انڈیا کی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے پندرہ برس تک اقتدار سے باہر رہنے کے بعد چھتیس گڑھ میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے اقتدار چھین لیا ہے اور راجستھان میں بھی اکثریت حاصل کر لی ہے۔
شمال کی ریاست مدھیہ پردیش میں کانگریس انتخابی نتائج کے رحجانات کے آخری مراحل میں بھی بی جے پی سے آگے ہے۔ ان ریاستوں میں کانگریس کی واپسی ملک کی انتخابی سیاست میں بدلتے ہوئے رخ کا اشارہ ہے۔
جنوبی ریاست تلنگانہ میں توقعات کے مطابق علاقائی جماعت ٹی آر ایس کامیاب رہی۔ کانگریس اور اس کے اتحادی دوسرے مقام پر رہے ۔ بی جے پی ریاست میں کوئی خاص کامیابی نہ حاصل کر سکی۔
شمال مشرقی ریاست میزورم میں بھی علاقائی جماعت میزو نیشل فرنٹ نے اکثریت حاصل کی ہے اور کانگریس دوسرے نمبر پر رہی۔ یہاں بھی بی جے پی کچھ خاص نہ کر سکی۔
آئندہ چند مہینوں میں پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر ان ریاستی انتخابات کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ شمالی ریاستوں میں مقبولیت گھٹنے کے ساتھ ہی کانگریس کا زوال شروع ہوا تھا۔
گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے اپنی بیشتر سیٹیں اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ جیسی شمالی ریاستوں سے جیتی تھیں۔ ان میں سے تین ریاستوں میں کانگریس کی واپسی بی جے پی کے لیے خطرے کا اشارہ ہے۔
شمالی ریاستوں میں کانگریس کی جیت سے نہ صرف اسے ایک نئی طاقت حاصل ہوگئی ہے بلکہ اس سے پارٹی کے رہنما راہل گاندھی کی قیادت کی سیاسی حیثیت بھی مستحکم ہوئی ہے۔
ان نتائج کے ساتھ ہی اتر پردیش اور بہار میں کانگریس اور علاقائی جماعتوں کے درمیان اتحاد کے راستے ہموار ہو گئے ہیں۔
کانگریس اتر پردیش اور بہار میں اکھیلیش یادو، مایاوتی اور لالو کی جماعت کے ساتھ ایک وسیع اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ان نتائج کے بعد اتحاد کی کوششیں اور تیز ہو جائیں گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں برسرِ اقتدار بی جے پی کو پہلی بار زبردست سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سیاسی مبصرین مودی کو انتخابی طور پر ‘ناقابل شکست’ اور ‘کرشماتی رہنما’ قرار دے رہے تھے۔ ہر کوئی مودی کی دوسری مدت کی بات کر رہا تھا لیکن ان نتائج سے مودی اور ان کی جماعت کو زبردست سیاسی نقضان پہنچا ہے۔
بی جے پی کے ترجمان سید ظفر اسلام نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘بی جے پی ان شمالی ریاستوں میں ایک طویل عرصے سے اقتدار میں تھی۔ اس لیے پارٹی کی شکست بہت غیر متوقع نہیں ہے اور ان کا پارلیمانی انتخات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔’
لیکن کانگریس کی رہنما پریانکا چترویدی کا کہنا ہے کہ یہ نتائج وزیر اعظم مودی کی حکومت کی کارکردگی سے عوام کی ناراضگی کی عکاسی کرتے ہیں۔
‘کانگریس اب نئی طاقت اور جوش کے ساتھ پارلیمانی انتخاب میں اترے گی۔’
عام آدمی پارٹی کے رہنما اور دلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ‘وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔’
دوسری جانب وزیر اعظم نریندر مودی نے ابھی تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاستی اسمبلیوں کے یہ نتائج ملک کی موجودہ سیاست کے پس منظر میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان نتائج کے بعد ملک میں پارلیمانی انتخابات کی سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی اور بی جے پی کی قیادت کو نئی انتخابی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔’