مسلمان باحجاب ماں اور بیٹی

بچوں کی پرورش ، پیار کے ساتھ !

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ام ہادی

سوال:اکلوتی بچی ہر وقت پیار اور توجہ چاہتی ہے اسے کیسے کم کیا جائے؟
جواب: اکلوتا ہونا اس رویے کی بڑی وجہ تو ہو سکتی ہے مگر “یہی ایک وجہ” نہیں ہو گی۔

ضرورت سے زیادہ توجہ اور محبت کی طلب دو صورتوں میں ہو سکتی ہے۔ جسے یہ سب ضرورت سے زیادہ ملتا رہا یا ضرورت سے کم۔ وجہ جو بھی رہی ہو اس رویے کو ڈیل کرنے کے لیے بھی آپ کو محبت اور توجہ کی “مقدار” بڑھانا ہو گی۔ کچھ چیزیں جو میرے ذہن میں ہیں یا اپنے بچوں کے ساتھ کرتی ہوں وہ میں آپ سے شیئر کرتی ہوں ممکن ہے کوئی کام کی بات مل جائے۔

عام حالات میں بھی انسان کو اور خاص طور پر بچے کو دن میں آٹھ مرتبہ جپھی چاہیے ہوتی ہے
Hug you know 🙂
تو اتنی ڈیمانڈ تو نارمل ہے۔ بس آپ کریں یہ کہ آٹھ مرتبہ کی جپھی اسے مانگے بغیر دیں۔ مطلب پہل آپ کی طرف سے ہو۔

صبح اٹھاتے اور رات کو سلاتے وقت ماتھے پر پیار ضرور کریں۔

سکول جاتے ہوئے تمام ضروری و غیر ضروری کام چھوڑ کر اسے مکمل متوجہ ہو کر خدا حافظ کہیں۔

لنچ بکس میں کبھی کبھار کوئی نوٹ لکھ کر ڈال دیا کریں بھلے رات کو لکھ کر رکھ لیں۔ اور یہ بہت لمبا ہونا ضروری نہیں صرف
Missing you
Love you
آپ بہت اچھی بیٹی ہیں
وغیرہ جیسے چند لفظی فقرے بھی کافی ہیں۔ کبھی کبھار لمبا نوٹ بھی لکھا جا سکتا ہے۔

نماز پڑھتے وقت فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھتے ہوئے اسے پاس بلا کر دم کر دیں ساتھ میں ایک پاری( بوسہ )۔ میرے بچے تو اس پر بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ چھوٹی والی کو تو فرض کے بعد والے اذکار کے دوران بلا کر گود میں بٹھا لیتی ہوں۔

ہوم ورک کرتے کھیلتے کارٹون دیکھتے مطلب وہ کسی بھی کام میں مصروف ہے اور آپ اپنے کام میں مصروف ہیں بس یونہی چلتے چلتے پاس آ کر گلے لگا لیں ماتھے پر پیار کر دیں صرف سائیڈ سے ساتھ لگا کر کندھا تھپک دیں یہی عمل اسے کبھی کبھی پاس بلا کر کیا جا سکتا ہے۔یقین کریں بچے اس “غیر متوقع اظہار محبت” کو بہت انجوائے کرتے ہیں۔

جوائنٹ فیملی میں تین بچوں کو کوالٹی ٹائم دینا بہت مشکل ہے خاص طور پر جب آپ بڑی اور ابھی تک اکلوتی بہو ہوں۔ اس لیے اظہار محبت کے یہ “طریقے” ضرورت کے تحت اپنائے جو الحمدللہ کامیاب رہے۔

گھر کا مینیو چھوٹے موٹے معاملات اور اپنی ایسی چھوٹی موٹی “فکریں” اس سے ڈسکس کریں جو اصل میں “فکریں” ہیں نہیں۔ حل کے لیے مشورہ طلب کریں۔ مطلب جن جن معاملات میں اس کی عمر اور ذہنی پختگی کے مطابق اس سے بات کی جا سکتی ہے کریں۔ اس سے ایک تو انڈرسٹینڈنگ بڑھے گی ، اسے آپ کی طرف سے یہ سگنل ملے گا کہ وہ آپ کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کی رائے آپ کے لیے اہم ہے۔ نتیجتا وہ آپ سے اپنی باتیں مسائل خیالات و احساسات شیئر کرنا سیکھے گی۔

دوسرا اس میں میچیورٹی آئے گی کہ اب وہ بڑی ہو رہی ہے . اس کے محبت لینے اور دینے کے انداز کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونا چاہیے۔ وہ آپ کو ہی بطور رول ماڈل اس کے لیے دیکھے گی کہ اس کی والدہ جن سے محبت کرتی ہیں ، ان کاخیال رکھتی ہیں ، ان کی خدمت کرتی ہیں ، ان سے نرمی سے بات کرتی ہیں ، غصے کو کنٹرول کرنے کی “کوشش ” کرتی ہیں . ان کی دل آزاری نہیں کرتیں اور وہ انہی سب طریقوں کو اپنانے کی کوشش کرے گی اور آپ کی مکمل توجہ سے ان شاء اللہ اس میں کامیاب بھی ہو جائے گی۔

رات سوتے وقت بےشک صرف تین آیات ہوں مگر ان کا آسان مفہوم خود بھی سمجھیں اور اسے بھی سمجھانے کی کوشش کریں۔ یہ سرگرمی بےشک صرف دس سے پندرہ منٹ کی ہو مگر یہ آپ دونوں کو ایک دوسرے سے اللہ سے اور قرآن سے اس خوبصورتی سے جوڑے گی اور ایسے ایسے فائدے ملیں گے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کہ آپ خود حیران رہ جائیں گی۔

جتنا وقت اسے دیں وہ دو منٹ ہوں یا دو گھنٹے پھر وہ واقعی اسے دیں۔ اس میں آپ کے سر پر چولھے پر رکھی ہانڈی ، دھونے والے کپڑوں یا اگلے ہفتے آنے والے مہمانوں کی فکر سوار نہیں ہونی چاہیے۔ نہ اسے بار بار یہ جتائیں کہ آپ کا وقت “ضائع” ہو رہا ہے۔ دیر ہو رہی ہے وغیرہ۔

جب ہم بچے کو کچھ سکھا پڑھا سمجھا رہے ہوتے ہیں تو اصل میں ہم اسے وقت دے نہیں رہے ہوتے بلکہ اس کا وقت لے رہے ہوتے ہیں۔ وقت ” دینا” ہم تب کہہ سکتے ہیں جب ہم بچے کی شرائط یا مرضی کے مطابق وہ وقت گزاریں۔ اس سے باتیں کرنا کھیلنا مل کر اس کی پسند کا کچھ پکانا بنانا یا کرنا۔ کہانیاں بننا۔ بچوں کو ان کے ابتدائی سالوں کی باتیں اور والدین کے بچپن کی باتیں سننا بہت اچھا لگتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جو وقت بچے کو دیں اسے اسی کی پسندیدہ سرگرمی میں صرف کریں۔

غیر متوقع گفٹس دیں۔ میں ذاتی طور پر بلا ضرورت خریداری کی قائل نہیں ہوں تو ان کی ضرورت کی چیزیں ہی گفٹ کی صورت دے دیتی ہوں۔ بچے بھی خوش ہم بھی خوش۔🙂

اپنے بچوں کو پیار وقت توجہ کے ساتھ ساتھ کسی کے ساتھ بھی دنیا کی کوئی بھی نعمت بانٹنے میں یہ سوچ کر کنجوسی نہ کریں کہ جب یہ نہیں ہو گا تو کیا بنے گا۔ یقین رکھیں کہ مال و دولت ہو یا پیار محبت مادی نعمتیں ہوں یا جذباتی و روحانی یہ سب رزق ہوتی ہیں اور یہ جس کا جتنا نصیب میں لکھا ہو مل کر رہتا ہے بھلے اللہ وسیلہ کسی کو بھی بنائے۔

سو جو آپ کے پاس کسی کا کسی بھی طرح کا رزق امانت ہے آپ ادا کر دیں۔ آپ کے بعد اللہ کوئی اور وسیلہ بنا دے گا کیونکہ یہ سوچنا اس کا ڈیپارٹمنٹ ہے ہمارا نہیں کہ یہ سب کب کیسے کس کے ذریعے اور کتنا ہو گا۔

ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرتہ اعینا و جعلنا للمتقین اماما۔
آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں