عمران خان

عمران خان سا خوش قسمت اور وزیراعظم عمران خان سا بدقسمت!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جمال عبد اللہ عثمان :

میڈیا عمران خان سے نفرت کرتا ہے۔ اس کی حکومت کو چلتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتا۔ اس کے لفافے بند ہوجاتے ہیں۔ مافیاز پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ وہ اسے کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ کیونکہ اس میں اس کی اپنی موت ہے۔ اپوزیشن اس حکومت کے خلاف سازشیں کررہی ہے۔ حکومت عدم استحکام کا شکار رہے۔ کیونکہ اس کا اپنا سارا پیسہ ملک سے باہر ہے۔

اس طرح کے بے شمار ”دلائل“ ہیں ۔ یہ آپ کو وزیراعظم کی زبان سے سننے کو ملیں گے ۔ ان کے وزرا اور کارکنان اس کی مالا جپتے نظر آئیں گے۔
اس میں کتنی حقیقت ہے؟ میں ایک مختصر سا موازنہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں ، اُمید ہے کسی حد تک اپنا مدعا بیان کرنے میں کامیاب ہوسکوں گا۔

پاکستان میں کتنی ایسی حکومتیں آئی ہوں گی جنہیں پی ٹی آئی حکومت جیسا سازگار ماحول میسر آیا ہو؟ فوجی حکومتوں کے ادوار میں کسی نہ کسی طرح سیاسی جماعتیں مسائل کھڑی کرتی رہیں جبکہ سیاسی حکومتوں میں اسٹیبلشمنٹ کی پوری کوشش ہوتی کہ جمہوریت کا پہیہ نہ چلے۔ سیاسی حکومتوں کے انہی ادوار میں رہی سہی کسر دوسری سیاسی جماعتیں پوری کردیتیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر حربہ آزما کر لیکن پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے۔ چند حکومتیں ہوں گی جن کے لیے تین سال امن ہی امن اور چین ہی چین لکھا اور بولا جاتا رہا ہو۔

میں مزید واضح کردوں۔

مجھے اپنی زندگی میں بہت زیادہ حکومتیں دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن اپنے سینئرز سے جتنا سنا، کتابوں میں جتنا پڑھا۔ اکثر حکومتوں کا حال اس گاڑی جیسا رہا، جس کے دو ڈرائیور ہوں۔ ایک ایکسیلیٹر دبارہا ہو۔ دوسرا پوری قوت کے ساتھ بریک پر پاؤں رکھے ہوئے ہو۔ بہت کم ہی حکومتیں ایسی آئیں جن کے دور میں میڈیا پر تالے لگے ہوں۔ اپوزیشن کی زبان سے لفظ تک نہ نکلتا ہو۔ عدلیہ میں جس کے لیے اس قدر نرم گوشہ ہو۔ اور سب سے بڑی قوت اسٹیبلشمنٹ جس کی پشت پر پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہو۔ پرویز مشرف ایک فوجی ڈکٹیٹر تھا۔ اسے بھی کچھ نہ کچھ مزاحمت کا سامنا رہا۔ اس سے پہلے جنرل ضیاء اور جنرل ایوب کو بھی ذہن میں رکھیے۔

ان سب حکومتوں کے مقابلے میں مگر آپ پاکستان تحریک انصاف کا دور دیکھیے۔

میں ذرا آسانی کے ساتھ ایک ایک کرکے بتائے دیتا ہوں۔ تین قوتیں ہیں۔ جن کی وجہ سے حکومتیں ہمیشہ پریشانی کا شکار رہیں۔ جن سے ہمیشہ حکومتوں کو شکایات رہیں۔

ایک، میڈیا۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں اس کا حال یہ تھا کہ کئی صحافیوں اور اینکرز کا گلا گھونٹا گیا۔ طلعت حسین کو تیسرا سال ہے۔ کسی ٹی وی چینل پر آپ کو نظر نہیں آئیں گے۔ نصرت جاوید ایک عرصے سے گھرپر بیٹھے ہیں۔ مطیع اللہ جان کو یوٹیوب چینل تک محدود کردیا گیا۔ حامد میر کئی ماہ سے آف ایر ہیں۔ عاصمہ شیرازی کے ساتھ کچھ دن پہلے جو کچھ کیا گیا، وہ آپ کے سامنے ہے۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں میڈیا نے جو کچھ کیا، اس کا چند فیصد بھی اس حکومت کو سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کئی بڑے اسکینڈلز آئے۔ عجب کرپشن کی غضب کہانیاں آئیں، لیکن کوئی چینل اس پر سرخ ہوا نہ نیلا۔

دوم، اسٹیبلشمنٹ۔ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کسی سویلین حکومت کی پشت پر یہ ادارہ اس انداز سے کھڑا ہوا ہو۔ جب پی ٹی آئی حکومت آئی۔ فیصلہ نہیں ہوپارہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں۔ ملکی معیشت کے لیے الارمنگ صورتِ حال ہونے لگی تو آرمی چیف بنفس نفیس سعودی عرب، اور چین جاکر امداد لے آئے۔

