نماز کے دوران سیلفی ، ریاکاری

ریاکاری ، اس کی اقسام ، نقصانات اور بچنے کی موثر تدابیر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ ملک / شعبہ ابلاغ عامہ ، جامعہ کراچی

شیخ سعدی کی حکایات میں ایک قصہ ملتا ہے ایک شخص جو دیکھنے میں بہت پرہیزگار اور عبادت گزار معلوم ہوتا تھا۔ ایک بادشاہ کا مہمان ہوا۔ جب کھانے کے لیے دسترخوان پر بیٹھا تو اپنی خوراک سے کم کھایا اور جب نماز کے لیے کھڑا ہوا تو عادت سے زیادہ وقت صرف کیا تاکہ لوگ اس کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور ان کے دلوں میں اس کی عقیدت بڑھے۔

اے جاہل اور گنوار شخص ! تو کعبہ کی زیارت کے لیے جانا چاہتا ہے مگر تو وہاں نہ پہنچ سکے گا کیونکہ تو جس راستے پر جا رہا ہے یہ تو ترکستان کا راستہ ہے ۔ یعنی تمھارا مقصد تو یہ ہے کہ نیک عمل کر کے خدا کی خوشنودی حاصل کرو۔ لیکن تم نے ریاکاری کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکو گے۔

جب وہ بزرگ نما شخص اپنے مکان پر واپس آیا تو کھانا مانگا ۔ اُس کا لڑکا بہت سمجھ دار تھا . باپ سے کہنے لگا۔ ابّا جان! کیا آپ نے بادشاہ کے دسترخوان پر کھانا نہیں کھایا ۔ اس نے کہا میں نے بادشاہ کے یہاں بہت تھوڑا سا کھایا ہے تاکہ اس پر اور دوسرے لوگوں پر میری بزرگی کا اثر پڑے اور مجھ سے عقیدت بڑھے۔

لڑکے نے کہا۔ ابّا جان! آپ نماز بھی دوبارہ پڑھ لیجیے کیونکہ بادشاہ کے ساتھ آپ نے جو نماز پڑھی وہ دکھاوے کے لیے تھی۔ خدا تعالیٰ کے لیے نہ تھی

جو شخص اپنی معمولی ہنر مندی دوسروں کو دکھاتا ہے لیکن اپنے بڑے عیبوں کو چھپاتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح سے کھوٹے روپیہ سے کوئی چیز نہیں خریدی جا سکتی اسی طرح بُرائیوں سے نیک نامی نہیں حاصل ہو سکتی ہے۔

خود نمائی ،دکھاوا ،ریاکاری ایک ہی بیماری کے تین نام ہیں۔ دکھاوا اخلاص کی ضد ہے ۔ یہ صرف ایک فرد واحد ہی کا عمل نہیں ہوتا بلکہ اس میں  گروہ ، برادریاں ، قبیلے اور بعض اوقات پورے پورے ممالک متاثر ہوتے ہیں ۔

مولانامحمد عابد ندوی کے بقول ریا کاری ، نام و نمود اور شہرت کا جذبہ ، نہایت قبیح عادت اور برے اخلاق و کردار میں سے ہے ۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی کہ بندۂ مومن جو بھی نیک کام کرے وہ اﷲ کے لئے کرے ، اس کا دل اخلاص و للہیت کے جذبہ سے معمور ہو ، اس کا مقصد عمل صالح سے اﷲ کی رضا جوئی اور خوشنودی کا حصول ہو نہ کہ نام و نمود اور لوگوں میں اپنے کو بڑا ظاہر کرنا یا ان کی تعریف اور دنیاوی فائدہ حاصل کرنا ہو ۔

ﷲ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے ، ا سے وہ نیکی ہرگز قبول نہیں جس کے کرنے میں بندہ مخلص نہ ہو ، اﷲ کی رضا جوئی چھوڑ کر کسی اور کو خوش کرنے یا دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے وہ نیکی انجام دی گئی ہو ۔ ریا کاری ، اخلاص کے منافی ہے ۔

وکی پیڈیا کے مطابق خود کی تشہیر ایک سماجی اور نفسیاتی نظریہ ہے ۔ جس کا یقین ہے کہ لوگوں کو دوسروں کی طرف سے دوسروں کی طرف سے اپنے بارے میں مضبوط عقائد اور احساسات کے مطابق معلوم ہونا چاہئے ، یہ خود خیالات ہیں ( بشمول خود تصورات اور خود اعتمادی ).

دائمی خود تصورات اور خود اعتمادی دنیا کو سمجھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ خود نمائی کی کوششیں ممکنہ طور پر منفی نفسیات کے سبب بن سکتی ہیں ۔ ریاکاری شرک ہے ۔ اور شرک گناہ کبیرہ ہے ۔ ریاکاری اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ کاموں میں سے ایک ہے ۔

قرآن میں ہے’’اے ایمان والو ! اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور تکلیف پہنچاکر ضائع نہ کرو اُس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور اﷲ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔‘‘ (البقرہ264)۔ایک اور جگہ ریاکاری کومنافقین کی خصلت قرار دیا گیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’بے شک منافق اﷲ سے چالبازیاں کررہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں ، صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں ۔‘‘ (النساء 142 )۔

ایک اور جگہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ہلاکت و بربادی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں وہ جو ریا کاری کرتے ہیں ۔‘‘(الماعون6-4 ) احادیث میں بھی ریاکاری کی بہت وعید آئی ہے ۔

محمود بن لبیدؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ’’ شرک اصغر ‘‘ سے ڈرتا ہوں ۔صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا یا رسول اﷲﷺ !شرک اصغر کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا ریا کاری ۔‘‘(مسند احمد)۔ایک اور روایت میں رسول اﷲﷺنے اپنی اُمت کے بارے میں شرک کا خوف ظاہر فرمایا ۔ آپﷺسے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ ﷺکے بعد آپﷺ کی اُمت شرک میں مبتلا ہوجائے گی ؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ہاں ! پھر یہ وضاحت فرمائی کہ وہ لوگ چاند سورج کی پتھر اور بتوں کی پرستش نہیں کریں گے لیکن ریا کاری کریں گے اور لوگوں کو دکھانے کیلئے نیک کام کریں گے ( تفسیر ابن کثیر)۔

ریاکاری کی اقسام :

اخلاص اور ریا : کسی بھی عمل کی قبولیت کے لئے دو بنیادی شرطوں کا پایا جانا بے حد ضروری ہے ، ان میں سے کسی ایک شرط کا فقدان اس عمل کی قبولیت سے مانع ہو گا ، پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل خالص اللہ کی ذات کے لئے کیا گیا ہو ۔دوسری شرط یہ ہے کہ وہ سنت نبویﷺکے مطابق ہو . اللہ رب العزت نے ان دونوں شرطوں کو مختلف آیات میں بیان فرمایا ہے ، تاہم درج ذیل آیت کریمہ میں دونوں شرطیں یکجا بیان فرمائی ہیں، ارشاد ہے : پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو ، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھرائے۔” 

اخلاص کے فوائد : اخلاص کے فوائد وثمرات اوردنیا وآخرت میں اس کے نیک انجام کی معرفت حاصل کرنا ، ان ثمرات میں سے یہ بھی ہے کہ اخلاص امت کی نصرت ، اللہ کے عذاب سے نجات ، دنیا و آخرت میں منازل و درجات کی بلندی ، دنیا میں گمراہی سے حفاظت ، اللہ عزوجل کی اور اہل ارض وسما کی بندے سے محبت سے شرفیانی ، نیک نامی ۔ دنیا وآخرت کی مصیبتوں سے نجات ، نیک بختی اور توفیق الہی کا احساس و شعور اور اس سے اطمینان ، پریشان اور دشواریوں کے برداشت کی قوت ، دلوں میں ایمان کی آرائش وزیبائش ، دعا کی قبولیت ، نیز قبر میں نعمت اور خوشی کی بشارت کا سبب ہے۔

اخلاص عبادات کی روح ہے، اس کے بغیر ساری عبادتیں بے جان ہیں ۔

ریا کاری کی اقسام

1: ایک ریا منافقین کی ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے ظاہری طور پر اسلام کا دعوی کرتے اور نام لیتے ہیں مگر ان کے دلوں میں کفر پوشیدہ ہوتا ہے- یہ ریا اور طرز عمل، توحید کے منافی اور اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے۔

2:بندے کا مقصود اللہ کے علاوہ کچھ اور ہو اس کی خواہش یہ ہو کہ لوگ اس کے کارنامے کو جانیں ، اخلاص بالکل مقصود نہ ہو ، تو یہ نفاق کی ایک قسم ہے۔ اور توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہے۔

3:بندہ اللہ کے لئے عبادت میں داخل ہو اور اللہ ہی کے لئے عبادت سے نکلے ، پھر اس چیز کا لوگوں کو علم ہو جائے اور اس پر اس کی تعریف ہو تو اس تعریف سے اس کے دل کو سکون واطمنان حاصل ہو اور وہ مزید اس بات کی تمنا کرے کہ لوگ اس کی تعریف وتوصیف کریں ، یہ خوشی ومسرت ، تعریف کی مزید خواہش اور اپنے مطلوب کے حصول کی تمنا وغیرہ پوشیدہ ریا کاری پر دلالت کرتی ہیں۔

4:جسمانی ریاکاری: جیسے کوئی شخص چہرے کی زردی اور جسم کی کمزوری ظاہر کرے ، اس سے لوگوں کو یہ دکھانا مقصود ہو کہ وہ بڑا عبارت گزار ہے اور اس پر آخرت کا خوف غالب ہے اور کبھی کبھار ریا کاری آواز کی پستی اور ہونٹوں کی پژمردگی سے بھی ہوتی ہے تاکہ لوگوں کو یہ شعور دے کہ وہ روزے سے یا بھوکا ہے۔

5:لباس یا وضع قطع کے ذریعے ریا کاری : جیسے کوئی شخص پیوند لگے کپڑے پہنے یا اسلامی حلیہ اپنائے تا کہ لوگ کہیں کہ یہ دنیا سے بڑا بے رغبت انسان ہے، یا کوئی ایسا لباس پہنے جسے ایک خاص طبقے کے لوگ پہنتے ہوں جنہیں لوگ علما کی فہرست میں شمار کرتے ہوں۔

6:قولی ریاکاری: یہ عام طور پر وعظ نصیحت نیز بحث و تکرار ،مناظرہ اور علم کے اظہار کے لئے احادیث وآثار کے حفظ کے ذریعہ دین داروں میں پائی جاتی ہے۔

7:عملی ریا کاری :جیسے دکھاوے کے لئے نمازی کا نماز ،رکوع اور سجدہ وغیرہ طویل کرنا اور خشوع وخضوع ظاہر کرنا،نیز روزے ،حج اور صدقہ میں ریا کاری وغیرہ ۔

8:ساتھیوں اور ملاقاتیوں کے ذریعے ریا کاری: جیسے کوئی شخص بہ تکلیف کسی عالم کی ملاقات کرے،تاکہ یہ کہا جائے کہ فلاں تو فلاں کی زیارت ملاقات کے لئے گیا تھا۔اسی طرح اپنی زیارت کے لئے لوگوں کو دعوت دینا ،تا کہ یہ شہرہ ہو کہ دیندار لوگ اس کے پاس آتے ہیں۔

