انصارعناسی
وزیراعظم عمران خان کو کس نے غلط معلومات فراہم کی کہ ان کی حکومت نے پاکستانیوں کے بیرون ملک چھپے اربوں ڈالرز کی معلومات حاصل کرنے کیلئے 26؍ ملکوں کی حکومتوں سے معاہدے کیے ہیں؟ مختلف ٹی وی چینلوں سے تعلق رکھنے والے اینکرز کو دیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ اقتدار میں آتے ہی ان کی حکومت نے 26؍ ملکوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے تاکہ بیرون ممالک میں چھپی پاکستانیوں کی دولت کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکیں۔
وزیراعظم نے اس بات کا کریڈٹ لیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ معاہدے پچھلی حکومتوں نے نہیں کیے تھے۔ تاہم، جمعہ کو دی نیوز نے یہ حقیقت پر مبنی خبر شائع کی کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے کسی بھی غیر ملکی حکومت کے ساتھ اب تک کوئی معاہدہ نہیں کیا تاکہ پاکستانیوں کے بیرون ملک چھپے اربوں ڈالرز کی ریکوری کی جا سکے۔ اس کی بجائے بیرون ممالک سے ملنے والی معلومات مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے کیے گئے معاہدے کا نتیجہ ہے۔ یہ واضح نہیں کہ کس نے وزیراعظم کو اس معاملے پر غلط معلومات فراہم کیں جس کی وجہ سے عمران خان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ جس بات کیلئے انہوں نے اپنی حکومت کیلئے کریڈٹ لینے کی کوشش کی وہ اصل میں مسلم لیگ ن کی حکومت کا کریڈٹ ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ وزیراعظم کو فراہم کردہ غلط معلومات کی تصدیق ان کے ساتھیوں نے بھی نہیں کی جس کی وجہ سے مخالفین نے عمران خان کو رسوا کیا۔ جیسا کہ دی نیوز میں خبر شائع ہو چکی ہے کہ حکومت پاکستان کو پاکستانیوں کی بیرون ملک موجود دولت کی معلومات ملنا شروع ہو گئی ہیں اور یہ اُس بین الاقوامی معاہدے کا نتیجہ ہے جس کا نام ’’ٹیکس امور کیلئے کثیر الفریقی معاہدہ برائے باہمی انتظامی معاونت‘‘ ہے۔ یہ معاہدہ اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کا معاہدہ ہے۔ معاہدے کا مقصد ٹیکس سے بچنے کے بڑھتے واقعات کو روکنا تھا، اور یہ معاہدہ رواں سال ستمبر سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔
معاہدے کے حوالے سے رکن ممالک کی تعداد 100؍ ہے جبکہ اس پر پاکستان کی طرف سے 14؍ ستمبر 2016ء کو اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے او ای سی ڈی کے فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں قائم ہیڈکوارٹرز میں دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ رکن ممالک سے پاکستانیوں کی جانب سے ان کے ملک میں کی جانے والی سرمایہ کاری اور جمع کی جانے والی دولت کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے۔ پاکستان کے معاملے میں، یہ معاہدہ ستمبر میں نافذ العمل ہوگیا یعنی پی ٹی آئی حکومت کے آنے کے چند ہفتوں بعد۔ ایف بی آر کے سینئر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حکومت کو 26؍ یا اس سے زائد ملکوں سے موصول ہونے والی معلومات اس قانونی فریم ورک کا نتیجہ ہے جس پر 2016ء میں دستخط کیے گئے تھے اور یہ چند ماہ قبل ہی نافذ ہو چکا ہے۔
14؍ ستمبر کو او ای سی ڈی نے خود اعلان کیا تھا کہ پاکستان 104واں ملک بن گیا ہے جو ٹیکس سے بچنے اور ٹیکس چوری کے واقعات کے خلاف اس طاقتور کثیر الفریقی معاہدے کا حصہ بن چکا ہے۔ ایک اور معاملے میں دیکھیں تو پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان پاکستانیوں کے سوئس بینکوں میں اکائونٹس کی معلومات کے تبادلے کے معاہدے کی توثیق مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں ہوئی اور اس پر دستخط ہوئے تھے۔ ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک سوئس تعاون کا معاہدہ بھی گزشتہ حکومت میں ہوا تھا لیکن معاہدے کی توثیق اب سوئس حکام نے حال ہی میں کی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رولز آف بزنس کے مطابق پاکستان اور بیرون ممالک کے درمیان ایسے کسی بھی معاہدے کو وفاقی کابینہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ چند ماہ کے دوران کابینہ کے کئی اجلاس منعقد کیے ہیں لیکن منظوری کیلئے ایسا کوئی معاہدہ کبھی پیش نہیں کیا گیا۔ ایک ذریعے کے مطابق، وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ اُس شخص کیخلاف کارروائی کریں جس نے اُنہیں غلط معلومات فراہم کیں۔ کہا جاتا ہے کہ انکوائری کا حکم بھی دیا جا سکتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا یہ کام وزیراعظم کو رسوا کرنے کیلئے تو نہیں کیا گیا۔