نگہت حسین
اپنی گلی میں تو کتا بھی شیر ہوتا ہے یہ تو ہمیشہ ہی سنا تھا لیکن کراچی کی گلیوں کے کتے تو ہر جگہ شیر ہیں ۔ گویا پورا کراچی ان کی گلی میں شمار ہوتا ہے ۔ جس جرات اور تفاخر سے ہر جگہ براجمان ملتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ مستقبل میں یہ شہر ان کے نام نہ ہو جائے۔۔
گھر شفٹ کرنے سے پہلے ہماری بچی نے خاص طور پوچھا تھا کہ ادھر کتے تو نہیں؟ جواب ملا کہ نہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی ۔
اب حالات یہ ہیں کہ ایک پتھر کو صاف ستھرا کر کے ہمہ وقت باہر نکلتے وقت رکھا جاتا ہے ، کسی اچھے آؤٹ لیٹ چلے جائیں تو وہ بی بی سے تشویش بھری نظروں سے اس پتھر کو رکھنے کی وجوہات پوچھتے ہیں جس پر وہ ہنستی کھلکھلاتی رہ جاتی ہیں کہ کیا بتاؤں لیکن سارا وقت ہماری کڑی نگرانی ہوتی ہے کہ کہیں ہم کسی ہر پتھر ہی نہ دے ماریں ۔
ویسے کراچی کی سڑکوں اور گلیوں میں مارے مارے پھرتے کتوں کو دیکھ کر اتنا ترس آتا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ ان کا بنے گا کیا ۔ انسانوں کی بے حسی کی حد ہے ۔
اتنے درد ناک مناظر ہیں کہ گزشتہ چار دنوں سے ہماری اتنی خوب صورت سرسبز و شاداب گلی میں ایک بے چارہ کتا درخت کے نیچے کسی لاپتہ انسان کی طرح بے گورو کفن پڑا دیکھا ، کوئی اٹھانے کو تیار نہیں ۔
کتوں کے غول کے غول انسانوں سے تحفظ کے لئے گلی گلی گشت کرتے ہیں ، حکومت کو ذرا احساس نہیں کہ ان کی سیکیورٹی کے لئے کچھ کرے۔
گلی گلی انسانوں پر بھونکنے اور کاٹنے کی آزادی دینے اور صرف ہپستالوں سے ویکسین غائب کرنے سے انسانوں کو سزا تھوڑی ملے گی بلکہ انسانوں کو کاٹنے کے بعد کتوں کی حفاظتی ویکسینیشن اور ان کے دانتوں کو انسانی جراثیم سے بچانا کس کا کام ہے ؟
بڑھتی ہوئی ابادی کے لئے کتا شماری ، ان کی حلقہ بندی ، کتا احساس پروگرام کے تحت راشن پانی کا انتظام وغیرہ تو کتوں کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے ۔ کراچی کو انسانوں سے جلد از جلد خالی کروا کر کتوں کو تحفظ فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟
پھر بھی کتے اتنے سادہ اور خوش گمان ہیں کہ حکومت میں بیٹھے انسانوں کے خصائل دیکھ کر انھیں اپنا سمجھتے ہیں۔
کاش کتوں کو مزید عقل آئے تو وہ اس دفعہ بھونکنے کے بجائے الیکشن کی تیاری کرلیں تو کوئی نہ کوئی ان کا بھی پکا نمائندہ اسمبلی میں پہنچ جائے گا ۔اصلی شکل و صورت میں اسمبلی میں بیٹھنا ماسکنگ کرنے سے بہتر نہیں؟