9:لوگوں کے درمیان اپنی ذات کی مذمت کے ذریعے ریا کاری: اور اس سے اس کا مقصد لوگوں کو یہ دکھانا ہو کہ وہ بڑا متواضع اور خاکسار آدمی ہے،تا کہ ان کے نزدیک اس کا مقام لوگوں کو یہ دکھانا ہو کہ وہ بڑا متواضع اور خاکسار آدمی ہے،تا کہ ان کے نزدیک اس کا مقام بڑھ جائے اور اسے بیان کر کے لوگ اس کی مدح وستائش کریں،یہ ریا کاری کی باریک قسموں میں سے ہے۔

10:ریا کاری کی باریکیوں اور اسرار میں سے یہ بھی ہے کہ عمل کرنے والا اپنی نیکی چھپائے ،اس طرح کہ وہ یہ نہ چاہے کہ لوگوں کو اس کی نیکیوں کی اطلاع ہو اور نہ اس کے ظاہر ہونے سے اسے خوشی ہی ہو ،لیکن اس کے باوجود جب وہ لوگوں کو دیکھے تو اس کی خواہش یہ ہو کہ لوگ اس سے سلام کرنے میں پہل کریں،اس سے خندہ پیشانی اور احترام سے ملیں ،اس کی تعریف وتوصیف کریں،گرم جوشی سے اس کی ضرورت پوری کریں اور خرید وفروخت میں اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں اور اگر یہ سب کچھ نہ حاصل ہوتو اپنے دل میں رنج وتکلیف محسوس کرے،گویا وہ اپنی نیکیوں پر عزت واحترام کا طلب گار اور خواہش مند ہے۔

” رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ”پہلے قیامت میں جس کا فیصلہ ہو گا وہ ایک شخص ہو گا ۔ جو شہید ہوا ۔ جب اس کو اللہ کے پاس لائیں گے تو اللہ اپنی نعمت اس کو بتلا دے گا وہ پہچانے گا ، اللہ تعالیٰ پوچھے گا : تو نے اس کے لیے کیا عمل کیا ہے ؟ وہ بولے گا : میں لڑا تیری راہ میں یہاں تک کہ شہید ہوا ۔ اللہ تعالیٰ فرما دے گا : تو نے جھوٹ کہا تو اس لڑا تھا اس لیے کہ لوگ بہادر کہیں اور تجھے بہادر کہا گیا ، پھر حکم ہو گا اس کو اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیں گے ۔

اور ایک شخص ہو گا جس نے دین کا علم سیکھا اور سکھلایا اور قرآن پڑھا ۔ اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس لائیں گے وہ اپنی نعمتیں دکھلائے گا وہ شخص پہچان لے گا تب کہا جائے گا تو نے اس کے لیے عمل کیا ہے ؟ وہ کہے گا : میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور قرآن پڑھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو جھوٹ بولتا ہے تو نے اس لیے علم پڑھا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لیے پڑھا تھا کہ لوگ قاری کہیں تجھ کو عالم اور قاری دنیا میں کہا گیا پھر حکم ہو گا ، اس کو منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیں گے ۔

اور ایک شخص ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا تھا اور سب طرح کے مال دیئے تھے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں دکھلائے گا وہ پہچان لے گا اللہ تعالیٰ پوچھے گا : تو نے اس کے لیے کیا عمل کیے وہ کہے گا : میں نے کوئی راہ مال خرچنے کی جس میں خرچ کرنا پسند کرتا تھا نہیں چھوڑی تیرے واسطے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو جھوٹا ہے تو نے اس لیے خرچا کیا لوگ سخی کہیں تو تجھے لوگوں نے سخی کہہ دیا دنیا میں ، پھر حکم ہو گا ، منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں ڈال دیں گے۔”صحیح مسلم

