موبائل گیمز

کمپیوٹر اور موبائل گیمز کے اثرات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

“دیکھو! یہ لوگ مجھے قتل کرنے کے لیے بھاگے چلے آرہے ہیں۔”بزرگ خاتون بلند آواز میں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں۔
“لوگ کہاں ہیں؟ کدھر ہیں؟ ہمیں تو نظر نہیں آرہے؟” بڑے بیٹے نے جلدی سے پوچھا۔
باقی چاروں بیٹے بھی قریب کھڑے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔

“یہ دیکھو! ادھر بھی دیکھو! ادھر سے، ادھر سے بھی لوگ آرہے ہیں۔”بزرگ خاتون کی آواز مسلسل چیخنے اور بولنے کی وجہ سے بیٹھ چکی تھی۔

دراصل ان بزرگ خاتون نے اتفاقاً بچوں کی ایک گیم دیکھ لی جس کے دوران انہوں نے مار دھاڑ والے سین دیکھے تو ان کے ذہن پر اس کے بہت منفی اثر مرتب ہوئے تھے۔
پھر انہیں ارطغرل ڈرامہ دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا جس میں مختلف لوگ ایک دوسرے پر اسلحہ تانے لڑنے اور جنگ کرنے میں مصروف تھے۔ وہ یہ دیکھ کر ڈر گئیں اور سمجھیں کہ “شاید یہ بندے مجھے مارنے آ رہے ہیں۔”

رفتہ رفتہ یہ خیال ان کے ذہن پر اتنا سوار ہو گیا کہ وہ نفسیاتی مریضہ بن گئیں۔ وہ ہر وقت ڈرتی اور کہتی رہتی تھیں کہ “ابھی کوئی بندہ گن لے کر آئےگا اور مجھے مار دے گا۔”

پھر تا حیات یہی نفسیاتی کیفیت ان پر طاری رہی۔ واش روم بھی جاتی تھیں تو ڈر کر فوراً باہر آجاتی تھیں کہ “ابھی مجھے مارنے کے لیے بندے اندر آجائیں گے۔”

“کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ یہاں کوئی بندہ نہیں آیا اور نہ ہی آئےگا۔ اگر کوئی آگیا تو ہم خود اسے پکڑ لیں گے۔” سب اہل خانہ اور ملنے جلنے والے انہیں حوصلہ اور تسلی دیتے اور کہتے تھے۔

وہ وقتی طور پر بہل جاتی تھیں لیکن کچھ دیر بعد ان پر پھر یہی کیفیت طاری ہو جاتی۔

لیکن وہ سب کے درمیان بیٹھی بھی پریشان ہو رہی ہوتی تھیں کہ “دیکھو! وہ لوگ مجھے مارنے کے لیے بالکل قریب آگئے ہیں۔ وہ آپ کو نظر کیوں نہیں آرہے؟”
کھانا کھانے لگتیں تو کھایا نہ جاتا کہ ” وہ لوگ مجھے مار دیں گے۔ آپ دیکھتے کیوں نہیں ہیں؟”
کوئی ان کے پاس بیٹھا ہوتا تو اسے یہی کہتی رہتیں۔
حتٰی کہ اسی کیفیت میں مبتلا رہ کر کچھ عرصہ میں ان کا انتقال ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمپیوٹر اور موبائل گیمز کھیلنا لوگ بہت پسند کرتے ہیں لیکن اس میں وقت کا ضیاع بھی بہت زیادہ کرتے ہیں۔ بچے اور نوجوانوں خصوصاً ٹین ایجرز کی پسند عموماً مار دھاڑ والی گیمز ہوتی ہیں۔
آج کے بچوں اور جوانوں کی دنیا موبائل فون، ٹیبلٹ اور کمپیوٹر جیسی ڈیوائسز تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

اچھی، صاف ستھری اور بامقصد گیمز کھیلنے میں حرج نہیں جن سے ذہن کی مشق ہوتی ہو اور وقت کا استعمال بھی صحیح طرح ہوتا ہو۔ بعض تعلیمی گیمز تو فائدہ مند ہوتی ہیں۔ اور ذہنی استعداد بڑھاتی ہیں، تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہیں لیکن اگر بچے صرف وہی گیمز کھیلیں تو۔۔۔!

دیکھا جائے تو حقیقت میں صرف تعلیمی اور بامقصد گیمز بہتر ہوتی ہیں۔ اور سنجیدہ مزاج اور وقت کا صحیح استعمال کرنے والے لوگ بچوں کے صرف ان تعلیمی اور بامقصد گیمز کھیلنے کے حق میں ہوتے ہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان میں بچے دلچسپی کم رکھتے ہیں۔ اور انہیں کھیلنا پسند نہیں کرتے۔

باقی رہ گیا معاملہ عصر حاضر کی دیگر گیمز کا، تو بچے آج کل جو گیمز کھیلتے اور کارٹونز دیکھتے ہیں ، تو وہ عام طور پر انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں اور بچوں کے ذہنوں اور اخلاق و کردار پر ان کے بہت غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

گیمز اور کارٹونز میں بہت کچھ غلط ہوتا ہے۔ مرد اور عورتوں دونوں کا لباس مختصر ہوتا ہے لیکن خصوصاً عورتوں کا لباس انتہائی نازیبا، نیم عریاں یا بالکل عریاں اور غیر اخلاقی ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات سرے سے پہنا ہی نہیں ہوتا۔

بچّوں کی تعمیری و تخلیقی صلاحیتوں کی تباہی و پامالی ہوتی ہے۔

کچھ کھیل بہت جارحانہ اور پرتشدد ہوتے ہیں۔ بچے ان کو کھیلنے سے جارحانہ مزاج اپنا لیتے ہیں۔ اور صرف اپنی بات منوانا چاہتے ہیں۔

کئی کھیلوں اور کارٹونز میں جنس اور جنسی تعلق سازش یا کہانی کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔

زیادہ گیمز کھیلنا یا کارٹونز دیکھتے رہنا تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی تعلیمی و تربیتی کارکردگی متاثر کرتا ہے۔ اپنے خاندان کے ساتھ تعلقات اور ان کے ساتھ وقت گزارنا اور عام طور پر دن بھر کی روٹین کو متاثر کرتا ہے۔

بعض اوقات گیمز اور کارٹونز کا یہ مواد صرف جسمانی معاملات تک محدود نہیں ہوتا ہے بلکہ نظریات اور عقائد میں بھی داخل ہوجاتا ہے۔
مثلاً پب جی گیم ایک معروف گیم ہے جسے بچے بڑے کافی ذوق و شوق سے کھیلتے ہیں۔ بلکہ اس کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

اس گیم کے بارے میں ایک بڑا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اس میں کھلاڑی کو گیم کے دوران سکور/ پوائنٹس حاصل کرنے کے لیے بعض شرکیہ کام سر انجام دینے پڑتے ہیں۔ مثلاً بتوں (مورتیوں) کے آگے سجدہ کرنا پڑتا ہے۔

پب جی گیم کے کھلاڑی کہتے ہیں کہ
“پب جی گیم میں شرک صرف گیم کے version کے مطابق ہوتا ہے۔ “
مثلاً پاکستانی کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ “گیم کے پاکستانی ورژن میں شرک نہیں ہوتا۔ بلکہ شرک والا کام گیم کے چائنیز یا کورین ورژن وغیرہ میں ہوتا ہے۔”

میں نے یہ گیم نہیں کھیلی۔ بلکہ کوئی بھی کمپیوٹر یا موبائل گیم کبھی نہیں کھیلی۔ اس لیے مجھے اس کا ذاتی طور پر اندازہ نہیں ہے۔

لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ “اگر کھیل میں کھلاڑی بتوں کو سجدہ کرتا ہے، تو وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔ لیکن اگر کھلاڑی بتوں کو سجدہ نہیں کرتا تو پھر اس کا معاملہ فرق ہے۔ تاہم احتیاط بہتر ہے۔”

لہٰذا بچوں بڑوں کو ان چند بڑے بڑے نقصانات اور خامیوں کے بارے میں ضرور بتانا چاہیے اور ان کی ذہن سازی کرنی چاہیے کہ یہ معاملات اسلامی تعلیمات کے منافی اور گناہ بھی ہو سکتے ہیں۔ لہذا ہمیں ان نقصان دہ گیمز سے بچنے کی ہر ممکن کوشش ضرور کرنی چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

6 پر “کمپیوٹر اور موبائل گیمز کے اثرات” جوابات

  1. عمیر Avatar
    عمیر

    بہترین اور خوبصورت آرٹیکل ہے۔
    ایسے نیک لوگ معاشرے کے لیے مثال ہوتے ہیں

  2. عمیر Avatar
    عمیر

    ماشاءاللہ بہت خوبصورت اور معلوماتی آرٹیکل ہے جی بالکل درست کہا ہے آپ نے۔
    میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ موبائل فون اور کمپیوٹر وغیرہ ہمارے بچوں کو بگاڑ رہے ہیں۔

  3. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    Effective and efficient Article
    Masha Allah

    1. طلحہ Avatar
      طلحہ

      💯
      عمدہ اور حقیقت پر مبنی آرٹیکل ہے۔ ماشاءاللہ

      بلاشبہ کمپیوٹر اور موبائل میں مار دھاڑ والی گیمز کھیلنے کے انسانی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

  4. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    Great guide and efficient Article

  5. طلحہ Avatar
    طلحہ

    عمدہ اور حقیقت پر مبنی آرٹیکل ہے ماشاءاللہ