوجان نے اپنی جوانی، ادھیڑ عُمری اور پھر بڑھاپا اسی ادارہ میں کھپا دیا۔ وہ اپنے ادارے اور اس کے لوگوں سے بڑی محبت کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا تذکرۂ خیر کرتے تھے۔ انہوں نے اَن تھک محنت کی اور اپنے ذمہ لگایا گیا ہر تحقیقی کام یا پراجیکٹ احسن طریقے سے سر انجام دینے کے لیے بہترین سعی کی اور اس کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں وقف کر دیں۔
وقت کے انتہائی پابند ہونے کی بناء پر وہ سب سے پہلے ادارہ میں پہنچتے تھے۔ اسی طرح ہر جگہ جانے کے لیے وہ بر وقت تیار ہو کر پہنچتے تھے۔ لوگ کتنا ہی لیٹ کیوں نہ ہوتے، وہ اپنی روٹین کے پابند رہتے تھے۔
؎ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
ان کا مشاہرہ ان کے علم اور ان کی محنت کے مقابلے میں قلیل تھا لیکن انہیں اس کا شکوہ نہ تھا۔ امی جان کی گورنمنٹ جاب ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہ معقول تھی، لہٰذا بہت اچھا گزارا ہوتا رہا۔
والدہ محترمہ اور دیگر لوگ انہیں اس طرف توجہ دلاتے تو وہ کہتے۔ “کوئی بات نہیں، کچھ نہیں ہوتا۔”
ویسے بھی قناعت پسندی اور غیر ضروری چیزوں اور کاموں سے اجتناب کی وجہ سے ان کی زندگی میں بڑی برکت تھی۔
وہ خوشامد کرنے والے انسان نہیں تھے اور نہ اپنی خوشامد پسند کرتے تھے۔ ان کے بعد ادارےمیں آنے والے کئی افراد اُن سے عہدہ اور مشاہرہ وغیرہ میں آگے نکل گئے تھے لیکن انہوں نے اس بات کو کبھی تنازعہ یا مسئلہ نہ بنایا۔ وہ نبی کریمﷺ کی اس حدیث پر عمل پیرا رہتے تھے۔
“جس کو اللہ تعالیٰ نے قلیل رزقِ حلال عطا کیا، پھر اس نے اس رزق پر قناعت کی تو اللہ تعالیٰ اس کے کم عمل پر راضی ہو جائے گا۔”
نومبر 2013ء میں انہوں نے اپنی ناسازئ طبع اور کمزورئ صحت کی بناء پر ادارہ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ ادارہ ہذا کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ اپنے ملازمین کو آخر تک خود ریٹائر نہیں کرتا۔ (اَب غالباً ادارہ کی پالیسی تبدیل ہو گئی ہے)
لہٰذا انہوں نے ابا جان کو ریٹائر نہیں کیا۔ ابو جان نے خود ادارہ سے فراغت حاصل کرلی کیونکہ اَب ان سے تحقیقی کام صحیح طرح سے نہیں ہو پارہا تھا۔ عرصۂ دراز سے ادارہ کی جانب سے انہیں معاون (Assistant) بھی حاصل تھے لیکن اَب وہ اپنے کام سے مطمئن نہیں تھے اور اسے رزقِ حلال کے منافی سمجھتے تھے۔ ساری عُمر تو وہ لقمۂ حلال کے پابند و خُوگر رہے تھے۔
لہٰذا وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ادارۂ ہذا میں تینتیس سال (جمع دارالفکر کے دس سال یعنی تینتالیس سال) علمی و تحقیقی کام احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے۔
جماعتِ اسلامی سے وفا کا جو عہد انہوں نے باندھا تھا، تادمِ آخریں اسے نبھایا تھا!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابا جان ذہین و فطین، معاملہ فہم اور حد درجہ محنتی انسان تھے۔ خوشامد سے دور رہتے تھے، خوشامد نہ خود کسی کی کرتے تھے اور نہ اپنی پسند کرتے تھے۔ ان کے تعلیمی و تحقیقی کاموں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔
آپ زندگی بھر شعبہ تحقیق و تصنیف سے منسلک رہے اور درج ذیل کام کیے۔
“سیرت سرور عالم” (3 جلدیں) پر کام کیا۔
جو ادارہ ترجمان القرآن لاہور سے شائع ہوئی۔
“یہودیت و نصرانیت” دوسو صفحات پر مشتمل یہ کتاب انڈیا سے دو جلدوں میں طبع ہوئی۔
آپ کے ان تحقیقی کاموں میں تذکرہ انبیاء و رسل اور اسماء الحسنٰی نامی کتابیں بھی ہیں۔
شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کے موضع القرآن کی روشنی میں آیت وار تشریحی ترجمہ بھی مرتب کی۔
مولانا مودودی رحمہ اللہ کی مختلف کتب سے حاصل کیے گئے حدیث کے مواد کو اکٹھا کرکے “تفہیم الاحادیث” کتاب مرتب کی۔ اس پر آپ نے تقریباً 23 برس کام کیا اور اسے آٹھ جلدوں میں مرتب کیا۔
اور اس سلسلے میں آپ کا سب سے خوب صورت کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے حدیث کی معروف کتاب بلوغ المرام (من ادلہ الاحکام الشریعہ) مع تشریح مولانا صفی الرحمن مبارک پوری کا خوب صورت انداز میں اردو ترجمہ کیا جو ان کی حدیث رسول ﷺ سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کے علاوہ مختلف اسلامی رسائل و جرائد میں بھی آپ کے مضامین مختلف موضوعات پر طبع ہوئے۔
تبصرہ کتب کے حوالے سے بھی آپ نے کام کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن و سنت کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا حصہ بھی شامل کرتے توفیق عطا فرمائی تھی۔ ان کے کام کی مختصر تفصیل یہ ہے۔
1) آیت وار تشریحی ترجمہ قرآن مجید بعنوان “موضح القرآن” پر کیا گیا کام
(از شاہ عبدالقادر (مطبوعہ چاند کمپنی، اردو بازار، لاہور)
شاہ عبدالقادر دہلوی قرآن مجید کے ترجمہ اور حاشیہ (مختصر قرآنی تشریح) کو پرانی اردو میں لکھا گیا تھا، ابا جان نے انہیں رائج الوقت جدید اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور اس کا اسلوب قدیم سے جدید میں منتقل کر دیا ہے۔
2) آپ کا ایک خوب صورت کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے حدیث کی معروف کتاب بلوغ المرام (از ابن حجر عسقلانی) کی شرح از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری (الرحیق المختوم کے مصنف) کا خوبصورت بامحاورہ اردو ترجمہ کیا ہے جو دو جلدوں اور 292 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مطبوعہ دارالسلام لاہور ہے۔ یہ ان کی حدیث رسول ﷺ سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ابا جان ادارہ معارف اسلامی میں مختلف تحقیقی و علمی کام سرانجام دیتے تھے۔ مولانا مودودی مرحوم کے تمام لٹریچر میں سے انہوں نے مختلف کتابوں میں لکھا ہوا مختلف موضوعات پر مواد اکٹھا کیا اور انہیں ترتیب دے کر مختلف کتب کی تشکیل دی جسے ‘لوازمہ” کہتے ہیں۔ یہ بڑا بھاری اور محنت طلب ہے۔
کیونکہ تفہیم القرآن کی چھ جلدوں کے علاوہ مولانا مودودی کے وسیع لٹریچر کامطالعہ کرنا، اس میں موضوع کے مطابق ضروری اور مفید طلب عبارات کو نوٹ کر کے انڈر لائن کرنا، پھر ان کی مختلف نقول تیار کرنا وغیرہ شامل ہیں ابواب اور فصول میں ترتیب دینا، ان کے عنوان باندھنا، احادیث کی تخریج کرنا، یعنی ان کے بارے میں حوالہ جات ڈھونڈنا، حواشی لکھنا وغیرہ۔ یہ سب کام مکمل ہو جائیں تو یہ لوازمہ کا کام کہلاتا ہے۔
ایک نئی کتاب لکھنے کی نسبت یہ کام بہت زیادہ محنتی اور بھاری کام ہے اور اسکے لیے محقق کی شخصیت میں حد درجہ محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ اولواالعزمی اور استقامت کے اوصاف کا پایا جانا نہایت ضروری ہے۔ جو ابو جان کی شخصیت میں بدرجہ اَتم موجود تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی قلم و قرطاس اور کتب کا کام کرتے ہوئے گزار دی۔
اس کے علاوہ ابو جان ادارہ کی طرف سے مختلف علمی کتب اور مضامین وغیرہ پر بڑے بھرپور اور جامع انداز میں تبصرے کرتے تھے جو مختلف رسائل و جرائد مثلاً ایشیاء، ترجمان القرآن، ماہنامہ بتول، خواتین میگزین، محدث وغیرہ میں شائع ہوتے تھے۔
اپنی جوانی کے ابتدائی دورمیں ابو جان جماعت اسلامی رحیم یار خان کے کالج میں چند برس تدریسی فرائض کی ذمہ داری بھی کما حقہ، ادا کرتے رہے ہیں۔
ابو جان کی ذاتی کتب کی اچھی خاصی چھوٹی سی لائبریری گھر میں موجود ہے۔اسی طرح امی جان کی کتب کی الگ لائبریری موجود ہے۔ بہن بھائیوں کےشوق کی کتب الگ موجود ہیں۔ اس طرح ہمارا گھر پہلے کسی حد تک لائبریری نما دکھائی دیتا تھا۔ اب بچوں کی شادی کے بعد صورت حال فرق ہے۔
ابا جان کی کتب کھول کر دیکھیں تو ان پر جا بجا لیڈ پنسل سے اِملا (کمپوزنگ) کی غلطیوں کی تصحیح اور بسا اوقات فقروں کی بناوٹ وغیرہ پر تبصرے وغیرہ لکھے نظر آتے ہیں۔
ابا جان حکومتِ پاکستان کے رجسٹرڈ پروف ریڈر تھے۔ وہ گھر میں ذاتی حیثیت میں مختلف کمپنیوں اور اداروں کی طرف سے شائع کردہ قرآنِ مجید اور سیپاروں کی کتابت نیز ترجموں کی پروف ریڈنگ کرتے اور کمپوزنگ کی غلطیوں کی درستگی کرتے تھے۔
اس طرح قرآن مجید اور احادیثِ رسول پڑھنا لکھنا ہی زندگی بھر ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ “ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَشَآءُ”
وہ رَب تعالیٰ کے حضور چلے گئے ہیں لیکن ان کا کام باقی رہ گیا ہے!!!
ان کی “باقیات الصالحات” کا سلسلہ باقی رہ گیا ہے!!!
ان کی یادیں باقی رہ گئی ہیں جن کے نقوش بہت گہرے ہیں!!!
اللہ تعالیٰ ابا جان کے علمی و تحقیقی کام کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور اسے بقائے دوام کی خلعت پہنا دے۔ آمین
؎ ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایت کیسی؟
( جاری ہے )
9 پر “گلِ آرزو کی جو باس تھے، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے (حصہ دوم)” جوابات
بہترین اور معلوماتی آرٹیکل ہے۔
اندازِ بیان بہت عمدہ اور مؤثر ہے۔
اللہ تعالیٰ مولانا صاحب کی مغفرت فرمائے۔
اس طرح کے لوگ معاشرے کے لیے مثال ہوتے ہیں۔
بہترین اور دل کو چھونے والا عمدہ آرٹیکل ہے۔
ماشاءاللہ
Effective and efficient Article
Great guide for other and expressionsof beautiful life of Molana sahib
❣️❣️❣️
Effective and efficient article
بہت خوب ماشاءاللہ
Excellent and Great Article
Masha Allah
رب ارحمھما کما ربینی صغیرا
مؤثر انداز اور بہترین روداد ہے۔ماشاء اللہ
معاشرے میں ایسے لوگ بہت قیمتی ہوتے ہیں مگر ہوتے بہت کم ہیں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور گناہوں سے درگزر کرے۔ آمین ثم آمین