ریا کاری کی بنیاد اور اصل “جاہ مرتبہ”کی محبت ہے اور جس کے دل پر اس چیز کی محبت غالب آ جاتی ہے اس کی ساری فکر مخلوق کی رعایت ،ان کا چکر لگانے اور ان کے دکھاوے میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ اپنے تمام تر اقوال و افعال اور جملہ تصرفات میں ہمیشہ ان چیزوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جن سے لوگوں کے نزدیک اس کا مقام و مرتبہ اونچا ہو ۔

بیماری اور مصیبت کی یہی جڑ اور اساس ہے،کیونکہ جس شخص کو بھی اس کی خواہش ہوتی ہے اسے عبادت میں ریا کاری اور ممنوع وحرام کاموں کا ارتکاب لامحالہ کرنا پڑتا ہے یہ بڑا دقیق اور پیچیدہ باب ہے جسے اللہ عزوجل کا علم ومعرفت رکھنے اور اس سے محبت کرنے والے ہی جان سکتے ہیں ۔ اگر اس سبب اور تباہ کن مرض کی تفصیل بیان کی جائے تو وہ درج ذیل تین اصولوں کی طرف لوٹے گا:

٭حمدوثنا اور مدح وستائش کی لذت کی محبت وچاہت ۔

٭دوسروں کی طرف سے اپنی مذمت برائی سے نفرت ۔

٭لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس کی لالچ۔

یہ تین چیزیں ریا کاری کا سبب اور اصل محرک ہیں،لہذا ان سے بچ کر رہیں۔

ریا کاری کے ازالہ وعلاج اور اخلاص کے حصول کے چند طریقے:

1:دنیا کی خاطر عمل اور ریا کاری کے انواع واقسام اور اسباب ومحرکات کی معرفت حاصل کرنا اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا۔

 2:کتاب وسنت پر مبنی اللہ کے اسماء وصفات اور افعال کی صحیح معرفت کے ذریعے اللہ کے جلال وعظمت کا علم حاصل کرنا،کیونکہ جب بندے کو اس بات کا علم ہو گا کہ اللہ واحد ہی تنہا نفع ونقصان ،عزت وذلت۔پستی وبرتری ، دینے نہ دینے اور مارنے جلانے کا مالک ، خیانت کرنے والی آنکھوں اور سینوں میں پوشیدہ رازوں کا جاننے والا ہے ، نیز یہ کہ اللہ وحدہ لاشریک ہی تنہا مستحق عبادت ہے،تو یہ ساری چیزیں اخلاص اور اللہ کے ساتھ سچائی پیدا کریں گی،لہذا توحید کی تمام قسموں صحیح معرفت حاصل کرنا ضروری ہے۔

3:آخرت میں اللہ عزوجل کی تیار کردہ نعمت وعذاب ، موت کی ہولناکیوں اور عذاب قبر وغیرہ کی معرفت حاصل کرنا،کیونکہ جب بندے کو ان چیزوں کا علم ہو گا اور وہ سمجھ دار ہو گا تو ریاکاری ترک کر کے اخلاص اپنائے گا۔

4:دنیا کے لئے عمل کرنے نیز عمل کو ضائع کرنے والی ریا کاری کی خطرناکی سے ڈرنا ، کیونکہ جو کسی چیز سے ڈرتا ہے وہ اس سے بچتا رہتا ہے اور نجات پاتا ہے اور جو ڈرتا ہے وہ منہ اندھیرے سفر شروع کرتا ہے اور جو منہ اندھیرے سفر شروع کرتا ہے وہ منزل پا لیتا ہے۔لہذا انسان کے لئے مناسب بلکہ ضروری ہے کہ جب اس کی خواہش مدح وستائش کی آفت کی طرف آمادہ کرے تو اپنے نفس کو ریا کاری کی آفتوں اور اللہ کی ناراضی کی یاد دلائے اور جسے لوگوں کی محتاجی اور کمزوری کا علم ہوتا ہے وہ راحت محسوس کرتا ہے ۔