”ارسطوئے وقت“ اسد عمر سے معاملات نہ سنبھل سکے تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنا وزیر خزانہ لاکر دے دیا۔ تب بھی معاملات بہتر نہ ہوئے تو کاروباری طبقے کو بلا بلاکر حکومت کی پشت پر کھڑے ہونے کی ترغیب دی گئی۔ ایسا ماحول بنانے کے لیے کہا گیا جس سے تاثر ملے کہ ملک چل رہا ہے اور خوب چل رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف پر اپوزیشن تعاون سے انکاری ہوئی، تو اسی نے اپوزیشن کو ٹیبل پر لابٹھایا۔ کیسی کیسی کہانیاں ہیں۔ کیا کیا لکھا جائے۔

مختصر یہی کہ شاید پاکستان کی تاریخ کی پہلی حکومت ہوگی جس کے لیے سب سے طاقتور ترین ادارہ آفیشلی اعلان کرتا ہے کہ چھ ماہ تک مثبت خبریں چلائی جائیں۔ اس کے بعد بھی علی الاعلان نہ سہی، صورتِ حال یہی رہی۔

سوم، عدلیہ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اس کے لیے سانس لینا تک مشکل بنادیا گیا تھا۔ ہر چھوٹے بڑے واقعے پر سوموٹو ایکشن۔ مختلف کیس لگتے اور اگلے دن کے اخبارات میں اربوں اور کھربوں کی کرپشن کی شہ سرخیاں ہوتیں۔ کبھی کسی وزیر کو بلایا جاتا اور کبھی مشیر کو بلاکر جھاڑ پلائی جاتی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کھڑے کھڑے فارغ کردیا گیا۔

ن لیگ کا دورِ حکومت آیا۔ اس حکومت میں اس کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ شاید بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ زیادہ پرانی تاریخ نہیں۔ مختصر یہ کہ نوازشریف کو نااہل قرار دیا گیا۔ اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ ان کی بیٹی اور داماد بھی ساتھ۔ مسلم لیگ ن کی قیادت ان سے چھین لی گئی۔ یہاں تک کہ سینیٹ کے انتخابات ہوئے تو بننے والے سینیٹرز بھی ن لیگ کے نہ کہلائے جاسکے کہ دستخط نوازشریف کے تھے۔

لیکن یہاں بھی پی ٹی آئی کی خوش قسمتی ملاحظہ کیجیے۔ تین سال سے زائد ہوچکے ہیں۔ حکومت کے خلاف کئی کیس سپریم کورٹ تک پہنچ چکے لیکن ہر کیس میں نتیجہ اس کی خوش بختی کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ سینیٹ میں خفیہ ووٹنگ پر جو سماعتیں ہوئیں، انہیں سن کر سننے والے یہ کہنے پر مجبور ہوتے کہ آخر حکومتی نمایندے یعنی اٹارنی جنرل آف پاکستان کی یہاں کیا ضرورت؟ جو دلائل وہ دے رہے ہیں، اس سے بہتر دلائل تو بینچ میں موجود جج صاحبان دے رہے ہیں۔

ترقیاتی فنڈز کیس میں جس انداز سے حکومت کو ”این آر او“ دیا گیا اور جس طرح اپنے ایک ساتھی جج جسٹس فائز عیسیٰ کو رسوا کیا گیا، اس سے بڑھ کر مثال کیا دی جاسکتی ہے۔ چینی اسکینڈل، گندم اسکینڈل، پیٹرولیم اسکینڈل، دواؤں کا اسکینڈل، غرض کون کون سے اسکینڈل ہیں، جن میں کئی سو ارب روپے کرپشن کے الزامات لگے، لیکن مجال ہے کہ کبھی اس پر سوموٹو کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔

میں اختتام کی طرف آتا ہوں۔
خلاصہ یہ کہ آپ کے لیے اتنا شاندار ماحول رہا۔ تمام قوتیں آپ کے ساتھ اس قدر تعاون کرتی رہیں۔ اس کے باوجود اگر آپ پرفارم نہ کرسکے۔ اس کے باوجود آپ ملک اور قوم کی حالت بہتر نہ کرسکے۔ بہتری تو دور کی بات، روز بروز مسائل میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ پہلے غریب روتا تھا، یہ شاید پہلی بار ہوا ہوگا جب مڈل کلاس بھی ”بھرم“ برقرار رکھنے کے لیے جتن کررہی ہے۔

اس کے باوجود اگر آپ کو اب بھی گلہ ہے کہ مافیاز ہمیں کام نہیں کرنے دے رہے۔ اپوزیشن ہمارے راستے کی رکاوٹ ہے۔ تو بہتر یہ ہے کہ کچھ اپنی اداؤں پر بھی غور کرلیں۔ یہ بھی ممکن نہیں تو پھر آخری حل یہی ہے کہ اس قوم سے معافی مانگ کر ملک ان کرپٹ اور چور سیاست دانوں کے حوالے کردیں۔ شاید اب یہ طے ہوچکا ہے کہ یہ ملک اور یہ قوم آپ جیسے ”صادق“ اور ”امین“ سیاست دانوں اور حکمرانوں کے لیے نہیں، بلکہ ”کرپٹ“ اور ”چور“ سیاست دانوں کے لیے بنی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں