قانتہ رابعہ
میٹرک کے دوران سکول میں کچھ نئی اساتذہ آئی تھیں . بہت ڈیسنٹ ، اور بردبار قسم کی ۔۔۔۔ لیکن ہر فن مولا چھوٹے سے قصبے میں جہاں کوئی سہولت نہیں تھی . ان کا بڑے بڑے شہروں سے ٹرانسفر ہوکر آنا اور جم کے اسی جگہ کو ٹھکانہ بنالینا آسان بات نہ تھی۔شاید اسی لیے تمام طالبات کی وہ آئیڈیل ٹیچرز تھیں ۔ بچیاں ان کے بولنے ، چلنے کھانے پینے تک کے انداز کو فالو کرتیں ۔
ثروت کو یاد تھا سکول میں سپورٹس کا پیرئڈ انہوں نے شروع کروایا ، اسمبلی میں چھوٹے چھوٹے مقابلے کرواتیں ، ربیع الاول میں بہت بڑے پیمانے پر محفل میلاد کا انعقاد کرتیں اور طالبات کی والدہ کے علاوہ شہر کی نامور خواتین کو مدعو کرتیں ۔ سفید دوپٹوں سے پیشانی کو ڈھانپ کر دھیمی آواز میں نعتیہ کلام پڑھتیں ۔ آواز میں زیروبم آتا . لہجہ بھیگ بھیگ جاتا اور سامعات کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ۔ سرکار کی آمد کی کس کو خوشی نہیں ہوتی ، سب ہی نعتیہ کلام پڑھنے میں حصہ لیتیں . بعد ازاں اجتماعی دعا اور شیرینی تقسیم ہوتی ۔!!
چالیس سال کے بعد بیٹھے بٹھائے ثروت کو اپنی پیاری سی ٹیچرز مس ملک اور مس بخاری یاد آئیں اور اس یاد کے ساتھ ہی محفل میلاد میں پڑھی جانے والی نعتیں بھی !!!
ثروت نے نعت اسی لے میں گنگنانا شروع کر دی ۔ چند ہی منٹوں کے بعد ان کا ڈیڑھ پونے دو سالہ پوتا بہزاد علی اندر سے آیا اور دادی کی گود میں بیٹھنے کی بجائے اچھل کود شروع کردی ۔
،،کبھی تو ٹک کر بیٹھ جایا کرو ، لگتا ہے تم تو پیدایشی نچئیے ہو ، ثروت نے اسے دبوچا مگر کچھ دیر کے بعد انہیں سمجھ میں آئی کہ جسے وہ اچھل کود کہہ رہی ہیں یہ تو باقاعدہ ناچ کی کوئی قسم ہے ،،
لا حول ولا قوہ الا باللہ ،، انہوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور سوچ میں پڑ گئی کہ نعت پر تو ڈانس کرنا نہیں بنتا ، بس بچہ ہے ناں بے سمجھ ہوسکتا ہے ، ہر گنگنانے والی چیز پر ایسے ہی کرتا ہو ، ڈیڑھ دو ماہ ننھیال میں اپنی خالہ اور ماموں کی شادی میں شرکت کی وجہ سے رہ کر آیا ہے . ہوسکتا ہے تب بچوں نے کوئی ہلہ گلہ کیا ہو.
اپنے اپ کو ثروت نے مطمئن کیا اور دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئیں
دو چار گھنٹے کے بعد انہوں نے ٹی وی چینل پر نعت خواں کو نعت پڑھتے دیکھا ۔ کچھ ہی دیر میں وہ نعت دہرانے سے انہیں ازبر ہوگئی ۔ربیع الاول کا مہینہ تھا ویسے بھی کوئی نہ کوئی نعت ان کے لبوں پر ہی ٹہری رہتی ۔ اپنے دھیان میں روٹی بناتے ہوئے وہ نعت خوانی میں مصروف تھیں کہ ان کا بڑا بیٹا مکرم ان کے پاس آیا اور آہستہ سے بولا
” مما جی یہ نعت مت پڑھئے "
استغفراللہ ،کیوں نہ پڑھوں؟ کیا یہ شرکیہ نعت ہے؟؟ انہیں سمجھ میں نہیں آیا کہ کیسے پوچھوں
،،امی شرکیہ نہیں مگر پھر بھی نہ پڑھیں!! وہ سنجیدہ تھا
مگر کیوں ؟ اتنی پیاری لے میں ہے یہ ! وہ بڑبڑائی۔
مماجی ! یہ نعت اصل میں انڈیا کی ایک گندی اور ننگی فلم کے گانے کی طرز پر ہے اور اس گانے میں بے ہودگی اور بے حیائی کے تمام لوازمات پورے کے پورے موجود ہیں . مکرم نے ضبط کرتے ہوئے وضاحت جاری رکھی ۔۔،،اور امی یہ نعت میرے دوستوں کو بھی بہت پسند تھی ۔ ایک دن میرا دوست حافظ محمد ابرار ایک جیبی سائز کا پمفلٹ لایا جنتری جیسا اور ایک صفحہ کھول کر اس پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ” یہ دیکھو یار "
ہم نے اچک کر وہ کتاب لی تو وہ کوئی نعتیہ کلام کی ڈائری نما دس بارہ اوراق کی کتاب تھی جس کے ہر صفحہ پر ایک مشہور نعت درج تھی اور اس نعت کے اوپر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ” نعتیہ کلام بطرز گانا فلاں ۔۔۔۔اور اس کے آ گے گانے کے بول گلوکار کانام اور فلم کا نام لکھا ہوا تھا ۔ جو نعت ہم سب دوستوں کو پسند تھی ہم نے اس کی فلم کا نام نوٹ کیا اور اگلے دن اس فلم کو دیکھنے کا اہتمام بھی ہوگیا
،،مما جی ! میں بتا نہیں سکتا جب وہ گانا جو کہ مشہور فلمی جوڑے پر فلمایا گیا تھا دیکھتے ہوئے ہماری کیا حالت ہوئی ۔ ہم سب ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے ۔ ہم نے فلم بند کردی اس کے بعد جب کبھی اور جہاں بھی میں یہ نعت سنتا ہوں میرا جسم کپکپانے لگتا ہے . اتنی گھٹیا رومانوی فلم کے بے ہودہ گانے پر دنیا کی سب سے معزز ،معتبر ہستی کی شان میں کلام ۔
دونوں چیزیں گڈ مڈ ہوجاتی ہیں اور شاید آج کے بدی کے دیوتائوں کا یہی طریقہ ہے نیکی کو بھی گندگی میں لتھیڑ دو ۔ مکرم کی آواز بھرا گئی تھی ، آنسو اس کے گالوں پر ٹک گئے تھے ۔ فرط ادب سے انہیں بھی شرمندگی ہورہی تھی شائد#