5:بندہ جب لوگوں سے ڈرتا ہے اور اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرتا ہے ،تو اللہ عزوجل اس سے ناراض وغضبناک ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے ناراض کر دیتا ہے تو کیا آپ لوگوں کی ناراضی سے ڈرتے ہیں؟ اگر آپ دعوائے اخلاص میں واقعی سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔

6:جن چیزوں سے شیطان دور بھاگتا ہے ان کی معرفت حاصل کرنا،کیونکہ شیطان ریاکاری کا منبع اور مصیبت کی جڑ ہے،شیطان بہت ساری چیزوں سے بھاگتا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں: اذان ،تلاوتِ قرآن ، سجدہ تلاوت ، شیطان سے اللہ کی پناہ طلبی ، گھر سے نکلتے اور مسجد میں داخل ہوتے وقت”مسنون دعائیں”پڑھنا اورصبح وشام کے اذکار کی ، نماز کے بعد کے اذکار کی اور اقسام مشروع اذکار کی پابندی کرنا۔ کثرت سے خیر کے کام اور خفیہ عبادتیں انجام دینا اور انہیں پوشیدہ رکھنا ، جیسے قیام اللیل ، خفیہ صدقہ ، تنہائی میں اللہ کے خوف سے رونا ، نفل نمازیں ، دینی بھائیوں کے لئے ان کی عدم موجودگی میں دعا کرنا ، کیونکہ اللہ عزوجل خفیہ متقی پرہیز گار بندے سے محبت کرتا ہے۔

7:لوگوں کی مذمت اور تعریف کی پروا نہ کرنا،کیونکہ اس سے نہ تو نقصان پہنچتا ہے نہ نفع بلکہ ضروری ہے کہ اللہ کی مذمت کا خوف ہو اور اللہ کے فضل واحسان سے خوشی۔

8:سوء خاتمہ کا خوف ،چنانچہ بندے کو ڈرنا چاہیے کہ ریا اور دکھاوے کے یہ اعمال ہی اس کا آخری عمل اور اس کی زندگی کا آخری لمحہ نہ ہو جائیں کہ اس کے نتیجے میں بڑا عظیم خسارہ اٹھانا پڑے،کیونکہ لوگ اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے اور سب سے بہتر اعمال آخری اعمال ہوا کرتے ہیں۔

9:مخلص وتقوی شعار افراد کی صحبت اور ہم نشینی اختیار کرنا،کیونکہ مخلص ہم نشین آپ کو خیر سے محروم نہ کرے گا اور آپ اس سے اپنے لیے نیک نمونہ پائیں گے،لیکن اگر ریا کار اور مشرک شخص کا عمل اپنائیں گے تو وہ آپ کو جہنم کی آگ میں جلا دے گا۔

10:لوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اس کا لالچ نہ کرنا، کیونکہ اخلاص اورمدح و ثنا کی محبت اور لوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اس کے لالچ کا ایک دل میں اکھٹا ہونا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح آگ اور پانی کا اور گوہ اورمچھلی کا یکجا ہونا محال ہے۔

خواتین اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔اپنے بچوں کے سامنے ریا کو بحیثیت ایک برائی کے متعارف کروانا۔گھروں میں اخلاص  کو متعارف کروانا۔قول و عمل سے۔اپنے کردار سے بچوں میں اخلاص پیدا کیجئے۔اپنے قول  و عمل سے ریا کو ختم کیجیے ۔خواتین اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔اپنے بچوں کے سامنے ریا کو بحیثیت ایک برائی کے متعارف کروانا۔گھروں میں اخلاص  کو متعارف کروانا۔قول و عمل سے۔اپنے کردار سے بچوں میں اخلاص پیدا کیجئے۔اللہ ہمیں ریاکاری سے دور رکھے اور حق بات کہنے والا بنادے تاکہ ہم  روز قیامت رب کے پسندیدہ بندوں میں شمار ہوسکیں


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں